دلیرانہ اور مدبرانہ فیصلوں کی ضرورت

ڈرون حملوں کیخلاف پاکستان میں فضا امریکا کے قطعی موافق نہیں اس سے پیدا ہونیوالے منفی جذبات معیشت کو متاثرکرتے ہیں


Editorial December 11, 2013
یورپی یونین جو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے امن کی بحالی کے لیے تعاون کرے، نواز شریف۔ فوٹو :فائل

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک بار پھر ڈرون حملے بندکرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں، حملوںکے باعث پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، پاکستان اقوام عالم کے ساتھ ملکر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ڈرون حملوں کے بجائے ایسے طریقے تلاش کر رہا ہے جن کے منفی اثرات نہ ہوں، یورپی یونین جو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے امن کی بحالی کے لیے تعاون کرے، وہ منگل کو یورپی یونین کے سفیروں کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے سے خطاب کر رہے تھے۔ بلاشبہ ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان میں فضا امریکا کے قطعی موافق نہیں بلکہ عالمی سطح پر امن پسند ملکوں کے شدید اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں جب کہ اس سے پیدا ہونے والے منفی جذبات و اثرات نے پاکستان کی معیشت سمیت پوری قومی زندگی کے معمولات کو متاثر کیا ہے۔

گزشتہ دنوں امریکا کے اتحادی ممالک کے ماہرین کے ایک فعال گروپ نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں ڈرون کو گرائونڈ کرنے کی تھیوری بھی پیش کی اور ڈرون حملوں کے حامی اور مخالفین کا تقابلی جائزہ بھی لیا ہے۔ ادھر قومی اسمبلی نے ڈرون حملوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حملے بندکرنے کی ایک اور قرارداد متفقہ طور پر منظورکر لی، قرارداد میں اتحادی افواج کی جانب سے پاکستان کے علاقے پر ڈرون حملوںکی شدید مذمت اور انھیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں، بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدارکی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ڈرون حملے فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی تین دہائیوں پر مشتمل ہے جس سے نمٹنے کا وزیر اعظم نے بہترین طریقہ قومی اتفاق کو قرار دیا ہے تاہم یہی وہ گراں قدر جنس ہے جسے امریکی ڈرون حملے بلڈوز کر رہے ہیں ، اس کے رد عمل میں فاٹا سمیت ملک کے دیگر حصوں کے عوام کی جانب سے قومی خود مختاری اور سلامتی کے اس بہیمانہ طریقے سے روندے جانے پر برہمی بھی بلا جواز نہیں ہے جب کہ حکومت کو بڑھتے ہوئے عوامی دبائو سے اپنے بنیادی کاموں پر توجہ دینے اور منشور کی تکمیل میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔

لہٰذا دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان کا پرعزم ہونا ایک ہاتھ کی تالی ہے جب کہ دوسری تالی کے لیے دنیا کو بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ2050ء کے بعد ایشیا کا کوئی ملک غریب نہیں رہے گا، پاکستان چین اور وسط ایشیا کو بحیرہ عرب سے جوڑنے کے لیے راہداری پرکام کر رہا ہے، ایشیائی پارلیمانی اسمبلی خطے کے ممالک کو ایک دوسرے سے قریب لانے میںاہم کردار ادا کر سکتی ہے، وسطی ایشیا سے توانائی کے حصول کے لیے مختلف منصوبوںپرکام کر رہے ہیں، ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے41 ارکان اور17 ملکوںکے عوامی نمایندوں پر مشتمل تین روزہ چھٹی اے پی اے کانفرنس گزشتہ روز ختم ہو گئی، صدر ایشیائی پارلیمانی اسمبلی سید نئیر حسین بخاری نے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ اے پی اے کا ایجنڈا دوستی اورتعاون کا ایجنڈا ہے اور اسی ایجنڈے کی بدولت جمہوری اقدار اور روایات کو مستحکم کرنے اور علاقائی و عالمی امن کے لیے مل کر کوششیں کرنے میں مدد ملے گی۔

ایشیائی پارلیمانی اسمبلی نے بیرونی جارحیت، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت اور بین المذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پر امن اور ترقی یافتہ ایشیاء کے لیے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا جائے گا، ہم ایک منصفانہ اور مساوی اقتصادی نظام کے قیام پر یقین رکھتے ہیں، جو محروم طبقات، اقلیتوں، عورتوں اور جوانوں اور تمام سماجی طبقات کی پائیدار ترقی کی ضمانت دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ پیشگوئی خوش آیند ہے کہ 2050 ء تک ایشیا میں کوئی ملک غریب نہیں رہے گا۔ لیکن ضرورت حقیقت کے ادراک اور عملیت پسندی کی ہے تا کہ اقتصادی اور مالیاتی محاذ پر ملک استحکام اور عوام خوش حالی کی منزل کی جانب گرم سفر ہونے کے قابل بن سکیں۔ پاکستان کو جن معاشی مسائل کے چیلنجز درپیش ہیں ان کا خاتمہ ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی اور استحصال سے پاک سماجی و معاشی نظام کے قیام سے ہی ممکن ہے۔

حکومت کو نیٹو سپلائی کی بندش سے پیدا شدہ پاک امریکا تنائو اور امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کو اس کی فوری بحالی کی یقین دہانی کے امور و فیصلوں میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا، یہ دشت امکاں میں پہلا جرات مندانہ قدم کے مترادف ہو گا۔ مزید براں ڈرون حملوں کے زمینی حقائق کی تلخی اور خطے میں امریکا مخالف جذبات کے آئینہ میں افغان صدر حامد کرزئی کی حالیہ برہمی کو پرکھنے کی ضرورت ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ امریکا سیکیورٹی معاہدہ پر دستخط کرنے کے لیے افغانستان پر نفسیاتی دباؤ ڈال رہا ہے اور اس کا رویہ بالکل ایک نو آبادیاتی طاقت کی طرح کا ہے، افغان صدر نے ایک فرانسیسی اخبار کو انٹرویو میں کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی سفارتکار جیمز ڈوبن نے افغانستان کے حالیہ دورے کے دوران کہا تھا کہ سیکیورٹی معاہدے کے بغیر افغانستان میں امن نہیں رہے گا۔ افغان صدر کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر معاہدے پر دستخط نہ ہوئے تو وہ افغانستان میں جنگ کروائیں اور مسائل پیدا کریں گے۔

امریکا اس طرح افغانستان کو دیوار سے نہیں لگا سکتا، افغان سر نہیں جھکائیں گے، امریکا اتحادی کی طرح برتائو کرے۔ دوسری جانب ایران امریکا جوہری معاہدہ کی عالمی گونج ہے۔ ہمیں دراصل افغانستان کے شعلوں کی امریکی تپش سے بھی خود کو بچانا ہے جب کہ دنیا کی سپر پاور سے ڈرون سمیت دیگر امور پر خطے کی حساسیت، ملکی داخلی صورتحال کے تناظر میں نتیجہ خیز سفارت کاری کی ساحرانہ اہلیت اور مذاکرات کے فورم سے اپنے قومی مفادات کے تحفظ اور عوام کی معاشی آسودگی کا مقدمہ کامیابی سے لڑنا ہے۔ حکمرانوں کو احساس ہونا چاہیے کہ امریکا پاکستان کو ''چائنا شاپ'' سمجھتے ہوئے ہولناک ڈرون حملوں کے بھینسے کی تباہ کاریوں اور انسانی ہلاکتوں سے ارباب اختیار اور اہل وطن کے صبر و تحمل کا امتحان لے رہا ہے، وقت یہی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف تاریخ کے اس نازک موڑ پر دور اندیشی اور غیر معمولی وژن پر مبنی دلیرانہ مگر مدبرانہ فیصلے کریں۔ قوم ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں