معاشی بریک تھرو وقت کا تقاضہ
تنقید کا سلسلہ جاری رہا، کوئی اسٹریٹی جیکل بات نہیں ہوئی
وزیر اعظم عمران خان نے 2020 کو بلیو اکانومی کا سال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گوادر بندرگاہ سے جڑے منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل یقینی بنائی جائے، اپنی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر یہ بندرگاہ مستقبل میں ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوگی۔
وزیر اعظم ملکی ترقی کے حوالے سے ایک وژن رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی مملکت اپنی پاؤں پر کھڑی ہوکر دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرے۔ ان کے خلوص نیت سے کی جانیوالی کاوشیں قابل ستائش ہیں لیکن ہم ان زمینی حقائق سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ تاحال موجودہ حکومت ایک واضح سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے، قوم ایک اقتصادی سونامی کا انتظار کرتی رہی مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر تاحال نہیں ہوسکا، دوسری طرف کورونا وائرس وبا کی وجہ سے ہماری ملکی معیشت پرجو منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، ان کے تناظر میں رواں سال کو بلیو اکانومی ایئر قرار دینا اور مثبت نتائج حاصل کرنے کی بات کرنا بعید از قیاس ہے۔
بلاشبہ گوادر کی بندرگاہ اور بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبے گیم چینجر ضرور ہیں لیکن یہ سب کچھ دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے، اسی لیے وہ ہمارے خلاف سازشوں کے جال بن چکا ہے۔ ہم اگر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بات کریں تو کسے اس حقیقت سے انکار ہے کہ اس فرد نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے انتہائی مذموم کام سرانجام دیے ہیں۔
وہ بھارتی دہشت گرد ہے، کلبھوشن یادیو کو سزا کے خلاف اپیل کا حق دینے سے متعلق آرڈیننس کے اجراء پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور واک آؤٹ کیا۔ بلاول بھٹو نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے دہشت گردوں کی کبھی مخالفت نہیں کی، جو پائلٹ پاکستان پر حملہ کرنے آیا اسے چائے پلائی اور چھوڑ دیا، تازہ ترین این آر او کلبھوشن کو دیا گیا، سینیٹ میں معاملہ اٹھا تو راتوں، رات آرڈیننس جاری کردیا، جب کہ دوسری جانب حکومتی بنچوں سے بھی اپوزیشن جماعتوں پر شدید الزامات عائد کیے گئے۔
تنقید کا سلسلہ جاری رہا، کوئی اسٹریٹی جیکل بات نہیں ہوئی، ایک شور برپا کیا گیا، اختلاف رائے کو دانش مند حضرات زندگی کا حسن قرار دیتے ہیں، لیکن قومی سیاست میں کچھ ایسا چلن چلا ہے، کہ توبہ ہی بھلی۔ یہ ساری صورتحال افسوسناک ہے، کیونکہ کلبھوشن یادیو نے مملکت خداداد پاکستان کو نقصان پہنچایا، وہ ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے لیکن ہمارا قومی موقف اور بیانیہ تضاد کا شکار ہے۔ مقام افسوس ہے کہ اس طرح دنیا بھر میں کیا پیغام جائے گا۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے کلبھوشن یادیو کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل اور بیانیہ اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے انسانی ہمدردی کے طور پر کلبھوشن کو اپنے والد سے ملاقات کی پیشکش کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان ادھر عالمی عدالت انصاف کے17جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پر عزم ہے۔ ایک طرف پاکستان کی فراخدلی ہے کہ وہ ایک جاسوس کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں سہولتیں بہم پہنچا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے خلاف سازشوں کی بنت میں تاحال کمی نہیں ہے، اگلے روز خیبر پختونخوا کے علاقے پارا چنار میں دھماکہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں خاتون اور بچے سمیت سترہ افراد زخمی ہوگئے۔ طوری بازار میں دھماکے کے نتیجے میں اطراف میں موجود املاک کو بھی نقصان پہنچا، بتایا گیا ہے کہ آئی ای ڈی کے ذریعے دھماکہ کیا گیا، جسے سبزی کی ریڑھی میں نصب کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ درحقیقت دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات باعث تشویش ہیں، دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔
ہمارے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی، تاکہ آیندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔ وزیراعظم کے نام اپنے دوسرے خط میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا موقف ہے کہ این ایف سی نوٹیفکیشن کے نئے ٹرمز آف ریفرنسز آئین سے متصادم ہیں، آئین و قانون میں واضح ہے کہ مالیاتی وسائل کی تقسیم ہوگی اخراجات میں شیئرنگ نہیں ہوگی، نئے نوٹیفکیشن کے ٹی او آر ختم کیے جائیں۔ قومی سطح کے منصوبوں کے لیے وفاق صوبوں کے مالیاتی حصے سے کٹوتی نہیں کرسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وفاق کو سندھ کے موقف کو قومی و ملی یکجہتی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، قومی قیادت کو سیاست سے بالاتر ہوکر بھی بہت سے فیصلے ملکی مفاد میں کرنے ہونگے تاکہ اختلافات ختم ہوسکیں اور کسی صوبے کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کا تاثر نہ ابھرے۔
