عظمت کا مینار
نیلسن منڈیلا 95برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ کوئی اساطیری کردار نہیں بلکہ ہمارے عہد کے جیتے جاگتے انسان تھے
نیلسن منڈیلا 95برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ کوئی اساطیری کردار نہیں بلکہ ہمارے عہد کے جیتے جاگتے انسان تھے۔ایک ایسے شاندار انسان جو صدیوں میں پیداہوتے ہیں۔انھوں نے سیاست اور قوم پرستی کے علاوہ تحمل، رواداری،برداشت اور حسن سلوک جیسی اصطلاحات کو نئی تفہیم عطا کی۔فکری کثرتیت کے تصور کو عملی شکل دی۔ ہر قسم کے تعصب اور تشددآمیز رویوں کوجرأت مندی کے ساتھ رد کرتے ہوئے امن، اخوت اور مساوات کے رجحانات کو پروان چڑھایا ۔یہ تمام وہ اوصاف ہیں، جوآج بھی کتابی کہلاتے ہیںاور عوام کی اکثریت کوکبھی یہ یقین نہیں آیاکہ ان پر عملدرآمد بھی ممکن ہے مگر انھوں نے انھیں عملی جامہ پہنا کرلوگوں کی سوچ کو تبدیل کردیا۔یہی سبب ہے کہ انھیں جدید دنیا میںشمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک وہ عزت و تکریم ملی، بیشترسیاسی و سماجی شخصیات کے لیے جس کا تصور بھی محال ہے۔یوں انھیںاپنی زندگی ہی میں ایک اساطیری حیثیت حاصل ہوگئی اور تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب بن گئے۔
نیلسن منڈیلا نے اس دنیامیں 1918ء میں اسوقت آنکھیں کھولیں، جب پہلی عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچنے والی تھی اوردنیا بھر میں موجود نوآبادیات میں آزادی کی لہرکروٹ بدل کر بیدار ہو چکی تھی۔استعماری قوتوں کا کردارچونکہ دنیا کے مختلف خطوںمیں مختلف ہوتا ہے،اس لیے کہیں وہ اپنے تجارتی مفادات کی خاطر ریل کی پٹریاں بچھا رہے ہوتے ہیں، سڑکیں تعمیر کررہے ہوتے ہیں توکہیں صنعتکاری کے ذریعہ مقامی آبادی کے لیے روزگار کے نئے ذرایع پیداکررہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اسی دور میں دوسری طرف نسلی تفاوت یا امتیاز (Apartheid)کی نئی داستان بھی رقم کررہے ہوتے ہیں۔اس لیے استعماری قوتوں کے بارے میں کسی ابہام (Illusion) کاشکار نہیں ہونا چاہیے۔اس بارے میں معروف ترقی پسند مورخ اورتاریخ دان ڈاکٹرمبارک علی کاکہناہے کہ '' بظاہر نوآبادیاتی نظام میں کتنی ہی خوبیاں کیوں نہ نظرآئیں، اس دور کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ استعماری قوتوںکا رویہ کبھی نوآبادیاتی عوام کے لیے سودمند اور دوستانہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہر قسم کے تشدد کو روا رکھنا اپنا حق سمجھتی ہیں''۔یہی کچھ معاملہ جنوبی افریقہ میں تھا جہاں قابض سفید فام اقلیت نے اس خطے پر اپنے کنٹرول کی خاطر اصل سیاہ فام باشندوںپر نسلی امتیاز(Apartheid) کے ذریعہ ڈیڑھ صدی تک بدترین انسانیت سوز روئیے اختیارکیے رکھے۔
1943ء میں جب دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی اور برٹش انڈیا سمیت کئی نوآبادیات میں آزادی کی جدوجہد تیز ہوچکی تھی، وہ قانون کی ڈگری لینے کے بعد افریقن نیشنل کانگریس(ANC)میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔اس دوران وہ نوآبادیات میں چلنے والی تحاریک کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں،تو انھیں گاندھی جی کی اہنسا کی پالیسی سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔اس طرح گاندھی جی ان کا رول ماڈل بنتے ہیں اوران کی قومی آزادی کے لیے جد وجہد میں تیزی آنے لگتی ہے۔ان کی فعالیت سے پریشان استعماری حکومت ان کی سیاسی سرگرمیوں کو مشکوک قرار دے کر ان پر مختلف شہروں میں جانے اور تقاریرکرنے پر پابندی عائد کردیتی ہے۔مگر وہ ان پابندیوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتے رہے اور آزادی کے لیے اپنے متعین کردہ راستے پرڈٹے رہے۔ یوں انھیں اگست 1962ء میں گرفتار کرلیاجاتاہے۔ ان پر خصوصی عدالت میں مقدمہ چلتاہے اور جولائی 1963ء میں ان پر فرد جرم عائد کرکے انھیںعمر قید کی سزاسنادی جاتی ہے۔اپنی قید کے دوران وہ کارل مارکس، فرڈیک اینجلزاورکامریڈمائو زے تنگ کے علاوہ دنیا کے تقریباً سبھی بطل حریت راہنمائوں کی سوانح اور ان کی جدوجہد کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔جو ان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور ان کی سوچ میں تبدیلی رونماء ہوتی ہے۔یوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک نئے نیلسن منڈیلا کا جنم ہوتاہے۔وہ نیلسن منڈیلا،جو بعد میں بطل حریت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسانیت نواز اور امن دوست سیاسی مدبر کے طور پر عالمی منظر نامے پر نمودار ہوتا ہے۔
1980ء کے عشرے کے آنے تک پوری دنیا سے نوآبادیاتی نظام ختم ہوچکاتھا۔صرف جنوبی افریقہ پر سفید فام اقلیت کی حکمرانی قائم تھی، جو اپنی ہٹ دھرمی اورڈیڑھ صدی پرانیApartheidکی پالیسی پر اس دور میں بھی سختی سے کاربند رہتی ہے۔میڈیاکے ذریعہ جب نسلی امتیازات کے بارے دنیا بھر میں خبریںعام ہوتی ہیں، انسانی ضمیربیدار ہوتاہے۔یوں جنوبی افریقہ کے اصل باشندوں (Indigenous)کے حقوق کے لیے دنیا کے چپے چپے سے آوازیں اٹھنا شروع ہوتی ہیں۔ جب عالمی ردعمل میں شدت آتی ہے اور دبائو بڑھنے لگتاہے توملک میں پرامن تبدیلی کے لیے نیلسن منڈیلا کے علاوہ کوئی ایسا راہنماء نہیں تھا،جسے عوامی قبولیت حاصل ہو اورجس سے گفت وشنید کی جاسکے۔ یوں نسل پرست حکومت 1990ء میں نیلسن منڈیلاکو رہاکرکے ان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے پر مجبور ہوئی ۔ان مذاکرات کے نتیجے میں 1994ء میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جن میں افریکن نیشنل کانگریس نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور بطل حریت نیلسن منڈیلا آزاد مملکت کے پہلے صدر منتخب ہوگئے۔مگر اس عہدے پر انھوں نے صرف ایک 5 سالہ مدت تک کام کیا اور اپنے ملک میں سیاسی وانتظامی نظام کی سمت کا تعین کرنے کے بعد1999ء کے عام انتخابات میں حصہ نہ لے کر اقتدار سے علیحدہ ہوگئے۔کیونکہ ان کے سامنے دیگر ان گنت ایسے عالمی معاملات تھے، جن کا حل کیا جانا ضروری تھا۔ انھوں نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کی تحریک کا حصہ بننے کے علاوہ HIV/AIDSکے پھیلائو کے خلاف عالمگیر مہم چلائی،جو جنوبی افریقہ میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔
1994ء سے1999ء کے دوران جب وہ بابائے قوم کی حیثیت سے آزاد ملک کے پہلے صدرمنتخب ہوئے،تو عالمی سطح پر یہ خدشات پائے جاتے تھے کہ سیاہ فام اکثریت سفید فام اقلیت سے ڈیڑھ سو برس کے امتیازی سلوک کا چن چن کر بدلہ لے گی اور انتقامی کارروائیوں کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگی۔مگرنیلسن منڈیلاایک عظیم سیاسی مدبر کے طورپر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ان کا سیاسی،سماجی اور تاریخ کا ویژن اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا،اس لیے انھوں نے حقائق سے آگہی کے لیے ایک سچائی کمیشن یعنی Truth Commissionضرور تشکیل دیا۔ مگر اس کی رپورٹ آنے کے بعد انھوں نے پورے جنوبی افریقہ میں عام معافی کا اعلان کیا۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عظمت انتقام لینے میں نہیںبلکہ معاف کردینے میں ہے۔اس کے علاوہ انھیں اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ اگر سیاہ فام عوام انتقام کی آگ میں اندھے ہوگئے تو سفید فام اقلیت کو جونقصان پہنچے گا وہ اپنی جگہ، خود سیاہ فام اکثریت کا مستقبل بھی تاریک ہوجائے گااور وہ کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکیں گے۔ان کا یہ قول ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جونفرت،تعصب اور انتقام پر یقین رکھتے ہیں۔'' انسان پیدائشی طورپر کسی سے نفرت نہیں کرتابلکہ اس کی فطرت تو محبت کرناہے۔نفرت ،تعصب اور ناپسندیدگی کے جذبات پروان چڑھانے میں گھر ،معاشرہ، درسی کتب اور ذرایع ابلاغ نمایاں کردار ادا کرتے ہیں''
