کرپشن اورپاکستان ساتھ ساتھ
وزیر اعظم کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے
وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ملک میں اب عمران خان کی حکومت ہے اس لیے اب کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر 120 احتساب عدالتوں کے قیام پر اپوزیشن کی بے چینی سمجھ میں آتی ہے مگر حکومت کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑے گی۔
وزیر اعظم کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف و دیگر اپوزیشن رہنما ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے متعدد ارکان اسمبلی، عمران خان کے حامی متعدد تجزیہ کار اور سینئر صحافی یہ الزام لگا رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں کرپشن کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے۔ وزیر اعظم کی ایمانداری اب بھی تسلیم کرنے والوں کے بقول موجودہ حکومت میں ایک ہزار ارب روپے کی کرپشن ہو چکی ہے۔ وفاق میں تین، کے پی میں دو اور پنجاب میں لاتعداد افراد کے ذریعے کرپشن کی جا رہی ہے اور کوئی بھی محکمہ کرپشن سے محفوظ نہیں ہے۔
اچھی شہرت کے حامل شبلی فراز وزیر اطلاعات بننے کے بعد بہتر طور پر وفاقی حکومت کی ترجمانی کر رہے ہیں اور انھیں کرپشن اور اپوزیشن معاملات پر حکومتی موقف پیش کرنا پڑ رہا ہے ۔ جے آئی ٹی پر سیاست کراچی سے وفاقی اور سندھ حکومت کا معاملہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف نت نئے الزامات لگا رہے ہیں اور اب یہ بھی اطلاعات سننے میں آ رہی ہیں کہ عزیر بلوچ پیپلز پارٹی کو ہی پیارا نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی بھی اسے اپنانا چاہتی تھی اور عزیر بلوچ نے پی ٹی آئی کے جلسوں میں بھی اپنے لوگ بھجوائے تھے۔سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔
اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہو جائے گا۔سیاست میں ایک دوسرے پر الزامات لگتے رہتے ہیں،کوئی بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہوتا،کسی نہ کسی جگہ کسی سے کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی ہے جسے بنیاد بن کر سیاسی قوتیں اپنے مخالف کو خوب آڑے ہاتھوں لیتی ہیں۔
یہ سو فیصد درست ہے کہ 1972ء میں بھٹو دور سے قبل کرپشن کا اتنا ذکر نہیں ہوتا تھا مگر یہ بعید از قیاس نہیں کہ بھٹو دور سے کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ چلنا شروع ہوئے اور نام نہاد جمہوری حکومتوں میں کرپشن بڑھتے بڑھتے اب پاکستان سے نکل کر باہر پہنچ چکی ہے بلکہ پاکستان سے بھی بہت آگے نکل چکی ہے اور 2018ء کے انتخابات میں کرپشن کی مخالفت، کرپشن روکنا اورکرپٹ لوگوں کوکیفر کردار تک پہنچانا عمران خان کا منشور تھا جس پر انتخابی کامیابی انھیں ملی اور عمران خان کی ایمانداری کے سب معترف تھے اور حکومت میں عشروں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مبینہ کرپشنوں کی کہانیوں سے بھی عوام متنفر ہوچکے تھے اور ایمانداری کے دعوے داروں کو آزمانا چاہتے تھے تا کہ پاکستان کو کرپشن سے نجات مل سکے۔
عمران خان کی انتخابی کامیابی واقعی کرپشن کی مخالفت کی وجہ سے ممکن ہوئی تا کہ وہ اقتدار میں آ کر کرپشن کا خاتمہ کر سکیں۔ عمران خان کی حکومت 18اگست کو تیسرے سال میں شامل ہو جائے گی مگر تقریباً دو سال کے عرصے میں کرپشن ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوئی بلکہ حکومتی حامیوں کے بقول بڑھ گئی ہے اور بقول حکومتی رکن اسمبلی راجہ ریاض کرپشن کے دور میں جو کام دس ہزار رشوت پر ہو جاتا تھا اب اس کے لیے 30 ہزار روپے دینا پڑ رہے ہیں۔
تجزیہ کار اس بات پر سخت برہم ہیں کہ تبدیلی حکومت کے دو سالوں میں عوام یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت سے تو ماضی کے چوروں ڈاکوؤں کی حکومتیں اچھی تھیں کہ جو کھاتے تھے تو لگاتے بھی تھے مگر دو سالوں میں کچھ لگا بھی نظر نہیں آ رہا اور عوام کے کام بھی نہیں ہو رہے۔ حکومت نے کرتارپور راہداری کے جو کام کرائے وہ اربوں روپے کے تو تھے مگر وہ جن اداروں سے کرائے گئے ان سے کوئی مشیر یا کوئی وزیر کمیشن نہیں مانگ سکتا تھا کیونکہ وہاں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
میڈیا کے مطابق حکومت کو کرپشن کا یہ چوتھا جھٹکا لگا ہے۔ بعض محکموں میں کرپشن میں سندھ نمایاں تھا اب کے پی ظاہر ہوا ہے، بلوچستان میں محکموں کے خلاف کوئی لکھ نہیں سکتا۔ وفاق اور پنجاب ابھی ظاہر نہیں ہوئے۔ وفاقی محکموں پر توجہ دینے کی وزیروں کو فرصت نہیں مل رہی۔ اگر ہر محکمے میں جائز طور پرکام ہونے لگیں تب ہی رشوت کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور پاکستان اور کرپشن کو الگ الگ کر کے ہی رشوت کی وجوہات اور مجبوری کو ختم کیا جا سکے گا۔
