صدا بہ صحرا
اصل بات یہ ہے کہ اپوزیشن عام طور پرحکومت پرکرپشن کے الزامات لگاتی ہے
اپوزیشن آئے دن حکومت مخالف اعمال پر تلی رہتی ہے۔ تازہ مخالفت میں حکومت ہٹاؤ تحریک شامل ہے۔ دونوں جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ حکومت ہٹاؤ تحریک چلائی جائے۔ اس نیک کام کو مضبوط بنانے کے لیے اپوزیشن کی اسٹیئرنگ کمیٹی میں توسیع کی گئی ہے اور عید کے بعد اے پی سی یعنی اے بی سی بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ مبارک فیصلہ بلاول بھٹو زرداری اور لیگی وفد میں ملاقات کے دوران کیا گیا۔ ملاقات ڈیڑھ گھنٹے جاری رہی، ملاقات میں جو مدبرین شامل تھے ان کے نام نامی اسم گرامی یہ تھے۔ ایاز صادق، سعد رفیق، پرویز اشرف، چوہدری منظور اورحسن مرتضیٰ۔
ان سیاستدانوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں سے ملک شدید دباؤکا شکار ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے اب حکومت کو مزید برداشت کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ جہاں تک گنجائش کا سوال ہے گنجائش اتنی رہتی ہے کہ تمام مدبرین سمیت دیگر افراد بھی اس میں سماسکتے ہیں، اس طرح اسٹیرنگ ادھراُدھر بھاگ نہیں سکتا۔ اسٹیرنگ ہمیشہ تجربہ کار ڈرائیورکو دیا جاتا ہے تاکہ گاڑی حادثات سے بچی رہے۔ مذکورہ اسٹیرنگ کمیٹی میں توسیع کے بعد اسٹیرنگ مضبوط بھی ہو سکتا ہے اور اگر کھینچا تانی ہوئی تو گاڑی اِدھر اُدھر بھی ہوسکتی ہے اور ایکسیڈنٹ کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اپوزیشن عام طور پرحکومت پرکرپشن کے الزامات لگاتی ہے اور عوام بھی کرپشن پر ناراض ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے تین سال کے دوران اپوزیشن کوکرپشن کے تین الزامات بھی دستیاب نہیں ہوسکے۔ اس لیے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے ملک شدید دباؤ کا شکار ہے۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے اس لیے حکومت کو مزید برداشت کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ خطبات اپوزیشن نے ایک ملاقات اور پریس کانفرنس کے دوران دیے۔ سیاسی جماعتوں میں اتفاق عموماً مثبت باتوں پر ہوتا ہے اپوزیشن نے ملاقات اور پریس کانفرنس کے دوران جو فرمایا ہے اس میں مثبت بات ایک بھی نہیں ہے حکومت ہٹاؤ تحریک سر سے لے کر پیر تک منفی ہے۔
کورونا سے ملک کے سارے عوام دہشت زدہ ہیں ہر ایک کو اپنی جان کی پڑی ہوئی ہے اور ہماری عقلمند اپوزیشن حکومت ہٹاؤ تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ کیا اسے ملک دوستی کہا جائے یا کچھ اور کہا جائے اس کا فیصلہ عوام کریں گے۔ تحریک کا نام بھی مخالفانہ ہے اس سے عام آدمی کوئی مثبت اثر قبول نہیں کرسکتا، انتقامی تاثر ابھرتا ہے جو خود اپوزیشن کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ تحریک کے نام ہی سے انتقام کا تاثر ابھرتا ہے اور یہ بات خود اپوزیشن کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے ہمارے خیال میں اپوزیشن میں کوئی زیادہ زیرک شخص نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے بڑی سر ماری کے بعد حکومتیں بنانے اور ہٹانے کے فارمولے بنائے جس کے مطابق یہ اختیارات پارلیمنٹ کو دیے گئے اور یہ کارروائی آئینی کہلاتی ہے۔ اپوزیشن نے اس جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے اس کا سہل طریقہ یہ نکالا کہ ''حکومت ہٹاؤ تحریک'' چلائی جائے اور اس تحریک کے ذریعے حکومت کو ختم کیا جائے '' ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے'' اگر ہماری اپوزیشن اس تحریک کے ذریعے حکومت گرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس آسان فارمولے پر ہرکمزور اپوزیشن عمل کرنے لگے گی اور ہر روز کسی نہ کسی حکومت کے دھڑن تختے کی سرخیاں اخبارات میں لگنے لگیں گی۔ مگر اس فارمولے میں ایک بڑی خرابی ہے وہ یہ کہ حکومتیں کوئی کچی یا پکی دیواریں نہیں ہیں کہ دو چار مستری دو چار مزدور لگا کر گرا دیں۔ حکومتوں کو گرانے کے لیے عوامی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے اور عوامی تحریکیں لاکھوں عوام پر مشتمل ہوتی ہیں۔
اپوزیشن کی بدقسمتی یہ ہے کہ عوام اس کے ساتھ نہیں اس سے قبل حکومتیں گرانے حکومتیں ہٹانے کی تحریکیں بار بار چلائی گئیں لیکن حکومتیں گریں نہ حکومتیں ہٹائی گئیں بلکہ اس کے برخلاف ہوا یہ کہ حکومتیں اور مضبوط ہوگئیں اس کی وجہ یہ رہی کہ ملک بھر میں اربوں کی حزب اختلافی کرپشن کی ملک بھر میں ایسی آوازیں اٹھیں کہ حکومت گراؤ تحریکیں ان آوازوں میں دب گئیں اور اپوزیشن اپنا سا منہ لے کر رہ گئی اتفاق سے اب بھی یہی صورت حال ہے۔ گراؤ ہٹاؤ کی آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہیں اور حکومت طاقتور ہو رہی ہے۔
اپوزیشن کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ جب اقتدار میںآتی ہے اس طرح تھوک کے حساب سے لوٹ مار میں لگ جاتی ہے جیسے سیاسی بارشوں کی تقریب روزہ کشائی ہو۔ ہم خوب می شناسم پیران پارسارا۔ یہ کس زاہد بیمارکی چھوڑی ہوئی پھلجھڑیاں ہوتی ہیں۔ لوگ جب کسی کو حد سے زیادہ بڑی نامعقولیت کا مظاہرہ کرتے دیکھتے ہیں تو بھاری آواز میں کہتے ہیں ''خدا سے ڈرو'' خدا سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے جن کے دلوں اور دماغوں میں دولت کی حد سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ ویسے بھی دولت کی خوبی یہ ہے کہ اچھے خاصے انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔
حکومت گراؤ تحریک بری نہیں، لیکن اس میں برائی یہ ہے کہ اس تحریک کا رخ صرف ایک مخصوص حکومت کی طرف ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر اس شخص کو حکومت گرانے کی آزادی ہونی چاہیے جس کو حکومت سے براہ راست یا باالواسطہ نقصان پہنچا ہو۔ ایسے شخص کو یہ سہولت ہو کہ وہ ایوان وزیر اعظم کے گیٹ سے جتنی طاقت سے چاہے سر ٹکرائے اس آزادی یا سہولت سے فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت کا ہر شاکی بلاتکلف حکومت گراؤ تحریک کا لیڈر بن جائے گا، زیادہ سے زیادہ نقصان یہ ہوگا کہ پیشانی پر زخم آئیں گے اور زخم پرانے ہو کر سیاہ دھبوں میں بدل جائیں تو اس کے فائدوں کو گنایا نہیں جاسکتا، حکومت گراؤ تحریک والے ہماری تجویز سے اتفاق کریں تو فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