قلندر صفت سہیل قلندر…

سہیل قلندر کی دلآویز شخصیت اور مسحور کن باتیں ان کی شخصیت کا خاصہ تھیں، ان کی قیادت مثالی قائد کی سی تھی

صوبہ خیبر پختون خوا نے زندگی کے ہر شعبے میں تاریخی اور ناقابل فراموش ہستیوں کو جنم دیا ہے۔ سہیل قلندر ( مرحوم ) ''میدان صحافت'' کا وہ درخشاں ستارہ تھے جو ذاتی محنت اور لیاقت کی بدولت پہلے صوبہ خیبر پختون خوا کے صف اول کے صحافیوں میں شامل ہوئے اور اپنے ذہن رسا اور زور قلم کے بل بوتے پر روز نامہ ایکسپریس پشاور کے ایڈیٹر بن گئے مگر اس قدر شہرت اور نام کمانے کے باوجود بھی ان کے مزاج میں غرور یا بڑے پن کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا اور اپنے مخلص ''قلندر'' کی عملی تصویر بن کر ہر چھوٹے بڑے سے انتہائی منکسر المزاجی اور شفقت سے ملتے تھے یہی وجہ ہے کہ سہیل قلندر سے جو بھی ایک بار مل لیتا وہ ان کی مہمان نوازی، فہم و فراست اور شفقت آمیز رویے کو عمر بھر بھول نہیں پاتا تھا۔ سہیل قلندر کو اللہ تعالیٰ نے مسائل کی تہہ تک پہنچنے اور ان کا حل نکالنے کا ملکہ عطا فرمایا تھا اور وہ صوبہ پختون خوا کے ان گنے چنے صحافیوں میں سے ایک تھے جو ''اہل بصیرت'' کہلائے جانے کے حقدار ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کی تحریر میں روانی اور سادگی کا عنصر شامل رہتا اس لیے وہ عام فہم ہونے کی وجہ سے عوام اور خواص دونوں میں یکساں مقبول تھے۔

سہیل قلندر کی دلآویز شخصیت اور مسحور کن باتیں ان کی شخصیت کا خاصہ تھیں، ان کی قیادت مثالی قائد کی سی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت میں روزنامہ ایکسپریس نے انتہائی سرعت سے ترقی کی منزلیں طے کیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اخبار صوبہ خیبر پختون خوا کا مقبول ترین اخبار بن گیا۔ سہیل قلندر کی شخصیت ایک طر ف اگر عجز، انکسار اور سادگی سے عبارت تھی تو دوسری طرف ان میں حق گوئی اور راست بازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے کالموں کو اٹھا کر پڑھئے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ صحافت میں سہیل قلندر سے بڑھ کر حق پرست اور صاف گو صحافی ہو ہی نہیں سکتا، انھوں نے قلم کا حق کچھ اس طر ح ادا کیا ہے کہ جس بات کو کہتے ہوئے بہت بڑے بڑے گھبراتے وہ بات سہیل قلندر انتہائی بہادری اور دلیری سے لکھ لیتے۔


انھوں نے اصولوں اور سچ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ایک ایسے دور میں جب سب کچھ انتہائی دگر گوں اور ناقابل فہم بن چکا تھا اور سچ اور جھوٹ کے مابین فرق مشکل ہو گیا تھا انھوں نے آگے بڑھ کر حقائق سے پردہ اٹھایا جھوٹ اور سچ کو الگ کر کے دکھایا اس طر ح نہ صرف انھوں نے پختونوں بلکہ پاکستان اور اسلام کی وہ خدمت کی جو ایک غیور پختون، محب وطن پاکستانی اور سچا مسلمان ہی کر سکتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز سہیل قلندر کو دیا کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کا ساتھ دیتے ہوئے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے۔ سال 2009ء میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 17 لاکھ سواتی اپنے ہی ملک میں مہاجر بن کر گھروں سے بے گھر ہو گئے تو سہیل قلندر نے تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر دہشت گردی اور اس حوالے سے تمام تر مسائل پر کھل کر لکھنا شروع کر دیا حتی ٰ کہ پاک فوج اور عوام کی بے پناہ قربانیاں اور سہیل قلندر جیسے نڈر اور بے باک صحافی کی تحریریں رنگ لے آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سوات کے عوام دوبارہ اپنے گھروں میں آباد ہو گئے۔ آج سہیل قلندر مرحوم کی چوتھی برسی ہے مگر خیبر پختو ن خوا کے عوام بالعموم اور سوات کے عوام بالخصوص اپنے محسن صحافی کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں امن اور سلامتی کے لیے صدائے حق بلند کی تھی ۔

(سہیل قلندر مرحوم کی برسی کے حوالے سے خصوصی تحریر)
Load Next Story