ہندوستان میں غلامی
ہندوستان کے ترک حکمران خود غلام تھے۔ غزنی کا محمود ایک خرید کردہ غلام سبکتگین کا بیٹا تھا۔۔۔
ہندوستان کے ترک حکمران خود غلام تھے۔ غزنی کا محمود ایک خرید کردہ غلام سبکتگین کا بیٹا تھا۔ سبکتگین کو کبھی الپتگین نے خریدا تھا جو خود بھی خرید شدہ غلام تھا۔ الپتگین پہلا ترک غلام اور جنگجو حکمران تھا جس نے ہندوستان پر چڑھائی کی تھی۔ اس کا پورا زمانہ اور خوش تدبیری تمام ترک غلاموں کی تاباں علامت ہے۔ الپتگین کو خراسان اور بخارا کے سامانی بادشاہ احمد بن اسمٰعیل نے خریدا تھا۔ الپتگین نے نیشا پور میں سبکتگین کو ایک سوداگر ناصر حاجی سے خریدا تھا جو اسے ترکستان سے بخارا لایا تھا۔ سبکتگین نے ہند پر متعدد دھاوے بولے۔ اپنے آقا کی موت کے بعد اس کے امراء نے اسے تخت پر بٹھا دیا، وہ بسیار مرادوں والا حکمران نکلا۔ اپنے ترک اور افغان مصاحبین اور سپاہ کی مدد سے اس نے بخارا کی سامانی قوت پر چڑھائی کر دی اور برس ہا برس تک جاری رہنے والی جنگ و جدل کے بعد اپنے بیٹے محمود کے لیے اس صوبے پر 994ء میں کامیاب ہو گیا۔
محمود نے سلطان کا لقب اختیار کیا اور اسے خلیفہ وقت تسلیم کر لیا گیا۔ کوئی دو صدی بعد غوریوں نے غزنویوں سے غزنی چھین لیا۔ اس کے عظیم سلطان میں سے ایک شہاب الدین تھا (المعروف معیز الدین بن سام اور محمد غوری) بالکل عباسی خلیفہ متعصم کی طرح جس نے پہلی مرتبہ ترک غلاموں کی ایک کثیر تعداد کو اپنی ملازمت میں رکھا۔ سلطان معیز الدین بن سام غوری بھی اس میں بڑی مسرت محسوس کرتا تھا کہ ترک غلاموں کو خریدے۔ سلطان معیز الدین کے پاس خرید شدہ ہزاروں غلام تھے۔ باقی ماندہ مختلف مہموں میں پکڑے گئے ہوں گے۔ قطب الدین ایبک جو ترقی کر کے ہندوستان کا پہلا غلام سلطان بنا اسے صغیر سنی میں فخرالدین نے خریدا تھا جو نیشا پور کا قاضی القضاۃ تھا اور لگتا ہے کہ غلاموں کا ایک بڑا تاجر بھی تھا۔ شمس الدین التمش کا عہد حکومت جس نے 1210ء سے 1231ء تک بطور سلطان حکومت کی، وہ زمانہ بڑا رومانٹک اور واقعات سے پر رہا۔ وہ ایبک کا خریدا ہوا غلام تھا۔ یوں وہ ایک غلام کا غلام ہوا۔ اس کا تعلق دراصل ترکستان کے خطے سے تھا اور ''الباری'' قبیلے کا فرد تھا۔ اس کے باپ علم خان کے لاتعداد عزیز و اقارب، رشتے دار، متوسلین اور پیروکار تھے۔
اس کے بھائی اسے کسی بہانے والدین سے دور لے گئے اور اسے کسی غلاموں کے تاجر بخارا حاجی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ تاجر نے اسے اس علاقے کے سب سے بڑے مفتی صدر جہاں کو بیچ ڈالا۔ بعد میں ایک اور سوداگر جمال الدین محمد نے اسے خرید لیا اور اسے غزنی میں لے آیا۔ بعد ازاں قطب الدین ایبک نے اسے بڑی قیمت پر خرید لیا۔ ایبک کی ناگہانی موت پر امرا اور ملوک نے اس کے بیٹے کو تخت پر بٹھا دیا۔ آرام شاہ اور قباچہ نے اوچ اور ملتان پر چڑھائی کر دی اور دونوں جگہوں پر قبضہ کر لیا۔ جس پر امراء نے التمش کو بدایوں سے طلب کیا کہ وہ امور سلطنت کی باگ ڈور سنبھالے۔ آرام کی چھوٹی سی فوج یہ آسانی سے زیر ہو گئی اور غالباً اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور التمش دہلی کے تخت پر بیٹھ گیا۔ وہ زیادہ تر امیروں کے خون کے دریا میں سے گزر کر تخت پر بیٹھا تھا۔ دیگر سلطانوں کے نصیب میں بھی ایسی ہی خون آشامی لکھی تھی۔ تاج الدین پلدوز کو سلطان محمود غزنوی نے اس وقت خریدا تھا جب وہ لڑکا تھا۔ پلدوز نے جوابی حملہ کر کے قباچہ کے سندھ پر قبضہ کر لیا اور خود کو پنجاب میں بھی مستحکم کر لیا۔ لیکن التمش نے 1215ء میں اسے شکست دے دی۔
پلدوز کو قیدی بنا کر بدایوں کے قلعے میں بھیج دیا گیا اور بعد میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ قباچہ نے 1217ء میں التمش کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور بالآخر 1217ء میں ہی اپنے انجام کو پہنچا۔ جب کہ قباچہ، ایبک اور پلدوز دونوں کا داماد تھا۔ یہ ذہن میں رہے کہ مسلم شریعت کے مطابق غلام آقا کی منشا اور اجازت کے بغیر نکاح کے بندھن میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ نہایت مختصر مدت میں قباچہ نے ملتان کو بھی قلمرو میں شامل کر لیا اور اسی کے ساتھ سیستان اور پورے سندھ کو بھی۔ لیکن اس کی مرادوں کو پلدوز اور التمش کی خواہشات سے تصادم ہو گیا اور سیاسی اقتدار کے کھیل میں شکست کھا گیا۔ اسی طرح التمش کے اخلاف نے بلبن کے ہاتھوں شکست کھائی جو بڑی مرادیں رکھنے والا ایک غلام تھا۔ بصرہ کے خواجہ جمال الدین نے بلبن کو منگولوں سے خرید لیا۔ سرکاری وقایع نگار ہسناج سراج کی روایت ہے۔ تاہم عصامی کے مطابق چند چینی سوداگروں نے دیگر اشیا کے ساتھ 40 غلاموں کو سلطان التمش کی خدمت میں پیش کیا۔
سلطان نے بلبن کو رد کر دیا لیکن وزیر کمال الدین محمد بندی نے بلبن میں پوشیدہ ہونہار اوصاف دیکھ کر اسے خرید لیا۔ ابن بطوطہ کا کہنا یہ ہے کہ سلطان التمش نے سو غلاموں کا یکمشت سودا کیا، اس میں سے بلبن کو نکال دیا۔ بعد ازاں التمش نے بلبن کو بھی خرید کر 40 خاص غلاموں میں شامل کر لیا۔ رضیہ نے اسے ترقی دے کر امیر شکار کے عہدے پر فائز کر دیا۔ جب چند امیروں نے رضیہ کے خلاف بغاوت کی تو بلبن نے ان کا ساتھ دیا اور اس کی معزولی میں مدد کی۔ اس نے نئے بادشاہ بہرام کی تخت نشینی میں بھی مدد کی جس نے اسے یہ صلہ دیا کہ اسے ریواڑی کی جاگیر عطا کر دی، بعد ازاں اس میں ہانسی کا بھی اضافہ کر دیا۔ اس کی چالاکی اور عیاری نے ناصر الدین محمود کو تخت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ بادشاہ کا مشیر خاص بن گیا۔ چند سال بعد اس نے اپنی حیثیت کو اس طرح مزید مستحکم کر لیا جب اپنی بیٹی سلطان سے بیاہ دی جس پر اسے البغ خاندان (خان عظیم) کے خطاب سے نوازا گیا اور نائب السلطنت مقرر کیا گیا۔ وہ 1265ء میں بادشاہ بننے تک سلطنت میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا امیر تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی نے سلطان ناصرالدین کو زہر دلوایا۔
