ہندو مذہب چھوڑ کر ممتاز محدث بننے والے عالم دین ضیا الرحمان اعظمی انتقال کرگئے
امیر برہمن گھرانے میں جنم لیا، اسلام کے خلاف لکھنا چاہتے تھے، موازنہ کرتے کرتے اسلام قبول کرکے عالم دین بن گئے
ہندو ازم سے اسلام کی روشنی پانے والے عظیم اسکالر محمد ضیا الرحمان اعظمی مدینہ منورہ میں انتقال کرگئے۔
ضیا الرحمان اعظمی 1943ء میں بھارتی شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایک امیر برہمن گھرانے میں جنم لیا اور ان کا نام بانکے رام رکھا گیا تھا۔ 16 برس کی عمر میں انہیں ہندی میں ایک کتاب ملی جس کا نام 'دینِ حق' تھا، اس کے مطالعے سے وہ اسلام کی جانب راغب ہوئے اور یوں 1960ء میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ہندو مذہب کو گہرائی سے جانتے ہوئے اسلام کے رد میں کچھ لکھنا چاہتے تھے اور جب انہوں نے اپنے سوالات ہندو اسکالروں کے سامنے رکھے تو وہ ان کا تسلی بخش جواب نہیں دے پائے، اس طرح ایک عرصے تک وہ ہندو اور مسلم علما سے رابطے میں رہے۔
اس موازنے سے انہیں معلوم ہوا کہ ہندو ازم ان کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتا اور وہ انہیں دیومالائی گردانتے رہے دوسری جانب وہ اسلام کا مطالعہ کرتے رہے اور اس کے بعد قرآن کا ترجمہ پڑھا جس کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
بعد ازاں وہ ڈیڑھ سال تک جان کے خطرے کے تحت ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہجرت کرتے رہے۔ پھر جنوبی ہندوستان کی ایک جامعہ میں داخل ہوگئے اور وہاں کئی برس تک عربی، علم القرآن اور حدیث کے طالب علم رہے۔ 1966ء میں وہ مدینہ چلے گئے جہاں کی جامعہ میں چار ساتل تک کلیہ شرعیہ میں علمِ دین حاصل کیا۔
پھر انہوں نے مکہ میں جامع ام القریٰ میں داخلہ لیا اور مزید علم حاصل کیا۔ یہاں انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر اپنا تحقیقی مقالہ بھی پیش کیا جس میں انہوں نے کثرتِ حدیث کا جائزہ لیا۔ اس کام کو علما نے بہت سراہا اور دنیا بھر میں اس تذکرہ کیا گیا۔
ڈاکٹر ضیا الرحمان اعظمی نے رابطہ عالمِ اسلامی میں بھی کام کیا اور اس کے بعد الاظہر یونیورسٹی سے علمِ حدیث میں ڈاکٹریٹ کی۔ اس کے بعد وہ آخری دم تک مدینہ یونیورسٹی سے وابستہ رہے اور کئی کتابیں لکھیں جن کی تعداد 20 کے لگ بھگ ہے۔ انہوں نے ہندی زبان میں قرآن انسائیکلو پیڈیا بھی لکھا جس میں سیکڑوں موضوعات پر بات کی گئی ہے۔
اپنی زندگی کے آخر میں انہوں نے 12 جلدوں پر ہزاروں صحیح حادیث کا مجموعہ تحریر کیا جس میں حسن اور صحیح درجے کی 16 ہزار 800 احادیث کو شامل کیا گیا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ضیا الرحمان اعظمی کو مسجدِ نبوی میں درسِ حدیث دینے کی سعادت بھی حاصل رہی۔
ضیا الرحمان اعظمی 1943ء میں بھارتی شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایک امیر برہمن گھرانے میں جنم لیا اور ان کا نام بانکے رام رکھا گیا تھا۔ 16 برس کی عمر میں انہیں ہندی میں ایک کتاب ملی جس کا نام 'دینِ حق' تھا، اس کے مطالعے سے وہ اسلام کی جانب راغب ہوئے اور یوں 1960ء میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ہندو مذہب کو گہرائی سے جانتے ہوئے اسلام کے رد میں کچھ لکھنا چاہتے تھے اور جب انہوں نے اپنے سوالات ہندو اسکالروں کے سامنے رکھے تو وہ ان کا تسلی بخش جواب نہیں دے پائے، اس طرح ایک عرصے تک وہ ہندو اور مسلم علما سے رابطے میں رہے۔
اس موازنے سے انہیں معلوم ہوا کہ ہندو ازم ان کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتا اور وہ انہیں دیومالائی گردانتے رہے دوسری جانب وہ اسلام کا مطالعہ کرتے رہے اور اس کے بعد قرآن کا ترجمہ پڑھا جس کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
بعد ازاں وہ ڈیڑھ سال تک جان کے خطرے کے تحت ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہجرت کرتے رہے۔ پھر جنوبی ہندوستان کی ایک جامعہ میں داخل ہوگئے اور وہاں کئی برس تک عربی، علم القرآن اور حدیث کے طالب علم رہے۔ 1966ء میں وہ مدینہ چلے گئے جہاں کی جامعہ میں چار ساتل تک کلیہ شرعیہ میں علمِ دین حاصل کیا۔
پھر انہوں نے مکہ میں جامع ام القریٰ میں داخلہ لیا اور مزید علم حاصل کیا۔ یہاں انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر اپنا تحقیقی مقالہ بھی پیش کیا جس میں انہوں نے کثرتِ حدیث کا جائزہ لیا۔ اس کام کو علما نے بہت سراہا اور دنیا بھر میں اس تذکرہ کیا گیا۔
ڈاکٹر ضیا الرحمان اعظمی نے رابطہ عالمِ اسلامی میں بھی کام کیا اور اس کے بعد الاظہر یونیورسٹی سے علمِ حدیث میں ڈاکٹریٹ کی۔ اس کے بعد وہ آخری دم تک مدینہ یونیورسٹی سے وابستہ رہے اور کئی کتابیں لکھیں جن کی تعداد 20 کے لگ بھگ ہے۔ انہوں نے ہندی زبان میں قرآن انسائیکلو پیڈیا بھی لکھا جس میں سیکڑوں موضوعات پر بات کی گئی ہے۔
اپنی زندگی کے آخر میں انہوں نے 12 جلدوں پر ہزاروں صحیح حادیث کا مجموعہ تحریر کیا جس میں حسن اور صحیح درجے کی 16 ہزار 800 احادیث کو شامل کیا گیا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ضیا الرحمان اعظمی کو مسجدِ نبوی میں درسِ حدیث دینے کی سعادت بھی حاصل رہی۔