صبح ضرور آئے گی
بلوچستان کے عوام کے دن بدل نہ سکے
یوں تو وطن عزیز پاکستان کا ہر صوبہ اپنی اپنی جگہ خصوصی اہمیت کا حامل اور وفاق کا جزو لاینفک یعنی اٹوٹ انگ ہے لیکن جغرافیائی محل وقوع اور تزویراتی نقطہ نظر سے بلوچستان کی اہمیت دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے بڑھ کر ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ کہ اس کی سرزمین میں قدرتی گیس سے لے کر سنگ مر مر، کوئلے، تانبے اور سونے کے بے تحاشا اور بیش قیمت خزانے مدفون ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی قوتوں کی للچائی ہوئی نظریں اس پر مرکوز ہیں جس کی وجہ سے اس صوبے میں سازشوں کا جال بچھا ہوا ہے گویا:
اے روشنی طبع تو برمن بلا شُدی
پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ان گھناؤنی سازشوں میں پیش پیش ہے، جس کا تازہ ترین انکشاف بھارتی جاسوس کلبھوشن یادوکے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت بلوچستان کے پاکستان مخالف عناصر کی پرورش، حوصلہ افزائی اور پشت پناہی میں بھی پوری طرح ملوث ہے اور اس مذموم منصوبے میں اپنے افغان آلہ کاروں کو بھی بری طرح استعمال کر رہا ہے۔
بھارت کا یہ مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بالکل بے نقاب ہوچکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالے نہتے کشمیریوں پر بھارت کے انسانیت سوز مظالم سے سارا جہان آگاہ ہے۔ بھارت کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیا جانے والا غیر انسانی سلوک بھی دنیا بھر پر آشکارا ہو چکا ہے۔ بھارت کے نام نہاد سیکولر ازم کے غبارے کی ساری ہوا بی جے پی سرکار کے ہندوتوا کے پرچار نے نکال دی ہے اور اب بھارت کے منہ پر چڑھا ہوا فریب کا مکھوٹا اترنے کے بعد اس کا مکروہ چہرہ ساری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ اس لیے پاکستان کے خلاف اس کا جھوٹا پروپیگنڈا اسی کے خلاف جائے گا اور Back Fire کرے گا۔
بلوچستان کی اصل صورت حال کے تجزیے کے لیے اس کی تاریخ اور ثقافت سے آگاہی ضروری ہے۔ 12 صدی پرانا قصہ ہے جب میر جلال خان کی سرپرستی میں 44 قبائل پر مشتمل ایک نیم وفاقی ڈھانچے کا قیام بلوچستان میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے بعد میر چاکر خان رند کے سائے تلے 15 ویں صدی تک سب سے بڑی کنفیڈریسی معرض وجود میں آئی جو میر چاکر کی وفات تک قائم رہی جس کا دائرہ مغرب میں واقع کرمان سے لے کر مشرق میں سندھ تک محیط رہا۔ لیکن میر چاکر کی موت کے بعد سیاسی اتحاد برقرار نہ رہ سکا۔ 1666 میں میر احمد خان کو خان آف قلات چن لیا گیا اس کے ساتھ ہی قلات کی پہلی نیم وفاقی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ خان آف قلات کے پوتے میر ناصر خان کے زیر نگرانی ایک متحدہ فوج اور انتظامیہ ڈھانچہ بھی تشکیل پایا۔ قلات کو دو یونٹوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ساروان کا یونٹ، رئیسانی اور جھالاوان کا یونٹ زہری قبیلے کے سرداروں کی تحویل میں دے دیا گیا۔
اس طرح سرداروں پر مشتمل کونسل کے زیر اہتمام بلوچ کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔ 1805 سے لے کر 1939 میں برٹش مداخلت کے آغاز تک ناصر خان کے جانشین آزادانہ طور پر برسر اقتدار رہے پھر وسطی ایشیا میں روسی مداخلت کے نتیجے میں بلوچستان میں برطانوی مداخلت کی ابتدا ہوئی۔ 1838 میں برطانوی کرتا دھرتاؤں نے خان آف قلات محراب خان کے ساتھ درۂ بولان کے استعمال کا معاہدہ کیا، لیکن معاہدے کی خلاف ورزیوں کو بہانہ بنا کر انگریزوں نے قلات پر حملہ کردیا اور محراب خان کو قتل کردیا، جس کے بعد ناصر خان دوم کو وفاق کا سربراہ بنا دیا گیا۔ پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کو شکست فاش ہوئی۔