مذکورہ غلاموں کی کامیابیوں کے زیر اثر متعدد اہل علم لوگوں نے قرون وسطیٰ کے مسلم نظام غلامی کی بڑی تعریف کی اور اسے لاجواب قرار دیا۔ اور اس پر زور دیا کہ اس نظام میں اتنی گنجائش تھی کہ جس میں ایک غلام بھی ترقی کرتا ہوا بادشاہ بن سکتا تھا۔ یہ کوئی درست جائزہ نہیں۔ غلاموں کو اس لیے نہیں پکڑا جاتا تھا کہ انھیں بادشاہ بنانا مقصود تھا۔ انھیں اغوا کیا جاتا تھا، پکڑ لیا جاتا یا پھر خریدا جاتا تا کہ وہ بطور خانگی ملازم کام کرے، چوکیداری کرے یا سپاہی بن جائے۔ انھیں تحصیل زر کے لیے ڈالا جاتا۔ غلام اور بادشاہ کی اصلاح ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر چند غلام بادشاہ بن بھی گئے تو اس کا یہ سبب نہ تھا کہ رائج نظام انھیں یہ مواقعے مہیا کرتا تھا بلکہ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ناروا ریشہ دوانیوں میں پڑ جاتے۔ لڑاکا دستوں کو اپنا پیرو بنا لیتے اور مناسب موقعوں پر چوٹ لگا کر تخت پر قبضہ کر لیتے اگر چند غلام ترقی کر کے بادشاہ بن بھی گئے تو کثیر تعداد ایسوں کی ہے جو اتنی مرادیں رکھتے اور ایسے ہی کارگزار تھے مگر گم کردہ راہ ہو گئے۔ ایسا ہی اختیارالدین بختیار خلجی اس کی مثال ہے۔
اس کو خود کو منوانے میں بہت وقت لگا۔ وہ صوبہ گرم سیر کے قبیلے غور سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ غزنی میں سلطان معیز الدین کے دربار میں پہنچ گیا اور دیوان ارض میں بھرتی ہونے کی درخواست دی لیکن رد کر دیا گیا۔ اس وجہ سے وہ غزنی سے ہندوستان کی جانب عازم ہوا مگر وہ دہلی میں بھی دیوان ارض کے لیے رد کر دیا گیا۔ اس کے بعد وہ بدایوں چلا گیا اور ازاں بعد اوودھ جا پہنچا۔ اوودھ کے حکمران ملک حسام الدین (آغل بیگ) یہ ترکی لفظ ہے جس کے معنی (ریوڑ کا آقا) نے اسے دو جاگیریں گزر و اوقات کے واسطے دے دیں۔ اس نے جلد ہی حصول اقتدار کے جملہ وسائل جیسے اسلحہ جات، نفری اور گھوڑے حاصل کر لیے اور علاقہ جات بہار اور منگھیر پر دھاوا بولنا شروع کر دیا۔
اس کی بہادری اور حملوں میں لوٹ مار کرنے کی خبریں دور دور تک پھیل گئیں اور پورے ہندوستان سے خلجی جنگجو اس کے پرچم تلے آ کر جمع ہونے لگے۔ اس کی لوٹ مار کی بھی تفصیلات جب قطب الدین ایبک کے کان میں پڑیں تو اس نے اس کے واسطے ایک خلعت فاخرہ روانہ کی اور اپنے سلطان کی طرف سے 1202 بہادروں کا کمان دار مقرر کر دیا۔ اختیار الدین بختیار خلجی نے بہار اور بنگال کو (قبضہ گیروں کے لحاظ سے) اچھی طرح تاراج کیا لیکن اس کی موت رسوا کن اور بے کسی کی تھی۔ ایسی غلامی پاکستان اور ہندوستان میں بھی کسی اور شکلوں میں موجود ہے۔ جیسا کہ ہندوستان میں اچھوتوں کی غلامی اور پاکستان میں خاص کر سندھ میں وڈیروں کی قید میں ہاریوں کی غلامی۔ ابھی چند روز قبل 80 ہاریوں کو عدالت نے رہا کروایا لیکن ہاریوں کو قید رکھنے پر کسی وڈیرے کو سزا نہیں ملی۔ یہ غلامی اسپارٹا سے شروع ہوئی اور اب فاٹا تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے خاتمے کا واحد حل امداد باہمی کے معاشرہ کے قیام میں ہی مضمر ہے۔