حکومتی سطح پر یہ تاثر امید افزا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں واضح کمی آرہی ہے، کورونا وائرس سے گزشتہ روز مزید پچپن افراد انتقال کرگئے، جس سے کل اموات کی تعداد 5758 ہوگئیں۔ جب کہ متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ کر2 لاکھ70 ہزار52 ہوچکی ہے۔ اس وقت ملک میں کورونا کے فعال کیسز 46ہزار658 رہ گئے ہیں۔
سندھ حکومت کا موقف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف ہے، وزیراعلیٰ سندھ صوبے میں بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد تاحال فکرمند نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق کراچی میں عید الاضحی 2 خطرناک وائرس کے سائے میں منائی جائے گی ان میں کووڈ19 اور کانگو وائرس شامل ہیں، کووڈ19 فروری سے جب کہ کانگو وائرس گزشتہ بیس برس سے پاکستان میں ہر سال مسلسل رپورٹ ہورہا ہے، کانگو وائرس صرف عیدالاضحی کے موقعے پر سامنے آتا ہے، عید کے موقعے پر ملک بھر میں جانوروں کی بڑے پیمانے پر آمدورفت کانگو وائرس کی بڑی وجہ ہے، جانوروں کی کھال سے چپکا ٹک (Tick) انسان کو کاٹ لے تو وائرس انسان کے جسم میں منتقل ہوجاتا ہے، اس مرض میں تیز بخار، پلیٹ لیٹس کی شدید کمی ہوجاتی ہے، کانگو وائرس جنگلی اور پالتو جانوروں پر پلنے والے چیچڑ (ٹک) کے ذریعے پھیلتا ہے۔
یہاں پر اس بات کو دہرانا ضروری ہے کہ کورونا وائرس کا تدارک صرف احتیاط سے ممکن ہے، پوری دنیا میں متعدد ممالک جن میں امریکا، چین اور روس شامل ہیں، وہ ویکسین کی تیاری کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ بھارت ادویہ سازی اور ویکسین کی تیاری کے حوالے سے خود کو ''گلوبل لیڈر'' قرار دیتا ہے۔ کورونا وائرس کا پھیلاؤ تو دنیا بھر میں جاری ہے لیکن بھارت جیسا گلوبل لیڈر چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر چوتھا شخص کورونا وائرس میں مبتلا ہے تو اس حوالے سے تو ہرڈ امیونٹی پیدا ہوجانی چاہیے۔
سماجی سطح پر پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے میں آ رہا ہے کہ باپ بیٹے سے، ماں بیٹی سے، بہن بھائی سے نہیں مل پا رہے ہیں، ایک عجیب سی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس بولنے اور سانس لینے سے بھی پھیلتا ہے۔ اس صورتحال میں ہر انسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ احتیاط سے خود کو اور اپنے پیاروں کو بھی محفوظ رکھے۔ دوسری جانب کانگو وائرس کی ابھی تک ویکسین دریافت نہیں ہوئی ہے، اس لیے احتیاط ہی اس کا واحد علاج ہے۔
ہمیں عید قربان کے موقعے پر قطعاً احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، اسی میں ہماری بھلائی اور حفاظت کا راز پوشیدہ ہے۔ حکومت چاہے لاکھ تسلی دے لیکن تاحال ہم بحیثیت قوم خطرے میں ہیں۔ کورونا وائرس مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے، یہاں پر ایک اہم بات دہرانا ضروری ہے کہ اس وبا کے حوالے سے بھی ہماری سیاسی جماعتیں ایک مشترکہ موقف اور لائحہ عمل پر متفق نہیں ہوسکیں۔ مکالمہ مسائل کے حل کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت مکالمے کی اہمیت و افادیت کو نظرانداز کرکے الزامات کی سیاست میں مشغول ہے اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے۔
ارباب اختیار کو کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی میں بھی بڑے بریک تھرو کی ضرورت ہے، وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کم آمدنی والے افراد کے لیے سستے گھروں کی تعمیر سے معاشی عمل تیز ہوگا، حکومت نے تعمیرات کے شعبے کے لیے جو مراعاتی پیکیج دیا ہے، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس پیکیج سے جہاں تعمیرات کے شعبے سے منسلک صنعتوں کو فروغ حاصل ہوگا وہاں عام آدمی، خصوصاً کم آمدنی والے افراد کے اپنے گھر کے خواب کے حصول کی تکمیل بھی ممکن ہوسکے گی۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ کورونا کی وبا نے دنیا بھرکی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے شعبہ تعمیرات کو فعال کرنے کے لیے مزید مراعات دینے کا اعلان کیا ہے، جس کی وجہ سے شعبہ تعمیرات سے وابستہ افراد میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی ہے اس صنعت کے ساتھ کم وبیش مزید پچاس صنعتیں جڑی ہیں جن کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے۔
اسی تناظر میں ان کی زیر صدارت نیشنل کوآرڈنیشن کمیٹی برائے ہاؤسنگ، کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ کا اجلاس ہوا، جس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت جلد از جلد مکمل کی جائے تاکہ اتھارٹی اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کرسکے۔
بینکوں کی جانب سے مارگیج کی سہولت کو فروغ دینے کے حوالے سے وزیر اعظم نے وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی کہ حکومت کی جانب سے بینکوں کو سبسڈی فراہم کرنے کے عمل کو آسان ترین بنایا جائے۔ یہاں پر ہم بصد احترام عرض کرنا چاہئیں گے، اس سے قبل بھی وزیراعظم پاکستان بچاؤ سرٹیفکیٹس، ایمنسٹی اسکیم، غیر ملکی تارکین وطن سے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم لائے، ایف بی آر کے چار چیئرمین تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ سب مہمات ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ کوئی بھی ٹھوس پالیسی ایسی تاحال وجود میں نہیں آسکی ہے جو ملکی معیشت کو سہارا دے سکے، یہ سوچنا حکومت کا کام ہے کہ آخر اس کی پالیسیوں میں کیا خامیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ اقتصادی اور معاشی بحران سے ملک کو نکال نہیں پا رہی ہے۔