نیلسن منڈیلا آج ہمارے درمیان موجود نہیں۔لیکن ان کی جدوجہد،ان کا سیاسی، سماجی اور عالمی کردار پوری دنیا بالخصوص ہم پاکستانیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہم جو اس کرہ ارض کو تاراج کرنے اور اسے حلقہ بگوش اسلام کرنے کی خواہش میں خود اپنے وجود کو جھلسا رہے ہیں۔ ہم جو تہذیبی نرگسیت کا شکار ہونے کے سبب مختلف نوعیت کی عصبیتوں ، فکری امتیازات اور نفرتوں میں اس حد تک مبتلاہوچکے ہیںکہ ہمیں اپنے آنے والے کل کی بھی فکر نہیں رہی ہے۔ہم اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ نیلسن منڈیلا نے اپنے اقدامات سے بیسویں صدی کی آخری دہائی میں میثاق مدینہ اور فتح مکہ کے بعد عام معافی کی روایت کو دوبارہ جلابخشی ہے۔ اس حقیقت کو کیوں فراموش کررہے ہیں کہ اس نے حسینؑ کے حق کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے فلسفہ کی تجدیدکی ہے۔
کاش وہ عناصر جودھونس اور دھاندلی کے ذریعہ عقیدے اور مسلک کے نام پر نفرتوں اور عصبیتوں کے بیج بو رہے ہیںاور وہ عناصر جو بزور طاقت اس ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کرکے یک مسلکی فاشزم قائم کرنے کے خواہشمند ہیں، نیلسن منڈیلاکی جدوجہد کا مطالعہ کرلیں ۔تاکہ شاید ان کی سمجھ میں یہ بات آسکے کہ محبت گولیوں اور باردو سے نہیں بلکہ اپنے پرائے سبھی کو گلے لگانے سے پروان چڑھتی ہے۔ آج اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بلٹ نہیں بیلٹ ہے۔ برچھی نہیں پرچی ہے۔آج دنیا کا کاروبار احسن طریقہ سے چلانے کے لیے تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق لازمی ہیں، جو فکری کثرتیت کو قبول کیے بغیر ممکن نہیں۔ کسی عقیدے،نظرئیے یا مسلک کو اقلیت قرار دیدینے سے اس کے ماننے والوں کے بنیادی انسانی حقوق ختم نہیں ہوتے۔اس سے تعلق رکھنے والے افراد کی اہلیت سے انکار اپنی مملکت کی ترقی کاخود اپنے ہاتھوں راستہ روکناہے۔ کاش ہمارے سیاسی رہنما، مدبر اور دانشور نیلسن منڈیلا کی زندگی اور طویل جدوجہد سے کچھ سبق سیکھ سکیں۔
نیلسن منڈیلا نے اس دنیامیں 1918ء میں اسوقت آنکھیں کھولیں، جب پہلی عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچنے والی تھی اوردنیا بھر میں موجود نوآبادیات میں آزادی کی لہرکروٹ بدل کر بیدار ہو چکی تھی۔استعماری قوتوں کا کردارچونکہ دنیا کے مختلف خطوںمیں مختلف ہوتا ہے،اس لیے کہیں وہ اپنے تجارتی مفادات کی خاطر ریل کی پٹریاں بچھا رہے ہوتے ہیں، سڑکیں تعمیر کررہے ہوتے ہیں توکہیں صنعتکاری کے ذریعہ مقامی آبادی کے لیے روزگار کے نئے ذرایع پیداکررہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اسی دور میں دوسری طرف نسلی تفاوت یا امتیاز (Apartheid)کی نئی داستان بھی رقم کررہے ہوتے ہیں۔اس لیے استعماری قوتوں کے بارے میں کسی ابہام (Illusion) کاشکار نہیں ہونا چاہیے۔اس بارے میں معروف ترقی پسند مورخ اورتاریخ دان ڈاکٹرمبارک علی کاکہناہے کہ '' بظاہر نوآبادیاتی نظام میں کتنی ہی خوبیاں کیوں نہ نظرآئیں، اس دور کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ استعماری قوتوںکا رویہ کبھی نوآبادیاتی عوام کے لیے سودمند اور دوستانہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہر قسم کے تشدد کو روا رکھنا اپنا حق سمجھتی ہیں''۔یہی کچھ معاملہ جنوبی افریقہ میں تھا جہاں قابض سفید فام اقلیت نے اس خطے پر اپنے کنٹرول کی خاطر اصل سیاہ فام باشندوںپر نسلی امتیاز(Apartheid) کے ذریعہ ڈیڑھ صدی تک بدترین انسانیت سوز روئیے اختیارکیے رکھے۔
1943ء میں جب دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی اور برٹش انڈیا سمیت کئی نوآبادیات میں آزادی کی جدوجہد تیز ہوچکی تھی، وہ قانون کی ڈگری لینے کے بعد افریقن نیشنل کانگریس(ANC)میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔اس دوران وہ نوآبادیات میں چلنے والی تحاریک کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں،تو انھیں گاندھی جی کی اہنسا کی پالیسی سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔اس طرح گاندھی جی ان کا رول ماڈل بنتے ہیں اوران کی قومی آزادی کے لیے جد وجہد میں تیزی آنے لگتی ہے۔ان کی فعالیت سے پریشان استعماری حکومت ان کی سیاسی سرگرمیوں کو مشکوک قرار دے کر ان پر مختلف شہروں میں جانے اور تقاریرکرنے پر پابندی عائد کردیتی ہے۔مگر وہ ان پابندیوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتے رہے اور آزادی کے لیے اپنے متعین کردہ راستے پرڈٹے رہے۔ یوں انھیں اگست 1962ء میں گرفتار کرلیاجاتاہے۔ ان پر خصوصی عدالت میں مقدمہ چلتاہے اور جولائی 1963ء میں ان پر فرد جرم عائد کرکے انھیںعمر قید کی سزاسنادی جاتی ہے۔اپنی قید کے دوران وہ کارل مارکس، فرڈیک اینجلزاورکامریڈمائو زے تنگ کے علاوہ دنیا کے تقریباً سبھی بطل حریت راہنمائوں کی سوانح اور ان کی جدوجہد کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔جو ان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور ان کی سوچ میں تبدیلی رونماء ہوتی ہے۔یوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک نئے نیلسن منڈیلا کا جنم ہوتاہے۔وہ نیلسن منڈیلا،جو بعد میں بطل حریت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسانیت نواز اور امن دوست سیاسی مدبر کے طور پر عالمی منظر نامے پر نمودار ہوتا ہے۔
1980ء کے عشرے کے آنے تک پوری دنیا سے نوآبادیاتی نظام ختم ہوچکاتھا۔صرف جنوبی افریقہ پر سفید فام اقلیت کی حکمرانی قائم تھی، جو اپنی ہٹ دھرمی اورڈیڑھ صدی پرانیApartheidکی پالیسی پر اس دور میں بھی سختی سے کاربند رہتی ہے۔میڈیاکے ذریعہ جب نسلی امتیازات کے بارے دنیا بھر میں خبریںعام ہوتی ہیں، انسانی ضمیربیدار ہوتاہے۔یوں جنوبی افریقہ کے اصل باشندوں (Indigenous)کے حقوق کے لیے دنیا کے چپے چپے سے آوازیں اٹھنا شروع ہوتی ہیں۔ جب عالمی ردعمل میں شدت آتی ہے اور دبائو بڑھنے لگتاہے توملک میں پرامن تبدیلی کے لیے نیلسن منڈیلا کے علاوہ کوئی ایسا راہنماء نہیں تھا،جسے عوامی قبولیت حاصل ہو اورجس سے گفت وشنید کی جاسکے۔ یوں نسل پرست حکومت 1990ء میں نیلسن منڈیلاکو رہاکرکے ان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے پر مجبور ہوئی ۔ان مذاکرات کے نتیجے میں 1994ء میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جن میں افریکن نیشنل کانگریس نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور بطل حریت نیلسن منڈیلا آزاد مملکت کے پہلے صدر منتخب ہوگئے۔مگر اس عہدے پر انھوں نے صرف ایک 5 سالہ مدت تک کام کیا اور اپنے ملک میں سیاسی وانتظامی نظام کی سمت کا تعین کرنے کے بعد1999ء کے عام انتخابات میں حصہ نہ لے کر اقتدار سے علیحدہ ہوگئے۔کیونکہ ان کے سامنے دیگر ان گنت ایسے عالمی معاملات تھے، جن کا حل کیا جانا ضروری تھا۔ انھوں نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کی تحریک کا حصہ بننے کے علاوہ HIV/AIDSکے پھیلائو کے خلاف عالمگیر مہم چلائی،جو جنوبی افریقہ میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔
1994ء سے1999ء کے دوران جب وہ بابائے قوم کی حیثیت سے آزاد ملک کے پہلے صدرمنتخب ہوئے،تو عالمی سطح پر یہ خدشات پائے جاتے تھے کہ سیاہ فام اکثریت سفید فام اقلیت سے ڈیڑھ سو برس کے امتیازی سلوک کا چن چن کر بدلہ لے گی اور انتقامی کارروائیوں کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگی۔مگرنیلسن منڈیلاایک عظیم سیاسی مدبر کے طورپر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ان کا سیاسی،سماجی اور تاریخ کا ویژن اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا،اس لیے انھوں نے حقائق سے آگہی کے لیے ایک سچائی کمیشن یعنی Truth Commissionضرور تشکیل دیا۔ مگر اس کی رپورٹ آنے کے بعد انھوں نے پورے جنوبی افریقہ میں عام معافی کا اعلان کیا۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عظمت انتقام لینے میں نہیںبلکہ معاف کردینے میں ہے۔اس کے علاوہ انھیں اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ اگر سیاہ فام عوام انتقام کی آگ میں اندھے ہوگئے تو سفید فام اقلیت کو جونقصان پہنچے گا وہ اپنی جگہ، خود سیاہ فام اکثریت کا مستقبل بھی تاریک ہوجائے گااور وہ کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکیں گے۔ان کا یہ قول ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جونفرت،تعصب اور انتقام پر یقین رکھتے ہیں۔'' انسان پیدائشی طورپر کسی سے نفرت نہیں کرتابلکہ اس کی فطرت تو محبت کرناہے۔نفرت ،تعصب اور ناپسندیدگی کے جذبات پروان چڑھانے میں گھر ،معاشرہ، درسی کتب اور ذرایع ابلاغ نمایاں کردار ادا کرتے ہیں''
نیلسن منڈیلا آج ہمارے درمیان موجود نہیں۔لیکن ان کی جدوجہد،ان کا سیاسی، سماجی اور عالمی کردار پوری دنیا بالخصوص ہم پاکستانیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہم جو اس کرہ ارض کو تاراج کرنے اور اسے حلقہ بگوش اسلام کرنے کی خواہش میں خود اپنے وجود کو جھلسا رہے ہیں۔ ہم جو تہذیبی نرگسیت کا شکار ہونے کے سبب مختلف نوعیت کی عصبیتوں ، فکری امتیازات اور نفرتوں میں اس حد تک مبتلاہوچکے ہیںکہ ہمیں اپنے آنے والے کل کی بھی فکر نہیں رہی ہے۔ہم اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ نیلسن منڈیلا نے اپنے اقدامات سے بیسویں صدی کی آخری دہائی میں میثاق مدینہ اور فتح مکہ کے بعد عام معافی کی روایت کو دوبارہ جلابخشی ہے۔ اس حقیقت کو کیوں فراموش کررہے ہیں کہ اس نے حسینؑ کے حق کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے فلسفہ کی تجدیدکی ہے۔
کاش وہ عناصر جودھونس اور دھاندلی کے ذریعہ عقیدے اور مسلک کے نام پر نفرتوں اور عصبیتوں کے بیج بو رہے ہیںاور وہ عناصر جو بزور طاقت اس ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کرکے یک مسلکی فاشزم قائم کرنے کے خواہشمند ہیں، نیلسن منڈیلاکی جدوجہد کا مطالعہ کرلیں ۔تاکہ شاید ان کی سمجھ میں یہ بات آسکے کہ محبت گولیوں اور باردو سے نہیں بلکہ اپنے پرائے سبھی کو گلے لگانے سے پروان چڑھتی ہے۔ آج اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بلٹ نہیں بیلٹ ہے۔ برچھی نہیں پرچی ہے۔آج دنیا کا کاروبار احسن طریقہ سے چلانے کے لیے تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق لازمی ہیں، جو فکری کثرتیت کو قبول کیے بغیر ممکن نہیں۔ کسی عقیدے،نظرئیے یا مسلک کو اقلیت قرار دیدینے سے اس کے ماننے والوں کے بنیادی انسانی حقوق ختم نہیں ہوتے۔اس سے تعلق رکھنے والے افراد کی اہلیت سے انکار اپنی مملکت کی ترقی کاخود اپنے ہاتھوں راستہ روکناہے۔ کاش ہمارے سیاسی رہنما، مدبر اور دانشور نیلسن منڈیلا کی زندگی اور طویل جدوجہد سے کچھ سبق سیکھ سکیں۔