1875 میں قلات کی آزادانہ حیثیت کو تسلیم کرلیا جس کے نتیجے میں سرداری نظام کا آغاز ہوگیا۔ وقت گزرتا رہا اور بلوچستان کا نظام بھی اس کے ساتھ ساتھ نئی کروٹیں لیتا رہا۔ برسبیل تذکرہ 1927 میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 2 صحافیوں عبدالعزیز کرد اور ماسٹر پیر بخش نے دہلی سے ''بلوچستان'' نامی اخبار کا آغاز کیا اس کے بعد 1929 میں میر محمد یوسف علی خان مگسی اور عبدالعزیزکرد نے انجمن اتحاد بلوچستان کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے ساتھ ہی بلوچستان میں ایک سیکولر اور غیر قبائلی قومی تحریک کی داغ بیل پڑی۔ 1935 میں کوئٹہ میں آنے والے شدید زلزلے کے دوران یوسف علی خان مگسی کی موت واقع ہوگئی جس کے بعد انجمن کا نام تبدیل کرکے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی رکھ دیا گیا۔ برسبیل تذکرہ یہ تنظیم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ کرنے والی مسلم لیگ کی حامی نہیں تھی۔
بلوچستان میں بولی جانے والی زبانیں بھی بلوچستان کی سیاست اور ثقافت کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ بلوچستان میں انگریزوں کی بالادستی کے نتیجے میں سرکاری زبان فارسی کو تبدیل کرکے اس کی جگہ اردو اور انگریزی کو رائج کردیا گیا۔ 1970 کی دہائی میں اس وقت کے صوبائی وزیر تعلیم گل خان نصیر کی قیادت میں بااثر قلم کاروں کے ایک گروپ نے رومن اسکرپٹ کو رائج کرنے کی کوشش کی جس کے حق میں انھوں نے ترکی زبان کی مثال پیش کی لیکن اس تجویز کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔
1990 میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے بلوچستان کی مادری زبان کے استعمال کا قانون منظور کیا جس کے تحت بلوچی، براہوی اور پشتو اور پرائمری کی سطح پر لازمی میڈیم قرار دیا گیا لیکن 1992 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے برسر اقتدار آنے کے بعد کابینہ کے ایک فیصلے کے ذریعے اس قانون کو معطل کردیا گیا۔
1948 میں بلوچستان کے سیاسی حالات نے ایک نئی اور انقلابی سیاسی کروٹ لی جب میر احمد یار خان آف قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جس کے نتیجے میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ لیکن اس کے بعد پاکستان میں حکمرانوں کی تبدیلیوں کے نتیجے میں بلوچستان کی سیاست میں پے در پے نشیب و فراز آتے رہے جن کا تذکرہ ایک طولانی اور لاحاصل قصہ ہے۔ فیض صاحب کے بقول:
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
تھا انتظار وہ جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
بلوچستان کے عوام کے دن بدل نہ سکے، ان کی قسمت کا ستارہ گردش میں ہی رہا۔ کسی بھی نظام نے اور کسی بھی حکمران نے ان کے ساتھ وفا نہ کی۔ ان کے نام پر فنڈز تو مختص کیے جاتے رہے لیکن یہ فنڈز کہیں اور استعمال ہوتے رہے۔ بس ڈھاک کے وہی تین پات! بلوچستان کے عوام کی پسماندگی جوں کی توں برقرار رہی۔ اس پسماندگی کے ہم عینی شاہد ہیں کیونکہ سرکاری ملازمت کے تقریباً دو سال کوئٹہ میں گزارنے کے بعد ہم نے یہی دیکھا کہ بلوچستان کے عوام کا پرسان حال عملاً کوئی نہیں۔ ہم نے بلوچ عوام کی غربت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا ہے۔
گستاخی معاف! استحصال کا یہ سلسلہ نہ جانے کب ختم ہوگا اور بلوچستان کے محروم عوام کے بھاگ کب جاگیں گے؟ یہی وہ غربت ہے کہ جسے اپنے اور پرائے سبھی Exploit کر رہے ہیں۔ ان شا اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب حق و انصاف کا سورج طلوع ہوگا اور بلوچ عوام کے حالات ایک خوشگوار رخ اختیار کریں گے۔ ساحر لدھیانوی کا یہ شعر بلوچ عوام کے لیے امید کی ایک روشن کرن ہے:
غم کی اندھیری رات میں دل کو نہ بے قرارکر
صبح ضرور آئے گی صبح کا انتظار کر
اے روشنی طبع تو برمن بلا شُدی
پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ان گھناؤنی سازشوں میں پیش پیش ہے، جس کا تازہ ترین انکشاف بھارتی جاسوس کلبھوشن یادوکے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت بلوچستان کے پاکستان مخالف عناصر کی پرورش، حوصلہ افزائی اور پشت پناہی میں بھی پوری طرح ملوث ہے اور اس مذموم منصوبے میں اپنے افغان آلہ کاروں کو بھی بری طرح استعمال کر رہا ہے۔
بھارت کا یہ مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بالکل بے نقاب ہوچکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالے نہتے کشمیریوں پر بھارت کے انسانیت سوز مظالم سے سارا جہان آگاہ ہے۔ بھارت کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیا جانے والا غیر انسانی سلوک بھی دنیا بھر پر آشکارا ہو چکا ہے۔ بھارت کے نام نہاد سیکولر ازم کے غبارے کی ساری ہوا بی جے پی سرکار کے ہندوتوا کے پرچار نے نکال دی ہے اور اب بھارت کے منہ پر چڑھا ہوا فریب کا مکھوٹا اترنے کے بعد اس کا مکروہ چہرہ ساری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ اس لیے پاکستان کے خلاف اس کا جھوٹا پروپیگنڈا اسی کے خلاف جائے گا اور Back Fire کرے گا۔
بلوچستان کی اصل صورت حال کے تجزیے کے لیے اس کی تاریخ اور ثقافت سے آگاہی ضروری ہے۔ 12 صدی پرانا قصہ ہے جب میر جلال خان کی سرپرستی میں 44 قبائل پر مشتمل ایک نیم وفاقی ڈھانچے کا قیام بلوچستان میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے بعد میر چاکر خان رند کے سائے تلے 15 ویں صدی تک سب سے بڑی کنفیڈریسی معرض وجود میں آئی جو میر چاکر کی وفات تک قائم رہی جس کا دائرہ مغرب میں واقع کرمان سے لے کر مشرق میں سندھ تک محیط رہا۔ لیکن میر چاکر کی موت کے بعد سیاسی اتحاد برقرار نہ رہ سکا۔ 1666 میں میر احمد خان کو خان آف قلات چن لیا گیا اس کے ساتھ ہی قلات کی پہلی نیم وفاقی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ خان آف قلات کے پوتے میر ناصر خان کے زیر نگرانی ایک متحدہ فوج اور انتظامیہ ڈھانچہ بھی تشکیل پایا۔ قلات کو دو یونٹوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ساروان کا یونٹ، رئیسانی اور جھالاوان کا یونٹ زہری قبیلے کے سرداروں کی تحویل میں دے دیا گیا۔
اس طرح سرداروں پر مشتمل کونسل کے زیر اہتمام بلوچ کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔ 1805 سے لے کر 1939 میں برٹش مداخلت کے آغاز تک ناصر خان کے جانشین آزادانہ طور پر برسر اقتدار رہے پھر وسطی ایشیا میں روسی مداخلت کے نتیجے میں بلوچستان میں برطانوی مداخلت کی ابتدا ہوئی۔ 1838 میں برطانوی کرتا دھرتاؤں نے خان آف قلات محراب خان کے ساتھ درۂ بولان کے استعمال کا معاہدہ کیا، لیکن معاہدے کی خلاف ورزیوں کو بہانہ بنا کر انگریزوں نے قلات پر حملہ کردیا اور محراب خان کو قتل کردیا، جس کے بعد ناصر خان دوم کو وفاق کا سربراہ بنا دیا گیا۔ پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کو شکست فاش ہوئی۔
1875 میں قلات کی آزادانہ حیثیت کو تسلیم کرلیا جس کے نتیجے میں سرداری نظام کا آغاز ہوگیا۔ وقت گزرتا رہا اور بلوچستان کا نظام بھی اس کے ساتھ ساتھ نئی کروٹیں لیتا رہا۔ برسبیل تذکرہ 1927 میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 2 صحافیوں عبدالعزیز کرد اور ماسٹر پیر بخش نے دہلی سے ''بلوچستان'' نامی اخبار کا آغاز کیا اس کے بعد 1929 میں میر محمد یوسف علی خان مگسی اور عبدالعزیزکرد نے انجمن اتحاد بلوچستان کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے ساتھ ہی بلوچستان میں ایک سیکولر اور غیر قبائلی قومی تحریک کی داغ بیل پڑی۔ 1935 میں کوئٹہ میں آنے والے شدید زلزلے کے دوران یوسف علی خان مگسی کی موت واقع ہوگئی جس کے بعد انجمن کا نام تبدیل کرکے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی رکھ دیا گیا۔ برسبیل تذکرہ یہ تنظیم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ کرنے والی مسلم لیگ کی حامی نہیں تھی۔
بلوچستان میں بولی جانے والی زبانیں بھی بلوچستان کی سیاست اور ثقافت کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ بلوچستان میں انگریزوں کی بالادستی کے نتیجے میں سرکاری زبان فارسی کو تبدیل کرکے اس کی جگہ اردو اور انگریزی کو رائج کردیا گیا۔ 1970 کی دہائی میں اس وقت کے صوبائی وزیر تعلیم گل خان نصیر کی قیادت میں بااثر قلم کاروں کے ایک گروپ نے رومن اسکرپٹ کو رائج کرنے کی کوشش کی جس کے حق میں انھوں نے ترکی زبان کی مثال پیش کی لیکن اس تجویز کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔
1990 میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے بلوچستان کی مادری زبان کے استعمال کا قانون منظور کیا جس کے تحت بلوچی، براہوی اور پشتو اور پرائمری کی سطح پر لازمی میڈیم قرار دیا گیا لیکن 1992 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے برسر اقتدار آنے کے بعد کابینہ کے ایک فیصلے کے ذریعے اس قانون کو معطل کردیا گیا۔
1948 میں بلوچستان کے سیاسی حالات نے ایک نئی اور انقلابی سیاسی کروٹ لی جب میر احمد یار خان آف قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جس کے نتیجے میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ لیکن اس کے بعد پاکستان میں حکمرانوں کی تبدیلیوں کے نتیجے میں بلوچستان کی سیاست میں پے در پے نشیب و فراز آتے رہے جن کا تذکرہ ایک طولانی اور لاحاصل قصہ ہے۔ فیض صاحب کے بقول:
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
تھا انتظار وہ جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
بلوچستان کے عوام کے دن بدل نہ سکے، ان کی قسمت کا ستارہ گردش میں ہی رہا۔ کسی بھی نظام نے اور کسی بھی حکمران نے ان کے ساتھ وفا نہ کی۔ ان کے نام پر فنڈز تو مختص کیے جاتے رہے لیکن یہ فنڈز کہیں اور استعمال ہوتے رہے۔ بس ڈھاک کے وہی تین پات! بلوچستان کے عوام کی پسماندگی جوں کی توں برقرار رہی۔ اس پسماندگی کے ہم عینی شاہد ہیں کیونکہ سرکاری ملازمت کے تقریباً دو سال کوئٹہ میں گزارنے کے بعد ہم نے یہی دیکھا کہ بلوچستان کے عوام کا پرسان حال عملاً کوئی نہیں۔ ہم نے بلوچ عوام کی غربت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا ہے۔
گستاخی معاف! استحصال کا یہ سلسلہ نہ جانے کب ختم ہوگا اور بلوچستان کے محروم عوام کے بھاگ کب جاگیں گے؟ یہی وہ غربت ہے کہ جسے اپنے اور پرائے سبھی Exploit کر رہے ہیں۔ ان شا اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب حق و انصاف کا سورج طلوع ہوگا اور بلوچ عوام کے حالات ایک خوشگوار رخ اختیار کریں گے۔ ساحر لدھیانوی کا یہ شعر بلوچ عوام کے لیے امید کی ایک روشن کرن ہے:
غم کی اندھیری رات میں دل کو نہ بے قرارکر
صبح ضرور آئے گی صبح کا انتظار کر