سونے کی چڑیا اور سیاسی کوے
سونے کی چڑیا پر ناجائز قبضہ کرنے کے تقریباً تیس سال کے اندر تہذیب نے نو سو ملین پونڈز مغل ہندوستان سے لندن بھیجے
نئی تہذیب کے پیروکار سونے کی چڑیا کا سارا سونا چرا کر لے گئے۔ (فوٹو: فائل)
آج تک کی تاریخ میں اب تک کوئی ایسی طاقت وجود میں نہیں آسکی جو فوجی طاقت کے بغیر صرف سیاسی قوت سے وجود میں آئی ہو۔ رومن ریپبلک ہو یا رومن ایمپائر، قبلائی خان ہو یا آج کا عوامی چین، ایسٹ انڈیا کمپنی ہو یا تاج برطانیہ، سیکولر ڈیموکریٹک فرانس ہو یا لنکن کا امریکا، یہ سب پہلے فوجی طاقتیں بنیں اور بعد میں سیاسی۔ لیکن چالیں چلنے کےلیے دنیا کے پاس سیاسی حل موجود ہیں۔ موجودہ تہذیب دنیا کی وجود میں آنے والی کوئی پہلی تہذیب نہیں، جس نے انسانی ترقی کی معراج کو چھو لیا ہو۔ دنیا میں پرانی تہذیبوں کے اور بھی بہت سے مظاہر ابھی بھی موجود ہیں۔
پانی پت کی جنگ کے بعد سترہویں صدی میں ایک ایسی سلطنت وجود میں آئی جس نے امن اور انسانی ترقی کو اپنے بام عروج پر پہنچایا۔ جس نے دنیا کی امیر ترین قوم اور دنیا کے امیر ترین شاہی خاندان کو جنم دیا۔ ایسی قوم جہاں لٹریسی ریٹ سو فیصد تھا اور جہاں کئی مذاہب اور مختلف زبانیں والے لوگ امن اور سلامتی سے رہتے تھے۔ جب موجودہ سو کالڈ تہذیب یافتہ قومیں کالوں کے گلے میں زنجیریں باندھ کر انہیں سمندری راستوں سے لے جاکر ان کے سودے کرتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر تو راستے میں ہی مر جاتے تھے، تو اس وقت یہاں کے حکمران مسلمان ہونے کے باوجود غیرمسلموں کے تہذیب وتمدن کو اپنے علاقے میں پھلنے پھولنے کا پورا پورا موقع دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ہزار سالہ حکمرانی کے باوجود بھی ابھی تک مسلمان اس علاقے میں اقلیت میں ہیں جو کہ ان کی وضع داری اور انصاف کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی امن وآشتی کی وجہ سے ہی مغلوں کی حکومت پھیلتی رہی اور دلی سے ایک مرکزی اور متوازن حکومت چلاتی رہی۔ حتیٰ کہ ایسٹ انڈیا کی ایک سولائزڈ حکومت قائم ہوگئی اور اس سونے کی چڑیا کو اڑا کر اپنے ساتھ لے گئی۔
سترہویں صدی میں جب فرانس کا میڈیکل سسٹم اتنا اعلیٰ تھا کہ ایک عورت پیرس کے مچھلی بازار میں بچہ پیدا کردیتی ہے اور پھر سے مچھلی بیچنا شروع کردیتی تھی، کیونکہ اسے باقی بچوں کےلیے کچھ آمدنی کا بندوبست بھی کرنا ہوتا ہے، تب مغلوں کے برصغیر کا جی ڈی پی دنیا کے کل جی ڈی پی کا 24 فیصد سے 25 فیصد تک تھا۔ اس کی بڑھوتری کا ریٹ دنیا میں سب سے زیادہ تھا۔ یہی مغلوں کی سونے کی چڑیا تھی جو دنیا میں سب سے زیادہ انڈسٹریلائزڈ اور سب سے زیادہ صنعتی اور زرعی پیداوار دینے والا ملک تھا۔ جس میں سڑکوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا اور جگہ جگہ لوگوں کے رکنے کا مفت انتظام سرائے کی صورت موجود تھا، جس کو حکومت وقت سنبھالتی تھی۔ اس خیال کو تہذیب نے 1910 میں یوتھ ہاسٹلز کی صورت میں کاپی کیا۔
ظہیرالدین بابر، بادشاہ ہندوستان، ایک عادل مسلمان حکمران، بہترین و بہادر جرنیل اور ایک کھلے ذہن کا مالک انسان تھا۔ جس نے مغلوں کی حکمرانی کی بنیاد رکھی۔ ان مغلوں کی، جن کےلیے گورے کو اپنی ڈکشنری میں ایک نئی اصطلاح کا اضافہ کرنا پڑگیا۔ Mogul، جو طاقت اور بڑائی کا استعارہ ہے۔ ہر اس آدمی یا گروہ کےلیے استعمال کیا جاتا ہے جو طاقت اور بڑائی میں طاق ہو اور اپنا ثانی نہ رکھتا ہو۔