وزیر اعظم کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف و دیگر اپوزیشن رہنما ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے متعدد ارکان اسمبلی، عمران خان کے حامی متعدد تجزیہ کار اور سینئر صحافی یہ الزام لگا رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں کرپشن کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے۔ وزیر اعظم کی ایمانداری اب بھی تسلیم کرنے والوں کے بقول موجودہ حکومت میں ایک ہزار ارب روپے کی کرپشن ہو چکی ہے۔ وفاق میں تین، کے پی میں دو اور پنجاب میں لاتعداد افراد کے ذریعے کرپشن کی جا رہی ہے اور کوئی بھی محکمہ کرپشن سے محفوظ نہیں ہے۔
اچھی شہرت کے حامل شبلی فراز وزیر اطلاعات بننے کے بعد بہتر طور پر وفاقی حکومت کی ترجمانی کر رہے ہیں اور انھیں کرپشن اور اپوزیشن معاملات پر حکومتی موقف پیش کرنا پڑ رہا ہے ۔ جے آئی ٹی پر سیاست کراچی سے وفاقی اور سندھ حکومت کا معاملہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف نت نئے الزامات لگا رہے ہیں اور اب یہ بھی اطلاعات سننے میں آ رہی ہیں کہ عزیر بلوچ پیپلز پارٹی کو ہی پیارا نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی بھی اسے اپنانا چاہتی تھی اور عزیر بلوچ نے پی ٹی آئی کے جلسوں میں بھی اپنے لوگ بھجوائے تھے۔سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔
اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہو جائے گا۔سیاست میں ایک دوسرے پر الزامات لگتے رہتے ہیں،کوئی بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہوتا،کسی نہ کسی جگہ کسی سے کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی ہے جسے بنیاد بن کر سیاسی قوتیں اپنے مخالف کو خوب آڑے ہاتھوں لیتی ہیں۔
یہ سو فیصد درست ہے کہ 1972ء میں بھٹو دور سے قبل کرپشن کا اتنا ذکر نہیں ہوتا تھا مگر یہ بعید از قیاس نہیں کہ بھٹو دور سے کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ چلنا شروع ہوئے اور نام نہاد جمہوری حکومتوں میں کرپشن بڑھتے بڑھتے اب پاکستان سے نکل کر باہر پہنچ چکی ہے بلکہ پاکستان سے بھی بہت آگے نکل چکی ہے اور 2018ء کے انتخابات میں کرپشن کی مخالفت، کرپشن روکنا اورکرپٹ لوگوں کوکیفر کردار تک پہنچانا عمران خان کا منشور تھا جس پر انتخابی کامیابی انھیں ملی اور عمران خان کی ایمانداری کے سب معترف تھے اور حکومت میں عشروں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مبینہ کرپشنوں کی کہانیوں سے بھی عوام متنفر ہوچکے تھے اور ایمانداری کے دعوے داروں کو آزمانا چاہتے تھے تا کہ پاکستان کو کرپشن سے نجات مل سکے۔
عمران خان کی انتخابی کامیابی واقعی کرپشن کی مخالفت کی وجہ سے ممکن ہوئی تا کہ وہ اقتدار میں آ کر کرپشن کا خاتمہ کر سکیں۔ عمران خان کی حکومت 18اگست کو تیسرے سال میں شامل ہو جائے گی مگر تقریباً دو سال کے عرصے میں کرپشن ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوئی بلکہ حکومتی حامیوں کے بقول بڑھ گئی ہے اور بقول حکومتی رکن اسمبلی راجہ ریاض کرپشن کے دور میں جو کام دس ہزار رشوت پر ہو جاتا تھا اب اس کے لیے 30 ہزار روپے دینا پڑ رہے ہیں۔
تجزیہ کار اس بات پر سخت برہم ہیں کہ تبدیلی حکومت کے دو سالوں میں عوام یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت سے تو ماضی کے چوروں ڈاکوؤں کی حکومتیں اچھی تھیں کہ جو کھاتے تھے تو لگاتے بھی تھے مگر دو سالوں میں کچھ لگا بھی نظر نہیں آ رہا اور عوام کے کام بھی نہیں ہو رہے۔ حکومت نے کرتارپور راہداری کے جو کام کرائے وہ اربوں روپے کے تو تھے مگر وہ جن اداروں سے کرائے گئے ان سے کوئی مشیر یا کوئی وزیر کمیشن نہیں مانگ سکتا تھا کیونکہ وہاں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
میڈیا کے مطابق حکومت کو کرپشن کا یہ چوتھا جھٹکا لگا ہے۔ بعض محکموں میں کرپشن میں سندھ نمایاں تھا اب کے پی ظاہر ہوا ہے، بلوچستان میں محکموں کے خلاف کوئی لکھ نہیں سکتا۔ وفاق اور پنجاب ابھی ظاہر نہیں ہوئے۔ وفاقی محکموں پر توجہ دینے کی وزیروں کو فرصت نہیں مل رہی۔ اگر ہر محکمے میں جائز طور پرکام ہونے لگیں تب ہی رشوت کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور پاکستان اور کرپشن کو الگ الگ کر کے ہی رشوت کی وجوہات اور مجبوری کو ختم کیا جا سکے گا۔