دل کے طالب جاگتے رہتے ہیں
بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں جب کہ ان کے دل سو رہے ہیں۔۔۔
فرد اپنی ذات میں مکمل ہے۔ یہ فرد کی ذات ہی ہے جو تمام تر فلسفے کا محور ہے۔ مگر خدا کی خوبصورت ترین تخلیق انسان کو تفریق کے خانے میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ پھر انسان، اپنے جیسے دوسرے انسان سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اور یہ زندگی جہنم کی طرح سلگنے لگتی ہے۔ شاعر جمہوریت والٹ وٹسن اپنے اشعار میں امریکا کے عام شہریوں سے مخاطب ہوتا ہے کہ فرد واحد کی صورت تم ہو پوری کائنات، تمہارے خیال سے زندگی کا تسلسل قائم ہے۔ ہماری ہستی میں ایک شعور بیدار ہوتا ہے۔
ایک خیال سر اٹھاتا ہے
جو الگ، خود مختار، باوقار، چمکتے تاروں کی مانند
زندہ جاوید ہے
یہ خیال اپنی ہستی کا ہے
آپ کا اپنے بارے میں خیال، آپ کچھ بھی ہوں
مگر اپنی ذات میں سب کچھ ہیں
اپنی ہستی کا یہ خیال سب سے بڑا اعجاز ہے
یہ وہ حقیقت ہے جو باقی تمام حقیقتوں کے لیے دروازے کی حیثیت رکھتی ہے۔
سارے عقیدے اور تمام رسم و رواج دھند کی طرح چھٹ جاتے ہیں اور فقط اپنی ذات کا شعور اپنا خیال باقی رہ جاتا ہے۔ اس کی ضیا ہر شے پر چھا جاتی ہے۔
پھر رفتہ رفتہ یہی ننھا سا خیال آزادی اور وسعت پاتا ہے اور گویا ساری زمین پر چھا جاتا ہے، آسمانوں تک پہنچ جاتا ہے۔''بالکل یہی سوچ ساؤتھ افریقا میں جنم لینے والے نیلسن منڈیلا کی رہی ہے جس کے لیے انسان دنیا کی ہر شے سے زیادہ قیمتی ہے بلکہ یہ انسان ہی ہے جس میں چاند، ستاروں کی ضیا پاشیاں، پہاڑوں کا عزم، درختوں کی چھاؤں، دریاؤں کی روانی، جھرنوں کا ترنم، ہواؤں کی تازگی، و موسموں کا عکس ملتا ہے۔ منڈیلا جب مراکش اور افریقا سے فوجی تربیت لے کر واپس آیا تو اسے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ تخریب کاری کے کیس میں وہ سزائے موت کا کیس لڑ رہا تھا۔ عدالت میں بیان دیتے منڈیلا کے لفظوں کی روشنی پوری دنیا میں پھیل گئی جب اس نے کہا تھا:''میں انسان پر انسان کے تسلط اور غلبے کے خلاف لڑ رہا ہوں۔ یہ غلبہ سیاہ فاموں کا ہو یا گوروں کی اجارہ داری کا میں ان غیر انسانی رویوں کے خلاف لڑتا رہا ہوں اور لڑتا رہوں گا۔ ایک آزاد جمہوری معاشرے سے مجھے محبت ہے۔ جہاں برابری اور سب کے لیے ایک جیسے مواقعے ہوں۔ یہ میرا خواب ہے جس کی تعبیر پانے کے لیے زندہ ہوں اور جس کی خاطر مجھے موت بھی قبول ہے۔''
یہ اس صدی کے باوقار انسان کا خواب تھا۔ جس کی پاداش میں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جیل کی سختیاں بھی اس کے عزم میں دراڑ نہ ڈال سکیں۔ کیونکہ اس نے افریقا کی زمین سے ہی نہیں بلکہ اس زمین پر بسنے والے تمام انسانوں سے عشق کیا تھا۔ ایک ایسا لازوال عشق جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس کی آنکھیں محبت کے نور سے منور تھیں اور چہرے پر محبتوں کا عکس بکھرا تھا۔ شاید ہی اس نے کبھی کسی سے نفرت کی ہو۔ لیکن یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر کیا تھا ان کالے، بے ہنگم، عام سے لوگوں میں؟ جن کے حقوق کی خاطر وہ ستائیس سال زندگی کی خوبصورتیوں سے دور رہا۔ وہ کسی بھی سمجھوتے پر دستخط کر کے دنیا کے کسی گوشے میں آرام دہ زندگی گزار سکتا تھا۔ اپنے خوابوں کا سودا کرنا اس اس کے لیے ممکن تھا۔ لیکن اس نے مارلو کے تخلیق کردہ کردار ڈاکٹر فاسٹس جیسے بہت سارے رہنما دیکھے تھے، جو دنیاوی عیش و عشرت اور لامحدود طاقت حاصل کرنے کے لیے بدی کی قوتوں سے معاہدہ کرتے ہیں۔ اور یہ سال گزر جانے کے بعد جس طرح ڈاکٹر فاسٹس گمنامی کے جہنم سے خوفزدہ تھا، وہ بھی خوف کے ایسے لمحے سے ٹکرا کر ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ ہٹلر یا پنوشے کو کیوں کوئی یاد نہیں رکھتا؟ یہی وجہ ہے کہ نیلسن منڈیلا نے دل کا سکون ساؤتھ افریقا کے عام سے لوگوں کی محبت میں ڈھونڈا تھا۔
وہ مخصوص طبقے کا رہنما نہیں تھا۔ وہ فقط ساؤتھ افریقا کے پسماندہ طبقوں کا ترجمان نہیں تھا بلکہ پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کا مسیحا تھا۔ مخصوص طبقے کی ترجمانی بھی تعصب کے نظریے کی پرچار کرتی ہے۔ جس نظریے کی زندگی فقط ایک دور تک محدود ہے۔ رویے جو احساس محرومی کی جڑ سے پھوٹ نکلتے ہیں وہ نفرت و نسلی تعصب اور انسانیت سے انتہا کی محبت جیسے جذبے ہیں مثال کے طور پر ہٹلر کی نفرت کی انتہا نے پوری دنیا کو ہلا ڈالا۔ فاشزم اور نازی ازم کی گونج میں جرمنی و اٹلی میں ہٹلر و مسولینی کی آمریت ایک تاریک دور کے گواہ ہیں۔ جرمنی میں ہٹلر اور نازی جماعت کی آمریت دوسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ بنی۔ نسلی برتری کے تعصب اور نظریے کو فروغ دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پولینڈ، یوگوسلاویہ، رومانیہ، بلغاریہ، پرتگال، ہنگری، آسٹریا و یونان اس آگ میں جلنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ نسلی تعصب جینیاتی طور پر بھی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جرمن قوم بینر اٹھائے احتجاج کر رہی تھی بی بی سی پر دکھائی گئی رپورٹ میں لوگ کہہ رہے تھے کہ تشدد کی سیاست کی داغ بیل جو ان کے آباؤ اجداد نے ڈالی، آج وہ اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ آج کا جرمنی ماضی کے تاریک دور کے مقابلے میں بہت بہتر ہو چکا ہے۔ یہ ملک دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہے مگر وہ دنیا کی نظروں میں آج بھی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دوسری جانب اسی احساس محرومی اور تفریق کے پس منظر میں کھڑا نیلسن منڈیلا ہے، جس کے جذبے، فہم و ادراک نے اسے لازوال طاقت بخشی کہ وہ اپنی قوم کو نفرت و تعصب کی کھائیوں سے باہر نکال لایا۔ منڈیلا نے 1990ء میں قید سے نجات حاصل کی اور اپنے خوابوں کو تعبیر کا روپ دینے نکل کھڑا ہوا۔ 27 اپریل 1994ء میں وہ 77 کی عمر میں ساؤتھ افریقا کا سیاہ فام صدر منتخب ہوا۔ مخالفین سے انتقام لینے کے بجائے مصالحت آمیز رویہ اختیار کر کے ایک نئی روایت ڈالی۔ کیونکہ منڈیلا پر تشدد سیاست اور بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے سخت خلاف تھا۔ جیل کی صعوبتوں نے منڈیلا کی شخصیت میں امید کی روشنی بھر دی تھی وہ اپنے لوگوں سے قریب تر ہوتا رہا۔ زمین اور اپنے لوگوں کی قربت نے اس کی شخصیت کو مزید نکھار عطا کیا۔ عشق دل کی آنکھیں کھول دیتا ہے بقول رومی کے:
''بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں جب کہ ان کے دل سو رہے ہیں۔ مگر وہ لوگ جو دل کی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں ان پر کئی راز منکشف ہو جاتے ہیں بظاہر آنکھیں سو رہی ہوں مگر ان کے دل کی لاتعداد آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ دل کا طالب ہمیشہ جاگتا رہتا ہے۔''
محبت کے راستوں کا یہ خوبصورت مسافر جس نے لاتعداد انعام اور نوبل پرائز بھی حاصل کیے تھے۔ ذاتی زندگی میں بہت ہی سادگی پسند تھا۔ اسے شہرتوں سے کوئی غرض نہ تھی۔ دل کی سچائی اس کی کل جمع پونجی تھی۔ اس کے پاس سکون کی دولت کی فراوانی تھی۔ زندگی کی دھوپ سے اسے کبھی ڈر نہیں لگا۔ ایک قدآور درخت کی طرح جس کی جڑیں زمین کی گہرائی میں پیوست ہوتی ہیں۔ سر پر شدید دھوپ کی لہریں رقص کرتی ہیں، مگر وہ اپنے وجود کی گھنی چھاؤں میں سرشار کھڑا ہوتا ہے۔ 5 دسمبر کو جب منڈیلا کی موت کی خبریں فضاؤں میں گردش کرنے لگیں تو دنیا بھر کے پسماندہ طبقوں، دہشتگردی کی شکار قومیں اور انسان دوست لوگ آبدیدہ ہو گئے۔ انھیں محسوس ہوا کہ محبت کی ایک گھنی چھاؤں ان کے سروں سے رخصت ہو گئی ہو جیسے۔ زندگی جو پہلے ہی غیر انسانی رویوں، جبر و استحصال کی قوتوں کے زیر اثر جھلستا ہوا صحرا بن چکی ہے۔ دنیا بھر کے لوگ مختلف طریقوں سے منڈیلا سے عقیدت کا اظہار کر کے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ اس کا نام وقت کی لے پر دھڑکتا رہے گا۔ اس کی یاد کو فنا کے ہاتھ نہیں چھو سکیں گے۔ وہ طویل جدوجہد کے بعد صحرا میں محبت کے پھول کھلا کے ایک ایسی نیند سو چکا ہے، جس میں شعور جاگتا رہتا ہے۔
ایک خیال سر اٹھاتا ہے
جو الگ، خود مختار، باوقار، چمکتے تاروں کی مانند
زندہ جاوید ہے
یہ خیال اپنی ہستی کا ہے
آپ کا اپنے بارے میں خیال، آپ کچھ بھی ہوں
مگر اپنی ذات میں سب کچھ ہیں
اپنی ہستی کا یہ خیال سب سے بڑا اعجاز ہے
یہ وہ حقیقت ہے جو باقی تمام حقیقتوں کے لیے دروازے کی حیثیت رکھتی ہے۔
سارے عقیدے اور تمام رسم و رواج دھند کی طرح چھٹ جاتے ہیں اور فقط اپنی ذات کا شعور اپنا خیال باقی رہ جاتا ہے۔ اس کی ضیا ہر شے پر چھا جاتی ہے۔
پھر رفتہ رفتہ یہی ننھا سا خیال آزادی اور وسعت پاتا ہے اور گویا ساری زمین پر چھا جاتا ہے، آسمانوں تک پہنچ جاتا ہے۔''بالکل یہی سوچ ساؤتھ افریقا میں جنم لینے والے نیلسن منڈیلا کی رہی ہے جس کے لیے انسان دنیا کی ہر شے سے زیادہ قیمتی ہے بلکہ یہ انسان ہی ہے جس میں چاند، ستاروں کی ضیا پاشیاں، پہاڑوں کا عزم، درختوں کی چھاؤں، دریاؤں کی روانی، جھرنوں کا ترنم، ہواؤں کی تازگی، و موسموں کا عکس ملتا ہے۔ منڈیلا جب مراکش اور افریقا سے فوجی تربیت لے کر واپس آیا تو اسے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ تخریب کاری کے کیس میں وہ سزائے موت کا کیس لڑ رہا تھا۔ عدالت میں بیان دیتے منڈیلا کے لفظوں کی روشنی پوری دنیا میں پھیل گئی جب اس نے کہا تھا:''میں انسان پر انسان کے تسلط اور غلبے کے خلاف لڑ رہا ہوں۔ یہ غلبہ سیاہ فاموں کا ہو یا گوروں کی اجارہ داری کا میں ان غیر انسانی رویوں کے خلاف لڑتا رہا ہوں اور لڑتا رہوں گا۔ ایک آزاد جمہوری معاشرے سے مجھے محبت ہے۔ جہاں برابری اور سب کے لیے ایک جیسے مواقعے ہوں۔ یہ میرا خواب ہے جس کی تعبیر پانے کے لیے زندہ ہوں اور جس کی خاطر مجھے موت بھی قبول ہے۔''
یہ اس صدی کے باوقار انسان کا خواب تھا۔ جس کی پاداش میں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جیل کی سختیاں بھی اس کے عزم میں دراڑ نہ ڈال سکیں۔ کیونکہ اس نے افریقا کی زمین سے ہی نہیں بلکہ اس زمین پر بسنے والے تمام انسانوں سے عشق کیا تھا۔ ایک ایسا لازوال عشق جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس کی آنکھیں محبت کے نور سے منور تھیں اور چہرے پر محبتوں کا عکس بکھرا تھا۔ شاید ہی اس نے کبھی کسی سے نفرت کی ہو۔ لیکن یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر کیا تھا ان کالے، بے ہنگم، عام سے لوگوں میں؟ جن کے حقوق کی خاطر وہ ستائیس سال زندگی کی خوبصورتیوں سے دور رہا۔ وہ کسی بھی سمجھوتے پر دستخط کر کے دنیا کے کسی گوشے میں آرام دہ زندگی گزار سکتا تھا۔ اپنے خوابوں کا سودا کرنا اس اس کے لیے ممکن تھا۔ لیکن اس نے مارلو کے تخلیق کردہ کردار ڈاکٹر فاسٹس جیسے بہت سارے رہنما دیکھے تھے، جو دنیاوی عیش و عشرت اور لامحدود طاقت حاصل کرنے کے لیے بدی کی قوتوں سے معاہدہ کرتے ہیں۔ اور یہ سال گزر جانے کے بعد جس طرح ڈاکٹر فاسٹس گمنامی کے جہنم سے خوفزدہ تھا، وہ بھی خوف کے ایسے لمحے سے ٹکرا کر ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ ہٹلر یا پنوشے کو کیوں کوئی یاد نہیں رکھتا؟ یہی وجہ ہے کہ نیلسن منڈیلا نے دل کا سکون ساؤتھ افریقا کے عام سے لوگوں کی محبت میں ڈھونڈا تھا۔
وہ مخصوص طبقے کا رہنما نہیں تھا۔ وہ فقط ساؤتھ افریقا کے پسماندہ طبقوں کا ترجمان نہیں تھا بلکہ پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کا مسیحا تھا۔ مخصوص طبقے کی ترجمانی بھی تعصب کے نظریے کی پرچار کرتی ہے۔ جس نظریے کی زندگی فقط ایک دور تک محدود ہے۔ رویے جو احساس محرومی کی جڑ سے پھوٹ نکلتے ہیں وہ نفرت و نسلی تعصب اور انسانیت سے انتہا کی محبت جیسے جذبے ہیں مثال کے طور پر ہٹلر کی نفرت کی انتہا نے پوری دنیا کو ہلا ڈالا۔ فاشزم اور نازی ازم کی گونج میں جرمنی و اٹلی میں ہٹلر و مسولینی کی آمریت ایک تاریک دور کے گواہ ہیں۔ جرمنی میں ہٹلر اور نازی جماعت کی آمریت دوسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ بنی۔ نسلی برتری کے تعصب اور نظریے کو فروغ دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پولینڈ، یوگوسلاویہ، رومانیہ، بلغاریہ، پرتگال، ہنگری، آسٹریا و یونان اس آگ میں جلنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ نسلی تعصب جینیاتی طور پر بھی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جرمن قوم بینر اٹھائے احتجاج کر رہی تھی بی بی سی پر دکھائی گئی رپورٹ میں لوگ کہہ رہے تھے کہ تشدد کی سیاست کی داغ بیل جو ان کے آباؤ اجداد نے ڈالی، آج وہ اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ آج کا جرمنی ماضی کے تاریک دور کے مقابلے میں بہت بہتر ہو چکا ہے۔ یہ ملک دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہے مگر وہ دنیا کی نظروں میں آج بھی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دوسری جانب اسی احساس محرومی اور تفریق کے پس منظر میں کھڑا نیلسن منڈیلا ہے، جس کے جذبے، فہم و ادراک نے اسے لازوال طاقت بخشی کہ وہ اپنی قوم کو نفرت و تعصب کی کھائیوں سے باہر نکال لایا۔ منڈیلا نے 1990ء میں قید سے نجات حاصل کی اور اپنے خوابوں کو تعبیر کا روپ دینے نکل کھڑا ہوا۔ 27 اپریل 1994ء میں وہ 77 کی عمر میں ساؤتھ افریقا کا سیاہ فام صدر منتخب ہوا۔ مخالفین سے انتقام لینے کے بجائے مصالحت آمیز رویہ اختیار کر کے ایک نئی روایت ڈالی۔ کیونکہ منڈیلا پر تشدد سیاست اور بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے سخت خلاف تھا۔ جیل کی صعوبتوں نے منڈیلا کی شخصیت میں امید کی روشنی بھر دی تھی وہ اپنے لوگوں سے قریب تر ہوتا رہا۔ زمین اور اپنے لوگوں کی قربت نے اس کی شخصیت کو مزید نکھار عطا کیا۔ عشق دل کی آنکھیں کھول دیتا ہے بقول رومی کے:
''بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں جب کہ ان کے دل سو رہے ہیں۔ مگر وہ لوگ جو دل کی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں ان پر کئی راز منکشف ہو جاتے ہیں بظاہر آنکھیں سو رہی ہوں مگر ان کے دل کی لاتعداد آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ دل کا طالب ہمیشہ جاگتا رہتا ہے۔''
محبت کے راستوں کا یہ خوبصورت مسافر جس نے لاتعداد انعام اور نوبل پرائز بھی حاصل کیے تھے۔ ذاتی زندگی میں بہت ہی سادگی پسند تھا۔ اسے شہرتوں سے کوئی غرض نہ تھی۔ دل کی سچائی اس کی کل جمع پونجی تھی۔ اس کے پاس سکون کی دولت کی فراوانی تھی۔ زندگی کی دھوپ سے اسے کبھی ڈر نہیں لگا۔ ایک قدآور درخت کی طرح جس کی جڑیں زمین کی گہرائی میں پیوست ہوتی ہیں۔ سر پر شدید دھوپ کی لہریں رقص کرتی ہیں، مگر وہ اپنے وجود کی گھنی چھاؤں میں سرشار کھڑا ہوتا ہے۔ 5 دسمبر کو جب منڈیلا کی موت کی خبریں فضاؤں میں گردش کرنے لگیں تو دنیا بھر کے پسماندہ طبقوں، دہشتگردی کی شکار قومیں اور انسان دوست لوگ آبدیدہ ہو گئے۔ انھیں محسوس ہوا کہ محبت کی ایک گھنی چھاؤں ان کے سروں سے رخصت ہو گئی ہو جیسے۔ زندگی جو پہلے ہی غیر انسانی رویوں، جبر و استحصال کی قوتوں کے زیر اثر جھلستا ہوا صحرا بن چکی ہے۔ دنیا بھر کے لوگ مختلف طریقوں سے منڈیلا سے عقیدت کا اظہار کر کے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ اس کا نام وقت کی لے پر دھڑکتا رہے گا۔ اس کی یاد کو فنا کے ہاتھ نہیں چھو سکیں گے۔ وہ طویل جدوجہد کے بعد صحرا میں محبت کے پھول کھلا کے ایک ایسی نیند سو چکا ہے، جس میں شعور جاگتا رہتا ہے۔