عنائت علی خان

جمہوریت اور مارشل لاء اور ان کے باہمی تعلقات یا اختلافات پر تقریباً ہر مزاح گو شاعر نے طبع آزمائی کی ہے


Amjad Islam Amjad July 30, 2020
[email protected]

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہُوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

اپنی تقریباً 35 برس پر پھیلی کالم نگاری کے دوران میں نے سب سے زیادہ بار جس شعر سے استفادہ کیا ہے وہ یہی پروفیسر مولانا عنائت علی خان کا شعر ہے۔ آج اُن کے لیے تعزیتی کالم لکھتے وقت بھی یہ مجھے بہت یاد آرہا تھا، سو میں نے ا سی سے ابتدا کی ہے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، اپنے مزاحیہ اور طنز کے مخصوص انداز کی وجہ سے عنائت علی خان صرف مشاعروں ہی کی جان نہیں تھے بلکہ قارئین اُن کی شاعری کو حالاتِ حاضرہ پرایک رواں تبصرے کی صورت میں بھی پڑھتے اوراس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ظاہری سطح پر عنائت علی خان ایک ذمے دار اُستاد اور مذہبی فکر کے حامل خوش وضع بزرگ تھے مگر جب وہ اسٹیج پر مائیک کے سامنے آتے تھے تو اُن کے اندر ایک شرارتی اور چُلبلا بچہ جاگ اُٹھتا تھا ۔

عام طور پر مزاح نگار شعرا سامعین کو ہنستا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں مگر عنائت علی خان میں یہ خوبی تھی کہ وہ سب سے زیادہ خود اپنی بات کا مزا لیتے تھے اور شعر پڑھتے وقت اس طرح جھومتے اور شعر کے اندر موجود طنزو مزاح کو اپنی طرزِ ادا سے نمایاں کرتے تھے کہ ایک محاورے کے مطابق ایک ٹکٹ میں دو مزے مل جاتے تھے۔

وہ کئی برسوں سے علیل چلے آرہے تھے لیکن دسمبر 2019 میں ہونے والی آخری مشاعراتی تقریب میں بھی اُن کی خوبصورت ہنسی، چہرے کی پاکیزگی اور گفتار کی دلکشی ہمیشہ کی طرح قائم و دائم تھی۔ ان دنوں میں اپنے نام آئے ہوئے مختلف مکاتیب کا ایک انتخاب مرتب کر رہا ہوں جس دن اُن کا انتقال ہوا، اُس سے چند گھنٹے قبل ہی میں اُن کے ایک تیس برس پرانے خط سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اُن کی نثر بھی اپنی جگہ پر ایک خاصے کی چیز تھی۔

سیاسی طنز اُن کا سب سے بڑا ہتھیار تھا اور وہ اس میں کسی طرح کی رُو رعائت کے قائل نہیں تھے۔میں نے ازراہِ محبت و احتیاط انھیں کئی دفعہ یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ نام لے کر کسی شخص کی ذاتی زندگی کو تختہ مشق نہ بنایا کریں ۔ وہ میری بات کو بہت محبت سے سنتے اور اثبات میں سر بھی ہلاتے تھے مگر جونہی اسٹیج پر مائیک اُن کے سامنے آتا بقول انور مسعود اُن کی آنکھوں میں خون اُتر آتا تھا اور وہ ہر قسم کے لحاظ کو بالائے طاق رکھ دیتے تھے اس طرح کی ضد یا تو اپنے نظریات سے کمٹڈ لوگوں میں ہوتی ہے یا پیشہ ور فسادی حضرات میں اور یہ بات طے ہے کہ وہ فسادی ہرگز ہرگز نہیں تھے ۔

آج اُن کو یاد کرتے ہوئے ان کے بے شمار اشعار میرے اِرد گرد گھوم رہے ہیں، سو میں انھی میں سے چند ایک کو اس احساس کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں کہ ہم یہ جان سکیں کہ ایک کتنا اہم، خوب سیرت، بہادر اور کمٹڈ انسان ہم سے کم از کم جسمانی حد تک جدا ہوگیا ہے، اُن کی شہرہ آفاق طویل نظم ''بول میری مچھلی'' ایسی ہے کہ اُس کی کسی بھی سطر کو ایڈٹ نہیں کیا جاسکتا، سو میں اُس سے قطع نظر کرتے ہوئے چند قطعے اور ایک غزل پر اکتفا کرتا ہوں۔ دیکھئے کیسے کیسے مشکل مضامین انھوں نے کس قدر آسانی سے ایسے اشعار میں ڈھالے ہیں کہ اکثر تو سنتے ہی یادہوجاتے ہیں۔

سگی بیوی سے اور بیٹی سے اپنی

کلنٹن منہ چھپائے پھر رہا ہے

بھلا کس منہ سے جائے ''گورے گھر'' میں

کہ اُس نے منہ تو کالا کرلیا ہے

کبھی آتی ہے کوئی برٹشر یاد

کبھی جرمن کبھی رُوسی حسینہ

ابے او بین الاقوامی نظر باز

یہ تیرا دل ہے یا ڈش انٹینا!

پہنچ رہے ہیں الیکشن کے پھر دوراہے پر

تمہی بتاؤ میرے بھائی، کس طرف جائیں؟

اُدھر میاں ہے اِدھر مائی کس طرف جائیں

اُدھر کنواں ہے اِدھر کھائی کس طرف جائیں؟

 

میں نے اُس رات ایک سے پوچھا

کہیئے محفل میںکچھ مزا پایا

بولے سننے کا لطف تو آیا

دیکھنے کا مزا نہیں آیا

 

تمہارے باپ کا داماد ہُوں میں

کسی کے باپ کا نوکر نہیں ہوں

میں آسانی سے چھوڑوں گا نہیں جان

میں شوہر ہوں میں اسپیکر نہیں ہوں

جمہوریت اور مارشل لاء اور ان کے باہمی تعلقات یا اختلافات پر تقریباً ہر مزاح گو شاعر نے طبع آزمائی کی ہے مگر بہت کم ہیں جن کو اس موضوع پر عنائت علی خان جیسی کامیابی اور مقبولیت نصیب ہوئی ہو جمہوریت کے حوالے سے کہتے ہیں۔

خد ا کی بندی کچھ تو سوچ دل میں

گوارا کیا میرا جینا نہیں ہے

اضافے کی بھی حدہوتی ہے آخر

یہ اپنا گھر ہے کابینہ نہیں ہے

اور مارشل لاء اور اس سے متعلق پابندیوں پر اُن کے غزل کی ہیئت میں لکھے گئے یہ اشعار تو ایسے ہیں کہ ایک زمانے تک یہ ''بول میری مچھلی '' کی طرح عنائت علی خان کی اولین پہچان بنے رہے تو انھی سے اُن کی یاد کو وابستہ کرکے دیکھتے ہیں۔

گنگنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

بڑبڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

ایک رقاّص نے گا گا کے سنائی یہ خبر

ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

لان میں تین گدھے اور یہ نوٹس دیکھا

گھاس کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

اس سے ا ندیشہ فردا کی جُوئیں جڑتی ہیں

سر کھجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

اس سے تجدیدِ تمنا کی ہَوا آتی ہے

دُم ہلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

اُس کے رخسار پہ ہے اور ترے ہونٹ پہ تِل

تِلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

یوں تو تم جال کا کردو گے کباڑا بچُو

پھڑ پھڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں