دردِ سر اور سوئی دھاگا

خان اعظم نے اپنی سیاسی جدوجہد میں صرف ایک کام سیکھا ہے: سوئی میں دھاگا ڈالنا (تقریریں کرنا) اور بس!


سیف اعوان July 24, 2020
خان اعظم نے اپنی سیاسی جدوجہد میں صرف ایک کام سیکھا ہے: سوئی میں دھاگا ڈالنا (تقریریں کرنا) اور بس! (فوٹو: فائل)

گیارہویں صدی عیسوی کے یورپ میں جہالت کی ایک مثال کل ہی میں نے پڑھی ہے، وہ آپ کے سامنے بھی بیان کردیتا ہوں۔ یورپ میں ایک خاتون کے سر میں درد شروع ہوا اور یہ درد آہستہ آہستہ شدت اختیار کرگیا۔ کسی نے خاتون کے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ فلاں جگہ ایک طبیب بیٹھتا ہے، وہ بہت سمجھدار ہے، اس عورت کا علاج کرسکتا ہے۔ گھر والے اس عورت کو اسی طبیب کے پاس لے گئے۔ اس طبیب نے پہلے اس عورت کے سر پر چاقو سے صلیب کا نشان بنایا اور بعد میں اس عورت کا سر دونوں کانوں کے اوپرسے پورا کاٹ دیا۔ پھر اس عورت کے ساتھ جو کچھ ہوا ہوگا، آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔

جمعے کے روز میں اور میرا دوست شعیب سلیم اور چائنا پلٹ صحافی ارشد بھٹی لاہور پریس کلب میں بہت دنوں بعد اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے کہ ارشد بھٹی نے محفل کو خوشگوار بنانے کےلیے ایک بہت خوبصوت قصہ سنایا:

ایک بادشاہ کے پاس ایک شخص آیا اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں آنکھیں بند کر سو مرتبہ سوئی میں دھاگا ڈال سکتا ہوں۔

بادشاہ نے کہا کہ اگر تم نے ایسا کرلیا تو تمہیں ایک ہزار اشرفیاں بطور انعام دی جائیں گی۔

اس شخص نے دعوے کے مطابق آنکھیں بند کرکے سو مرتبہ سوئی میں دھاگا ڈال دیا۔ بادشاہ نے بھی اپنے وعدے کے مطابق اسے ایک ہزار اشرفیاں بطور انعام دے دی۔

جب وہ شخص جانے لگا تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اس شخص کو گرفتار کرلو۔ سپاہیوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور اسے گرفتار کرلیا۔ بادشاہ نے کہا اس کی گردن اڑادی جائے۔

وہ شخص رونے پیٹنے لگا۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں نے آپ کی فرمائش پر ہی یہ سب کرکے دکھایا اور آپ نے خوش ہوکر مجھے انعام سے بھی نوازا ہے؛ تو پھر مجھے قتل کرنے کا حکم کیوں دے رہے ہیں؟

بادشاہ نے جلال میں کہا: ''گستاخ! تم نے وہ کام سیکھا ہے جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں۔ تم نے یہ کام سیکھنے کےلیے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی گزاری ہوگی، لہذا اب تمہارے زندہ رہنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔''

سپاہیوں نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی اور اس شخص کی گردن اڑادی۔

میں یہاں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ ارشد بھٹی صاحب چین میں کورونا وائرس شروع ہونے سے قبل ہی اپنی سالانہ چھٹیوں کی وجہ سے پاکستان آئے تھے۔ ارشد بھٹی نومبر میں پاکستان پہنچے اور دسمبر کے آغاز میں ہی چین کے شہر اوہان میں کورونا وائرس کے اچانک کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے۔ ارشد بھٹی انگریزی اخبار دی نیشن میں رپورٹر تھے لیکن شہبازشریف حکومت نے اسکالر شپ پر پاکستانی طلبہ کوچین بھیجا ارشد بھٹی بھی اسکالر شپ پر چین میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

گزشتہ ماہ پاکستانی طلبہ میں اس وقت شدید بے چینی پھیلی جب موجودہ پنجاب حکومت نے چین میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کی اسکالرشپ کی گرانٹ روک لی۔ میڈیا میں تین دن مسلسل خبریں آنے کے بعد بزدار حکومت نے طلبہ کی گرانٹ جاری کی۔ ارشد بھٹی آج کل طلبہ کو آن لائن کلاسز پڑھارہے ہیں اور میرا بھی زیادہ وقت انہی کے ساتھ ہی گزررہا ہے۔

پاکستان کی معیشت آج کل گہرے سمندر میں ہچکولے کھارہی ہے۔ موجودہ حکومت نے پہلے معیشت کا دردِ سر ختم کرنے کےلیے اسے ڈسپرین (قرضے) کی گولیاں دیں لیکن یہ گولیاں صرف وقتی طور پر ہی افاقہ کرسکیں۔ چند ماہ بعد پھر معیشت کے سر میں شدید درد ہونے لگا تو حکومت نے پھر معیشت کے آپریشن کا فیصلہ کیا۔ اس کےلیے بیرون ملک سے دو اسپیشل سرجن (رضا باقر اور عبدالحفیظ شیخ) اور سندھ سے ایک سرجن (شبر زیدی) منگوایا۔

لیکن یہ تینوں سرجن بھی اپنے اپنے طریقوں سے معیشت کے آپریشن کرتے رہے لیکن ہر مرتبہ معیشت کا دردِ سر ختم ہونے کے بجائے مزید شدید ہوتا رہا۔ ایک سرجن (شبرزیدی) تواپنے طور پر معیشت کا پوسٹ مارٹم کرکے بیرون ملک لمبی رخصت پر چلے گئے جبکہ دو سرجن فی الحال اس شدید دردِ سر کے خاتمے کےلیے اپنی ہر ممکنہ کوششیں کررہے ہیں۔

اُدھر خان اعظم نے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں ایک ہی کام سیکھا ہے، سوئی میں دھاگا ڈالنا (تقریریں کرنا) اور وہ بھی سو مرتبہ آنکھیں بند کرکے۔ خان اعظم ہر ماہ دو سے تین مرتبہ قوم کے سامنے آتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے سوئی میں دھاگا ڈالتے ہیں۔ ہر بار قوم کو ''گھبرانا نہیں'' اور ''حوصلہ رکھیں'' جیسی تسلیاں دے کر غائب ہوجاتے ہیں۔ جناب خان اعظم آنکھیں بند کرکے سوئی میں دھاگا ڈالنے سے اور دردِسر ختم کرنے کےلیے پورے سر کاپوسٹ ماٹم کرنے سے معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ اس درد کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے: سیاسی مشاورت اور ذاتی اختلافات کا خاتمہ۔

خان اعظم مودی کو ایک قدم آگے بڑھانے کی آفر کرسکتے ہیں، اپوزیشن جماعتوں کو یہ آفر کیوں نہیں کرتے؟ خان اعظم صاحب، ملک میں معاشی استحکام تب ہی ممکن ہے جب سیاسی استحکام ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں