عیدِ قرباں ہے کچھ تو خیال کیجئے
جانور لینے کے بعد گلیوں میں گھمانا، لوگوں کو دکھانا بھی تو ہے۔ بوڑھوں، راہگیروں اور اہل محلہ کو ڈرانا بھی تو ہے
قربانی کی عید چند دن کی دوری پر ہے، لیکن لگتا یہ ہے کہ قربان عوام ہورہے ہیں۔ کہیں مویشی منڈیوں میں ڈاکو دھاوا بول کر مویشی پال حضرات کو چونا لگا رہے ہیں تو کہیں بکرے کو بھیڑ کی کھال پہنا کر سادہ لوح افراد کو بیوقوف بناکر اپنا الو سیدھا کیا جارہا ہے۔
کئی کئی من کے جانوروں کی خرید و فروخت تو مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ لاکھوں کا بھاؤ تاؤ جاری ہے اور اس لاک ڈاؤن کے دور میں بھی قربانی کے مذہبی فریضہ سے متعلق نمود و نمائش کا پہلو ختم تو کیا معدوم تک نہیں ہوا۔ اب بھی بڑے بڑے بیلوں کی نمائش کا مقابلہ ہورہا ہے۔ میڈیا والے بھی بڑھ چڑھ کر اس کارِ خیر میں حصہ لے رہے ہیں۔ کوئی چینل ایسا نہیں جس پر مختلف بیلوں جیسے شہزادے، شیر اور بادشاہ ( جانوروں کے پیار کے نام ) کا انٹرویو نہ ہورہا ہو۔ ان انٹرویوز کے بعد مجھ جیسے سادہ بندے کا خیال یہ ہے کہ فیس بک والے نام کے شہزادوں، شہزادیوں، پرنس، کوئن، ملکاؤں کو شرم نہیں تو حسد سے ہی مر جانا چاہیے کہ ہم سے اچھے تو یہ جانور ہیں جنہیں اتنی کوریج مل رہی ہے اور ہمیں چاہیے کہ اب اپنے حقیقی نام سے ہی پروفائل بنالیں۔
دوسری طرف دیکھیں تو مجھے تو لگا کہ جیسے کورونا وبا کی وجہ سے کسی کو بھی کوئی فرق نہ پڑا ہو۔ لگتا ہے کہ غربا اور مساکین کا صرف نام ہی استعمال کیا جارہا ہے اور اپنی جیبیں بھری جارہی ہیں۔ عوام کو ایک طرف آن لائن قربانی کی ترغیب دلائی جارہی ہے تو دوسری طرف مویشی منڈیوں میں ایس او پیز کی کوئی پابندی نہیں ہورہی۔ ماسک اور سینیٹائزر لگائے بغیر نہ صرف خریدار ہیں بلکہ جانور فروخت کرنے والے افراد بھی ہیں۔ اور تو اور یہ صورتحال دارالحکومت اسلام آباد کی ہے۔ یہ بھی سوچ لیجیے کہ اگر یہ حالات دارالخلافہ کے ہیں تو باقی شہروں کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
مویشی منڈیوں میں گند کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور رہی سہی کسر منڈیوں کے داخلہ کی جگہ پر ریڑھیوں اور خوانچہ فروشوں نے نکال دی ہے۔ گنے اور طرح طرح کے مشروبات کے اسٹالوں پر بھنبھناتی مکھیوں اور اڑتے مچھروں نے نہ صرف خریداروں کو پریشان کر رکھا ہے بلکہ ٹریفک جام نے اس گرمی کے موسم میں گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ پیدل چلنے والوں کا تو کچھ نہ پوچھیے کہ ان کی حالت تو ویسے ہی ابتر ہے۔ شدید گرمی، پیاس، سایہ دار جگہوں کی کمی اور رش۔ یہ سب صورتحال ناقابل بیان ہے۔
کتنی ہی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ منڈی کے سامنے گاڑی میں گزرتے ہوئے ہمیں لگا کہ یہ سب لوگ شاید قربانی کے جانوروں کے خریدار ہیں اور جب غور کیا تو علم ہوا کہ نہیں جناب یہ تو جوس پینے کےلیے پوری سڑک بلاک کیے ہوئے ہیں، کیونکہ پوری قوم ہی پیاسی ہے۔
