قدیر نے روز’’مرنے‘‘سے خودکشی کرنا بہتر سمجھا

لاک ڈاؤن کے باعث بیروزگار تھا،عیدالفطر پر فاقہ کشی ،عیدالاضحی پرجیب خالی

اپنا غم نہ بانٹا، زہر کھا کرخود تو جانبر نہ ہوسکا ، تینوں بچے ماں کیساتھ زیرعلاج فوٹو، فائل

وریام گاؤںظفر وال کے 50 سالہ محمدقدیر نے مفلسی اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کی،گھر میں پچاس ،پچاس روپے کے اسکولز بیگزبناکر فروخت کرنے والا محمد قدیرکورونا وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن اور تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش کاستایا ہوا تھا۔

عیدالفطر فاقہ کشی میں گزاری اب عیدالاضحی کی آمد تھی اورجیب میں کچھ نہیں تھا،غیرت مندی نے ہاتھ پھیلانے کی جرات نہ دی تاہم کسی نے مالی امداد کے لیے پوچھا تک نہیں ،اپنے ہی آپ میں روز مرنے سے بہتر خودکشی سمجھا ، محمد قدیر نے اپنے تین بچوں دو سالہ بلال،چار سالہ عبدالرحمان اور چھ سالہ عائشہ کو زہر دیا اور خود بھی نگل لیا ،خود تو جانبر نہ ہوسکا مگر اس کے تینوں بچے اپنی مفلس ماں کے ساتھ لاہورچلڈرن ہسپتال میں زیر۔علاج ہیں اور تیِزی سے صحت یاب ہورہے ہیں۔اس حوالے سے قدیرکی بیوہ سمیراء بی بی کا کہنا ہے کہ محمد قدیر نے جوبھی فیصلہ کیا اس میں مجھے اور خاندان کے دوسرے افراد سے کبھی کوئی تذکرہ نہیں کیا۔


مسلسل چار ماہ سے بے روزگار تھا، اپنے غم کو اس نے کبھی کسی سے شیئر نہیں کیا ،سمیراء بی بی نے بتایا کہ کہ وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے ایک چیک دیاگیا جسے افسران اپنی فائل میں لگا کر واپس لے گئے کہ جب ہسپتال سے چھٹی ہوگی توبتا دینا چیک مل جائے گا،سمیراء بی بی نے پنجاب حکومت سے اپیل کی ہے کی بچوں کی کفالت کے لیے اسے کسی سکول میں سرکاری ملازمت دی جائے ،ایک سوال کے جواب میں سمیراء بی بی نے کہا کہ بچوں کے علاج میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں، ہسپتال انتظامیہ پورا تعاون کررہی ہے۔

 
Load Next Story