کولڈ وار یا سافٹ وار
پہلی سرد جنگ کی طرح اس جنگ کا نتیجہ جو بھی نکلے، یہ اعصاب کو تھکا دینے والی ہوسکتی ہے
2017 میں امریکا میں ایک بیسٹ سیلر کتاب شائع ہوئی جس کا عنوان تھا 'جنگ جو ناگزیر ہے، کیا امریکا اور چین اس پھندے سے بچ سکتے ہیں؟'
کتاب میں توسیڈائڈز ٹریپ کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت اور موجودہ عالمی طاقت کے درمیان جنگ ناگزیر ہوتی ہے۔
گزشتہ پانچ سو سال کی تاریخ میں ایسا 16 بار ہوا ہے کہ جب ایک ابھرتی ہوئی تیزی سے ترقی کرتی ریاست نے سپر پاور کی جگہ لینے کی کوشش کی، 12 دفعہ اس کا نتیجہ جنگ رہا۔
امریکا نے ہانگ کانگ میں چینی اقدامات پر چین پر کئی پابندیاں عائد کی ہیں، اس سے قبل نارتھ چائنا سی یا تائیوان یا پھر ہواوے تنازعہ، دونوں عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ رسہ کشی میں مصروف ہیں اور چالیس سال بعد سرد جنگ کے لوٹ آنے کی باتیں دوبارہ ہورہی ہیں۔
امریکا و چین کی موجودہ چپقلش امریکا و روس کی سرد جنگ سے چھ وجوہات کی بنا پر مماثلت رکھتی ہے۔
1- دونوں ممالک ایک مختلف سیاسی نظام رکھتے ہیں۔ امریکا لبرل جمہوری جبکہ چین کمیونسٹ سوشلزم کا داعی ہے اور فی الوقت دونوں ممالک کامیابی سے اپنے اپنے نظام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
2- یہ دو مخالف سیاسی نظام کی بالادستی اور برتری کی جنگ ہے۔
3- دونوں ممالک اپنے نظام اور اپنی روایات و اقدار کی سربلندی کے دعویدار ہیں اور اپنے سیاسی نظام کو دنیا کےلیے بہتر خیال کرتے ہیں۔
4- یہ عالمی عروج اور اثرورسوخ کی ایک وسیع اور کثیرالجہتی جنگ ہے۔
5- سوویت یونین اور امریکا کی سرد جنگ کے بعد ایک بار پھر سے دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہورہی ہے اور یہ تقسیم اس بار بھی سیاسی، جغرافیائی اور نظریاتی ہوگی (ہوسکتا ہے دو سے زیادہ بلاکس بنیں، یورپی یونین جرمنی کی قیادت میں غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دے سکتی ہے)
6- کوئی بھی فریق واضح اور دو ٹوک جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب تناؤ کا بڑا دور گزر گیا، سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، دنیا یونی پولر اور امریکا واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔ امریکا نے نیو ورلڈ آرڈر سمیت اپنی اجارہ داری بنائے رکھی تو طاقت کا توازن بالکل امریکا کے پلڑے کی طرف جھک گیا۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے چین نے ہر شعبے میں جو محیرالعقل ترقی کی ہے اس نے امریکا کی اجارہ داری اور واحد سپر پاور کو بہت زک پہنچائی ہے اور دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی طرف تیزی سے دھکیل دیا ہے۔
امریکا سمیت مغربی دنیا فری مارکیٹ کا نعرہ بلند ضرور کرتی ہے لیکن وہی فری مارکیٹ کے قوانین چائنا کے دیوہیکل ہواوے کے فائیو جی پراجیکٹ کے سامنے اپنی موت آپ مر چکے ہیں، جس طرح امریکا نے ہواوے پر پابندیاں لگائیں وہ کسی بھی طرح مبنی بر انصاف نہیں ہے۔ واضح رہے کہ چینی کمپنی ہواوے فائیو جی ٹیکنالوجی میں امریکا سمیت سبھی حریفوں سے کہیں آگے ہے، لہٰذا اگر چین فائیو جی لانچ کرتا ہے تو دوسری حریف کمپنیوں سے پہلے اربوں ڈالر منافع کمانے اور ایک بڑی مارکیٹ پر قبضہ کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔
یورپی یونین نے چین کو ایک اہم طاقت کے طور پر تسلیم کرکے اپنے مفادات کےلیے نئے قبلے کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا یے۔ لیکن حال ہی میں یورپی یونین سے الگ ہونے اور قوم پرستی میں مبتلا برطانیہ نے امریکی ایما پر ہواوے کی فائیو جی کے متعلق مصنوعات اور سامان پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ جو اس تقسیم میں برطانیہ کے چین مخالف کیمپ میں جانے کی واضح دلیل ہے۔
امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سردجنگ کا منبع فوجی اور سیاسی برتری تھی لیکن امریکا اور چین کے درمیان اصل مقابلہ معاشی ہے جس کا مطلب ہے تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی برتری اور اسٹرٹیجک صنعتیں مسابقت کا اصل مرکز ہیں۔ سوویت یونین اپنے عروج پر امریکا کے اس وقت کے ٹوٹل جی ڈی پی کا محض چالیس فیصد حصہ رکھتا تھا لیکن چین پہلے ہی 65 فیصد پر ہے اور مزید ترقی کررہا ہے۔ لہٰذا ان دونوں ممالک کی اصل جنگ معاشی برتری کی ہے۔
دنیا کی کل تجارت کے چالیس فیصد پر صرف امریکا اور چین کا قبضہ ہے۔ دونوں ممالک آپس میں اربوں ڈالر کی تجارت کرتے ہیں (جبکہ سوویت یونین اور امریکا کی باہمی تجارت نہ ہونے کے برابر تھی) اگر یہ دونوں آپس میں الجھتے ہیں تو پوری دنیا کے معاشی نظام کی سانسیں رک سکتی ہیں اور دنیا پچھلی ساری کساد بازاری بھول جائے گی۔
اگرچہ سرد جنگ کا میدان بہت وسیع ہے جس میں عالمی تجارت اور نئی گروہ بندیوں کے واضح امکانات ہیں لیکن اس کی کشش ثقل کا اصل محور بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔ اس بار اس جنگ کا مرکز یورپ نہیں بلکہ ایشیا ہے اور انڈوپاک سمیت ایشیائی ممالک اس کھیل کے اہم مہرے ہیں۔ اور اگر کہیں باضابطہ یا چھوٹے پیمانے پر جھڑپوں کے امکانات ہیں تو وہ بھی بحرالکاہل میں ہی ہیں، جہاں دونوں طاقتوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
اس بار سوویت یونین کی نسبت چین اپنے پتے زیادہ خوبصورتی سے کھیل رہا ہے۔ چین نے افریقی ممالک میں کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس میں سڑکیں، بندرگاہیں اور ریلوے سمیت صنعتی انفرااسٹرکچر شامل ہے۔ نیز افریقہ سے تیل اور گیس کی بڑی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہے اور افریقی وسائل سے براہ راست فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔ سوویت یونین کی نسبت چین کے مقامی اور بیرونی خطوں میں تعلقات زیادہ مضبوط اور مستحکم ہیں۔ روس کے ساتھ فی الحال کسی بڑی مسابقت کا کوئی امکان نہیں۔ اگرچہ سرخ ریچھ اپنے زخم بھر چکا ہے لیکن کسی بڑے مقابلے کا دم خم اب روس میں نہیں۔ سو 'دشمن کا دشمن، دوست' کے مصداق چین سے تعلقات ٹھیک ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ سے بھی چین کے اہم تجارتی تعلقات ہیں۔ سارک ممالک میں سری لنکا، نیپال سمیت پاکستان چین کے اہم اتحادی ہیں۔ چین تیزی سے ترقی کرنے والی پانچ بڑی معیشتوں (برازیل، رشیا، انڈیا، چائنا، ساؤتھ افریقہ) کے ساتھ برکس (BRICS) تنظیم بنا کر اپنے تعلقات پہلے ہی مضبوط کرچکا ہے۔
امریکا کے پلس پوائنٹس میں جاپان، چین متنازعہ جزائر، بحیرہ چین شمالی، تائیوان اور انڈیا شامل ہیں۔ امریکا انہی ممالک کو چین کے خلاف گھیرا بندی میں استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ نیز اقوام متحدہ سمیت اپنے اثرورسوخ کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ مغربی میڈیا پہلے ہی امریکی ایما پر ایغور مسلمانوں، ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین پر تنقید کررہا ہے۔
چین کا ون بیلٹ ون روڈ اصل میں چین کا سب سے اہم ہتھیار ہے، کیونکہ چین 2049 تک جو روڈز تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، سی پیک جن میں سے ایک ہے، وہ دنیا کے جغرافیہ کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے روڈز اور سمندری ملاپ سے یوریشیا کی ٹرم پہلے ہی مقبولیت حاصل کرچکی ہے اور شاید یورپی یونین کا نسبتاً چین کی جانب جھکاؤ بھی اسی وجہ سے ہے۔
دونوں عالمی طاقتیں بہرحال کھلی جنگ کی طرف نہیں جاسکتیں اور اس جنگ کا مرکز معاشی پابندیاں اور معاشی سبقت ہی ہوگی۔ ہواوے تنازع، چین میں مغربی میڈیا کا مکمل بند ہونا، نیز سوشل میڈیائی پابندیاں اور گریٹ سائبر وال کا کردار اس جنگ میں علامتی طور پر وہی ہے جو سوویت یونین اور امریکا کے مابین سرد جنگ کے دوران جرمنی کی دیوار برلن کا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو گریٹ اگین کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آئے ہیں اور چینی صدر شی جن پنگ جو چین کو اپنے اصل مقام تک پہنچانے کے دعویدار ہیں، دونوں بلند عزائم صدور ہیں۔ چین اب خاموشی سے ترقی کرنے کی ڈگر سے ہٹ کر اپنی اہمیت کو منوانے کےلیے بولڈ فیصلے کررہا ہے۔ انڈیا کے ساتھ لداخ معاملہ بھی چینی عزائم کو کھل کر بیان کر رہا ہے۔ 2008-9 کے عالمی کساد بازاری بحران میں چین کا مغربی سرمایہ دارانہ نظام پر کھلم کھلا تنقید کرکے اپنے سوشلسٹ نظام کو متبادل کے طور پر پیش کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
یہ جنگ معیشت، ٹیکنالوجی، سائبر یا ففتھ جنریشن وار کی جنگ ہے۔ یہ کولڈ وار نہیں بلکہ سافٹ وار ہے۔ امریکا چین پر پابندیاں لگاتا رہے گا، چین ایران سمیت کئی دوسرے ممالک کو اپنا ہمنوا بناتا رہے گا اور پہلی سرد جنگ کی طرح اس جنگ کا نتیجہ جو بھی نکلے، یہ اعصاب کو تھکا دینے والی ہوسکتی ہے جس کے بعد دنیا کم از کم یونی پولر ہرگز نہیں رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کتاب میں توسیڈائڈز ٹریپ کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت اور موجودہ عالمی طاقت کے درمیان جنگ ناگزیر ہوتی ہے۔
گزشتہ پانچ سو سال کی تاریخ میں ایسا 16 بار ہوا ہے کہ جب ایک ابھرتی ہوئی تیزی سے ترقی کرتی ریاست نے سپر پاور کی جگہ لینے کی کوشش کی، 12 دفعہ اس کا نتیجہ جنگ رہا۔
امریکا نے ہانگ کانگ میں چینی اقدامات پر چین پر کئی پابندیاں عائد کی ہیں، اس سے قبل نارتھ چائنا سی یا تائیوان یا پھر ہواوے تنازعہ، دونوں عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ رسہ کشی میں مصروف ہیں اور چالیس سال بعد سرد جنگ کے لوٹ آنے کی باتیں دوبارہ ہورہی ہیں۔
امریکا و چین کی موجودہ چپقلش امریکا و روس کی سرد جنگ سے چھ وجوہات کی بنا پر مماثلت رکھتی ہے۔
1- دونوں ممالک ایک مختلف سیاسی نظام رکھتے ہیں۔ امریکا لبرل جمہوری جبکہ چین کمیونسٹ سوشلزم کا داعی ہے اور فی الوقت دونوں ممالک کامیابی سے اپنے اپنے نظام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
2- یہ دو مخالف سیاسی نظام کی بالادستی اور برتری کی جنگ ہے۔
3- دونوں ممالک اپنے نظام اور اپنی روایات و اقدار کی سربلندی کے دعویدار ہیں اور اپنے سیاسی نظام کو دنیا کےلیے بہتر خیال کرتے ہیں۔
4- یہ عالمی عروج اور اثرورسوخ کی ایک وسیع اور کثیرالجہتی جنگ ہے۔
5- سوویت یونین اور امریکا کی سرد جنگ کے بعد ایک بار پھر سے دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہورہی ہے اور یہ تقسیم اس بار بھی سیاسی، جغرافیائی اور نظریاتی ہوگی (ہوسکتا ہے دو سے زیادہ بلاکس بنیں، یورپی یونین جرمنی کی قیادت میں غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دے سکتی ہے)