اف یہ اندھیرنگری نہیں تو اور کیا ہے؟ کہ جن لوگوں کو مویشی منڈیوں کے قیام کےلیے ٹھیکہ دے دیا گیا ہے وہ اپنی من مانی کے مطابق بکروں، بھیٹروں اور بیل کے کرائے وصول کررہے ہیں۔ مویشی پال حضرات دہرے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ ایک تو وہ سالہا سال کی محنت کے بعد جانور منڈیوں میں لائیں پھر راستے میں ٹریفک پولیس سے ٹاکرا ہو اور وہ ان سے شہر میں داخلے کےلیے پیسہ اور کرایہ وصول کریں۔ یہاں منڈی آئیں تو جانور رکھنے کے کرائے دیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس غم و غصے کے اظہار کےلیے وہ عام جانوروں کی قیمتیں بھی لاکھوں میں بتائیں گے تاکہ اپنا نقصان پورا کرسکیں۔
خریداروں کے مسائل بھی کم نہیں۔ کم آمدنی اور اس پر لاک ڈاؤن۔ لیکن بات وہی اردو کے مشہور مصنف غلام عباس کے افسانے '' پنجابی زمیندار '' کی کہ چاہے قرضے کے بوجھ تلے دب جائیں، جانور موٹا تازہ ہی لینا ہے۔
اس پر بھی بس نہیں، کیونکہ جانور لینے کے بعد گلیوں میں گھمانا بھی تو ہے۔ لوگوں کو دکھانا بھی تو ہے۔ بوڑھوں، راہگیروں اور اہل محلہ کو ڈرانا بھی تو ہے ( میری مراد ان شرارتی بچوں سے ہے جو خواتین، بچوں اور بوڑھے افراد کا بھی لحاظ نہیں کرتے ) اور قربانی کے جانور کو تنگ کرکے گلیوں میں دوڑایا جاتا ہے۔ اب اس سے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی بھی آدمی کی پسلی ٹوٹتی ہے یا کمر، ٹانگ ضائع ہوتی ہے یا آنکھ۔ انھوں نے کرتب دکھا کر ہی باز آنا ہے۔
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ اگر سب صحیح ہیں تو غلط کون ہے؟ اور سب غلط ہیں تو پھر قانون کدھر ہے؟ اور اگر یہ قانون یا ضابطہ نہیں کہ آپ اپنے محلے داروں کا خیال نہیں رکھ رہے، غربا میں اچھا اور مناسب مقدار میں گوشت تقسیم نہیں کررہے، کسی کا حق مار کر قربانی کر رہے ہیں اور نمود و نمائش کررہے ہیں۔ تو پھر اس قربانی کا کیا مقصد؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کئی کئی من کے جانوروں کی خرید و فروخت تو مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ لاکھوں کا بھاؤ تاؤ جاری ہے اور اس لاک ڈاؤن کے دور میں بھی قربانی کے مذہبی فریضہ سے متعلق نمود و نمائش کا پہلو ختم تو کیا معدوم تک نہیں ہوا۔ اب بھی بڑے بڑے بیلوں کی نمائش کا مقابلہ ہورہا ہے۔ میڈیا والے بھی بڑھ چڑھ کر اس کارِ خیر میں حصہ لے رہے ہیں۔ کوئی چینل ایسا نہیں جس پر مختلف بیلوں جیسے شہزادے، شیر اور بادشاہ ( جانوروں کے پیار کے نام ) کا انٹرویو نہ ہورہا ہو۔ ان انٹرویوز کے بعد مجھ جیسے سادہ بندے کا خیال یہ ہے کہ فیس بک والے نام کے شہزادوں، شہزادیوں، پرنس، کوئن، ملکاؤں کو شرم نہیں تو حسد سے ہی مر جانا چاہیے کہ ہم سے اچھے تو یہ جانور ہیں جنہیں اتنی کوریج مل رہی ہے اور ہمیں چاہیے کہ اب اپنے حقیقی نام سے ہی پروفائل بنالیں۔
دوسری طرف دیکھیں تو مجھے تو لگا کہ جیسے کورونا وبا کی وجہ سے کسی کو بھی کوئی فرق نہ پڑا ہو۔ لگتا ہے کہ غربا اور مساکین کا صرف نام ہی استعمال کیا جارہا ہے اور اپنی جیبیں بھری جارہی ہیں۔ عوام کو ایک طرف آن لائن قربانی کی ترغیب دلائی جارہی ہے تو دوسری طرف مویشی منڈیوں میں ایس او پیز کی کوئی پابندی نہیں ہورہی۔ ماسک اور سینیٹائزر لگائے بغیر نہ صرف خریدار ہیں بلکہ جانور فروخت کرنے والے افراد بھی ہیں۔ اور تو اور یہ صورتحال دارالحکومت اسلام آباد کی ہے۔ یہ بھی سوچ لیجیے کہ اگر یہ حالات دارالخلافہ کے ہیں تو باقی شہروں کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