بادشاہ بننے کے فوراً بعد جو حکم بابر نے دیا، وہ ہندو آبادی کے عقیدے کے متعلق تھا، جس میں اس نے مسلمانوں کو گائے ذبح نہ کرنے کا حکم دیا تاکہ ہندوؤں کے جذبات مجروح نہ ہوں اور ریاست میں امن قائم ہو۔ وہی بادشاہ، بادشاہ ہونے کے باوجود ایودھیا میں عام لوگوں سے زمین خریدتا ہے اور باقاعدہ قیمت ادا کرکے اسے مسجد کےلیے وقف کرتا ہے۔ اسی بابر کے پڑپوتے اورنگزیب نے ہندوؤں کو اپنی سلطنت میں بڑے بڑے عہدے دیے، انہیں بیوروکریسی میں شامل کیا۔ ہندوؤں سے مختلف مواقع اور نوعیت کے الائنس قائم کیے۔ اسلامی ٹیکس سسٹم کو بحال کیا، وہ اسلامی ٹیکس جو ساتویں صدی سے بیسویں صدی تک تقریباً تیرہ سو سال دنیا کے مختلف حصوں میں نافذالعمل رہا اور کامیابی سے ریاست کے معاملات چلاتا رہا۔
لیکن پھر تہذیب آگئی۔ نیا ورلڈ آرڈر، نئے ڈھنگ، نئے طور طریقے۔ نئی تہذیب نے سونے کی چڑیا کو اپنی قید میں لے لیا۔ سہارا کاروبار کا لیا، لیکن حقیت میں سونے کی چڑیا کا سارا سونا چرا کر نکل لیے اور پیچھے ایک ایسی تہذیب چھوڑی جو نہ مغل تھی نہ انگلستانی، بلکہ بغیر کسی شناخت کی تہذیب۔ وہی تہذیب جب ہندوستان چھوڑ کر جاتی ہے، تو یہ سو سال پہلے کا ہندوستان نہیں جو سونے کی چڑیا تھا۔ وہ ہندوستان جسے شائد فوجی طور پر تو کمزور کہا جاسکتا تھا لیکن اکانومی اس کی تب بھی مضبوط تھی۔ تہذیب نے آتے ہی اپنے نئے قسم کے ٹیکسز کا اجرا کیا۔ جس کا ایک نتیجہ مغل دور کی سیٹ اکانومی کا خاتمہ تھا۔ مزید آگے چل کر خوراک کا خاتمہ ہوگیا۔ لوگوں کی ڈسپوزایبل انکم تقریباً ختم ہوگئی۔ جس کا فوری نتیجہ بنگال کے قحط کی صورت میں نکلا۔ جو اس قدر شدید تھا جس سے بنگال کی ایک تہائی آبادی موت کی آغوش میں چلی گئی۔ وہی بنگال جو مغلوں کا مانچسٹر تھا۔
سونے کی چڑیا پر ناجائز قبضہ کرنے کے تقریباً تیس سال یعنی 1870 سے 1900 کے اندر اندر تہذیب نے نو سو ملین پونڈز مغل ہندوستان سے لندن بھیجے، جو کہ تسلیم شدہ ہیں۔ حیرانگی ان لوگوں پر ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان ایک کمزور ملک تھا لیکن تہذیب نے آکر یہاں بہت اعلیٰ نظام سیٹ کیا۔
تہذیب کےلیے یہ کوئی پرانی بات نہیں، ابھی چند دہائیاں پہلے کالے کے بچے گوروں کے پارکوں میں نہیں جاسکتے تھے اور نہ ہی گورے اور کالے بس میں ایک جگہ بیٹھ کر سفر کرسکتے تھے۔ تہذیب اس دنیا کو مزید برائی کی طرف لارہی ہے۔ اگر کسی کو کوئی شک ہو تو پورٹ لینڈ میں ہونے والے ابھی کے منظرنامے کو سامنے رکھے کہ کس طرح عام شہریوں کے ساتھ متعصب اور جانبدار سلوک کیا گیا۔ جبکہ تہذیب کا ایک فوجی نما سیاسی وزیر، مسٹر مائیک پومپیو، یہ کہتا ہے کہ ہمیں ایک ایسی حکمت عملی چاہیے جو ہماری اکانومی اور لائف اسٹائل (یعنی تہذیب) کو بچا سکے۔ آزاد دنیا کو اس ظلم کے خلاف فتح حاصل کرنا ہی ہوگی (رچرڈ نکسن پریزیڈنشل لائبریری تقریر، 24 جولائی 2020)۔ مطلب یہ بنتا ہے کہ جدید تہذیب اپنے آپ کو بچانے کےلیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے، فوجی یا سیاسی یا اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔
دور جدید کی تہذیب اگر ملک کے شہریوں سے 45 سے 55 فیصد ٹیکس لے اور غیر شہریوں سے ویزہ خرچے اور کم ریٹ کی لیبر کروائے تو ٹھیک، لیکن ایک مسلم ریاست جزیہ لے تو غلط، اور اس میں بھی عورتیں اور بچے شامل نہیں بلکہ صرف کمائی دار لوگ شامل ہیں۔ تہذیب کی جمہوریت اگر چار ہزار سالہ پرانا مندر اسی بابری مسجد کی بنیادوں سے نکال لے تو ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی بے بس اور فیصلہ اکثریتی جمہوریت کے حق میں، لیکن مسلمان کو ایک یتیم خانے کی مدد کرنا اسے دہشت گرد بنادے۔
وہی تہذیب اپنے آپ کو پیغمبروں کی اولاد کہے اور جو ہزاروں سال پہلے کا ہیکل سلیمانی مسلمانوں کے سجدوں سے نکالے تو یہ اس کا حق، لیکن وہی مسلمان اگر اپنے اور اپنے خاندان کا تحفظ مانگے تو یہ اس کا ناحق۔ تہذیب اگر شہریوں پر بم مارے تو یہ دنیا کو محفوظ بنائے لیکن وہی شہری صرف سیاسی طور پر جدوجہد کرے، کبھی بھی فوجی طاقت کا نہ سوچے، کیونکہ نئی تہذیب کے نئے ڈھنگ نئے طریقے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