6- کوئی بھی فریق واضح اور دو ٹوک جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب تناؤ کا بڑا دور گزر گیا، سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، دنیا یونی پولر اور امریکا واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔ امریکا نے نیو ورلڈ آرڈر سمیت اپنی اجارہ داری بنائے رکھی تو طاقت کا توازن بالکل امریکا کے پلڑے کی طرف جھک گیا۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے چین نے ہر شعبے میں جو محیرالعقل ترقی کی ہے اس نے امریکا کی اجارہ داری اور واحد سپر پاور کو بہت زک پہنچائی ہے اور دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی طرف تیزی سے دھکیل دیا ہے۔
امریکا سمیت مغربی دنیا فری مارکیٹ کا نعرہ بلند ضرور کرتی ہے لیکن وہی فری مارکیٹ کے قوانین چائنا کے دیوہیکل ہواوے کے فائیو جی پراجیکٹ کے سامنے اپنی موت آپ مر چکے ہیں، جس طرح امریکا نے ہواوے پر پابندیاں لگائیں وہ کسی بھی طرح مبنی بر انصاف نہیں ہے۔ واضح رہے کہ چینی کمپنی ہواوے فائیو جی ٹیکنالوجی میں امریکا سمیت سبھی حریفوں سے کہیں آگے ہے، لہٰذا اگر چین فائیو جی لانچ کرتا ہے تو دوسری حریف کمپنیوں سے پہلے اربوں ڈالر منافع کمانے اور ایک بڑی مارکیٹ پر قبضہ کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔
یورپی یونین نے چین کو ایک اہم طاقت کے طور پر تسلیم کرکے اپنے مفادات کےلیے نئے قبلے کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا یے۔ لیکن حال ہی میں یورپی یونین سے الگ ہونے اور قوم پرستی میں مبتلا برطانیہ نے امریکی ایما پر ہواوے کی فائیو جی کے متعلق مصنوعات اور سامان پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ جو اس تقسیم میں برطانیہ کے چین مخالف کیمپ میں جانے کی واضح دلیل ہے۔
امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سردجنگ کا منبع فوجی اور سیاسی برتری تھی لیکن امریکا اور چین کے درمیان اصل مقابلہ معاشی ہے جس کا مطلب ہے تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی برتری اور اسٹرٹیجک صنعتیں مسابقت کا اصل مرکز ہیں۔ سوویت یونین اپنے عروج پر امریکا کے اس وقت کے ٹوٹل جی ڈی پی کا محض چالیس فیصد حصہ رکھتا تھا لیکن چین پہلے ہی 65 فیصد پر ہے اور مزید ترقی کررہا ہے۔ لہٰذا ان دونوں ممالک کی اصل جنگ معاشی برتری کی ہے۔
دنیا کی کل تجارت کے چالیس فیصد پر صرف امریکا اور چین کا قبضہ ہے۔ دونوں ممالک آپس میں اربوں ڈالر کی تجارت کرتے ہیں (جبکہ سوویت یونین اور امریکا کی باہمی تجارت نہ ہونے کے برابر تھی) اگر یہ دونوں آپس میں الجھتے ہیں تو پوری دنیا کے معاشی نظام کی سانسیں رک سکتی ہیں اور دنیا پچھلی ساری کساد بازاری بھول جائے گی۔
اگرچہ سرد جنگ کا میدان بہت وسیع ہے جس میں عالمی تجارت اور نئی گروہ بندیوں کے واضح امکانات ہیں لیکن اس کی کشش ثقل کا اصل محور بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔ اس بار اس جنگ کا مرکز یورپ نہیں بلکہ ایشیا ہے اور انڈوپاک سمیت ایشیائی ممالک اس کھیل کے اہم مہرے ہیں۔ اور اگر کہیں باضابطہ یا چھوٹے پیمانے پر جھڑپوں کے امکانات ہیں تو وہ بھی بحرالکاہل میں ہی ہیں، جہاں دونوں طاقتوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