مویشی منڈیوں میں گند کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور رہی سہی کسر منڈیوں کے داخلہ کی جگہ پر ریڑھیوں اور خوانچہ فروشوں نے نکال دی ہے۔ گنے اور طرح طرح کے مشروبات کے اسٹالوں پر بھنبھناتی مکھیوں اور اڑتے مچھروں نے نہ صرف خریداروں کو پریشان کر رکھا ہے بلکہ ٹریفک جام نے اس گرمی کے موسم میں گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ پیدل چلنے والوں کا تو کچھ نہ پوچھیے کہ ان کی حالت تو ویسے ہی ابتر ہے۔ شدید گرمی، پیاس، سایہ دار جگہوں کی کمی اور رش۔ یہ سب صورتحال ناقابل بیان ہے۔
کتنی ہی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ منڈی کے سامنے گاڑی میں گزرتے ہوئے ہمیں لگا کہ یہ سب لوگ شاید قربانی کے جانوروں کے خریدار ہیں اور جب غور کیا تو علم ہوا کہ نہیں جناب یہ تو جوس پینے کےلیے پوری سڑک بلاک کیے ہوئے ہیں، کیونکہ پوری قوم ہی پیاسی ہے۔
اف یہ اندھیرنگری نہیں تو اور کیا ہے؟ کہ جن لوگوں کو مویشی منڈیوں کے قیام کےلیے ٹھیکہ دے دیا گیا ہے وہ اپنی من مانی کے مطابق بکروں، بھیٹروں اور بیل کے کرائے وصول کررہے ہیں۔ مویشی پال حضرات دہرے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ ایک تو وہ سالہا سال کی محنت کے بعد جانور منڈیوں میں لائیں پھر راستے میں ٹریفک پولیس سے ٹاکرا ہو اور وہ ان سے شہر میں داخلے کےلیے پیسہ اور کرایہ وصول کریں۔ یہاں منڈی آئیں تو جانور رکھنے کے کرائے دیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس غم و غصے کے اظہار کےلیے وہ عام جانوروں کی قیمتیں بھی لاکھوں میں بتائیں گے تاکہ اپنا نقصان پورا کرسکیں۔
خریداروں کے مسائل بھی کم نہیں۔ کم آمدنی اور اس پر لاک ڈاؤن۔ لیکن بات وہی اردو کے مشہور مصنف غلام عباس کے افسانے '' پنجابی زمیندار '' کی کہ چاہے قرضے کے بوجھ تلے دب جائیں، جانور موٹا تازہ ہی لینا ہے۔
اس پر بھی بس نہیں، کیونکہ جانور لینے کے بعد گلیوں میں گھمانا بھی تو ہے۔ لوگوں کو دکھانا بھی تو ہے۔ بوڑھوں، راہگیروں اور اہل محلہ کو ڈرانا بھی تو ہے ( میری مراد ان شرارتی بچوں سے ہے جو خواتین، بچوں اور بوڑھے افراد کا بھی لحاظ نہیں کرتے ) اور قربانی کے جانور کو تنگ کرکے گلیوں میں دوڑایا جاتا ہے۔ اب اس سے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی بھی آدمی کی پسلی ٹوٹتی ہے یا کمر، ٹانگ ضائع ہوتی ہے یا آنکھ۔ انھوں نے کرتب دکھا کر ہی باز آنا ہے۔
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ اگر سب صحیح ہیں تو غلط کون ہے؟ اور سب غلط ہیں تو پھر قانون کدھر ہے؟ اور اگر یہ قانون یا ضابطہ نہیں کہ آپ اپنے محلے داروں کا خیال نہیں رکھ رہے، غربا میں اچھا اور مناسب مقدار میں گوشت تقسیم نہیں کررہے، کسی کا حق مار کر قربانی کر رہے ہیں اور نمود و نمائش کررہے ہیں۔ تو پھر اس قربانی کا کیا مقصد؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