اس بار سوویت یونین کی نسبت چین اپنے پتے زیادہ خوبصورتی سے کھیل رہا ہے۔ چین نے افریقی ممالک میں کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس میں سڑکیں، بندرگاہیں اور ریلوے سمیت صنعتی انفرااسٹرکچر شامل ہے۔ نیز افریقہ سے تیل اور گیس کی بڑی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہے اور افریقی وسائل سے براہ راست فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔ سوویت یونین کی نسبت چین کے مقامی اور بیرونی خطوں میں تعلقات زیادہ مضبوط اور مستحکم ہیں۔ روس کے ساتھ فی الحال کسی بڑی مسابقت کا کوئی امکان نہیں۔ اگرچہ سرخ ریچھ اپنے زخم بھر چکا ہے لیکن کسی بڑے مقابلے کا دم خم اب روس میں نہیں۔ سو 'دشمن کا دشمن، دوست' کے مصداق چین سے تعلقات ٹھیک ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ سے بھی چین کے اہم تجارتی تعلقات ہیں۔ سارک ممالک میں سری لنکا، نیپال سمیت پاکستان چین کے اہم اتحادی ہیں۔ چین تیزی سے ترقی کرنے والی پانچ بڑی معیشتوں (برازیل، رشیا، انڈیا، چائنا، ساؤتھ افریقہ) کے ساتھ برکس (BRICS) تنظیم بنا کر اپنے تعلقات پہلے ہی مضبوط کرچکا ہے۔
امریکا کے پلس پوائنٹس میں جاپان، چین متنازعہ جزائر، بحیرہ چین شمالی، تائیوان اور انڈیا شامل ہیں۔ امریکا انہی ممالک کو چین کے خلاف گھیرا بندی میں استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ نیز اقوام متحدہ سمیت اپنے اثرورسوخ کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ مغربی میڈیا پہلے ہی امریکی ایما پر ایغور مسلمانوں، ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین پر تنقید کررہا ہے۔
چین کا ون بیلٹ ون روڈ اصل میں چین کا سب سے اہم ہتھیار ہے، کیونکہ چین 2049 تک جو روڈز تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، سی پیک جن میں سے ایک ہے، وہ دنیا کے جغرافیہ کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے روڈز اور سمندری ملاپ سے یوریشیا کی ٹرم پہلے ہی مقبولیت حاصل کرچکی ہے اور شاید یورپی یونین کا نسبتاً چین کی جانب جھکاؤ بھی اسی وجہ سے ہے۔
دونوں عالمی طاقتیں بہرحال کھلی جنگ کی طرف نہیں جاسکتیں اور اس جنگ کا مرکز معاشی پابندیاں اور معاشی سبقت ہی ہوگی۔ ہواوے تنازع، چین میں مغربی میڈیا کا مکمل بند ہونا، نیز سوشل میڈیائی پابندیاں اور گریٹ سائبر وال کا کردار اس جنگ میں علامتی طور پر وہی ہے جو سوویت یونین اور امریکا کے مابین سرد جنگ کے دوران جرمنی کی دیوار برلن کا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو گریٹ اگین کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آئے ہیں اور چینی صدر شی جن پنگ جو چین کو اپنے اصل مقام تک پہنچانے کے دعویدار ہیں، دونوں بلند عزائم صدور ہیں۔ چین اب خاموشی سے ترقی کرنے کی ڈگر سے ہٹ کر اپنی اہمیت کو منوانے کےلیے بولڈ فیصلے کررہا ہے۔ انڈیا کے ساتھ لداخ معاملہ بھی چینی عزائم کو کھل کر بیان کر رہا ہے۔ 2008-9 کے عالمی کساد بازاری بحران میں چین کا مغربی سرمایہ دارانہ نظام پر کھلم کھلا تنقید کرکے اپنے سوشلسٹ نظام کو متبادل کے طور پر پیش کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
یہ جنگ معیشت، ٹیکنالوجی، سائبر یا ففتھ جنریشن وار کی جنگ ہے۔ یہ کولڈ وار نہیں بلکہ سافٹ وار ہے۔ امریکا چین پر پابندیاں لگاتا رہے گا، چین ایران سمیت کئی دوسرے ممالک کو اپنا ہمنوا بناتا رہے گا اور پہلی سرد جنگ کی طرح اس جنگ کا نتیجہ جو بھی نکلے، یہ اعصاب کو تھکا دینے والی ہوسکتی ہے جس کے بعد دنیا کم از کم یونی پولر ہرگز نہیں رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