چراغ یادوں کے چوتھا حصہ
زلیخا واحد کی پشت پر طالبات کا ایک ہجوم تھا جن کی رکھوالی این ایس ایف کاظمی گروپ کے طلبا کر رہے تھے۔
اب تک جو کچھ تین اقساط میں تحریر کیا گیا اس سے 1968 سے 1970 تک طلبا کی انتھک جدوجہد بھی سامنے نہیں آتی۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ صدر ایوب خان کے مارشل لا کو ختم کرنے کے لیے مغربی پاکستان کی طلبا انجمنوں کی جدوجہد کی مختصر تفصیلات کا جائزہ پیش کیا جائے اور یہ واضح کر دیا جائے کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی تقریر اور پہلا جلسہ اور پہلی لب کشائی جو عوام سے کی گئی اس میں طلبا کا کس قدر عمل دخل تھا۔
1968 کے ابتدائی ادوار میں ذوالفقار علی بھٹو کو ڈاؤ میڈیکل کالج میں جلسے کا اسٹیج فراہم کیا گیا جس کی تمام تر ذمے داری ڈاکٹر باقر عسکری کی تھی جو آج کل فاطمہ جناح ڈینٹل کالج کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ 11 اکتوبر 1968 کو ایوب خان نے ایک نمائش اپنے ترقیاتی پروگراموں کی منعقد کی جس کو ''ڈیکوراما'' کا نام دیا گیا۔ اس خوبصورت پروگرام کو ابھی پولو گراؤنڈ میں شروع ہی ہونا تھا کہ ڈاکٹر رشید حسن خان نے اپنی این ایس ایف کے ساتھیوں کے ساتھ دھاوا بول کر ختم کر دیا۔ جس میں این ایس ایف کے ساتھیوں کو بڑی چوٹیں آئیں۔ مگر گرفتاریاں نہیں ہوئیں۔
اس پروگرام کے تہس نہس ہونے کے بعد کراچی کے طلبا اور پر جوش ہوئے اور ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ امیر حیدر کاظمی نے جو این ایس ایف کاظمی گروپ کے روح رواں تھے انھوں نے اپنی سینٹرل کمیٹی کی میٹنگ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں بلائی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام کالجوں کے جنرل سیکریٹری اور صدور کو آدم جی سائنس کالج میں 19 اکتوبر کو بلایا جائے اور تمام کالجوں کے عہدیدار مل کر یہ فیصلہ کریں کہ اب مزید کیا کرنا ہے۔
کاظمی گروپ کی طرف سے جو لوگ اس اہم میٹنگ میں شریک ہوئے ان میں امیر حیدر کاظمی، انیس باقر، عبدالباری خان، خالد شیخ، طارق فتح قابل ذکر ہیں۔ کیونکہ ان سب لوگوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں کراچی کے اٹھائیس کالجوں کے صدور و سیکریٹری بھی شریک ہوئے۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگلے جمعہ کو جیکب لائن میں احتشام الحق صاحب کی مسجد سے نماز کے بعد ایک بڑا جلوس نکالا جائے گا جس میں سلیم جہانگیر بھی پیش پیش ہوں گے۔ اس اجلاس میں این ایس ایف کے علاوہ اسلامی جمعیت طلبا نے بھی شرکت کی تھی۔
جلوس جب جیکب لائن سے ایم اے جناح روڈ پر آیا تو اس جلوس کی لمبائی اور چوڑائی دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ اس میں کم ازکم پچاس ہزار لوگ شریک ہیں۔ جن میں طلبا کے علاوہ شہر کے عام لوگ بھی موجود تھے۔ یہ جلوس جب کیپری سینما کے قریب سے گزر رہا تھا تو کچھ طلبا نے کیپری سینما پر پتھراؤ بھی کیا جس کو این ایس ایف کے کارکنوں نے رکوا دیا اور جلوس اپنی منزل کی طرف بڑھتا گیا اور اسمبلی ہال کے قریب جا کر منتشر ہو گیا۔ لیکن اس جلوس کے نکالنے سے پہلے یہ طے ہو چکا تھا کہ طلبا انجمنیں صف بندی پر تیار ہو جائیں۔
ورنہ بی اے، بی ایس سی تین سال کا کورس بن کے رہے گا اور یہ بھی اطلاع تھی کہ بعض حلقے ایل ایل بی کے کورس کو بھی تین سال کا بنانے کی کوشش میں ہیں اور اس کی کلاسیں شام کے بجائے صبح میں ہوا کریں گی۔ ان تمام منصوبوں کو منتشر کرنے کے لیے این ایس ایف کے دونوں گروپ اپنے اپنے طریقے سے خود کو منظم کر رہے تھے۔ این ایس ایف کاظمی گروپ نے طلبا تحریک کو اپنے تئیں کراچی تک محدود کیا اور سندھ این ایس ایف کو یہ پروگرام دیا کہ وہ جام شورو سے لے کر ہر چھوٹے شہر تک جلوس نکالے گی اور ون یونٹ کے خلاف کمر بستہ ہو جائے گی۔
این ایس ایف کاظمی گروپ نے یہ طے کیا کہ سندھ بلوچستان اور سرحد کے طلبا اپنے اپنے طور سے تحریک چلائیں گے۔ جب کہ رشید گروپ نے یہ طے کیا کہ وہ ہر صوبے میں ازخود اپنے تئیں تحریک چلائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی الیکشن کمپین معراج محمد خان اور رشید حسن خاں چلا رہے تھے۔ جب کہ پنجاب کی تحریک رشید حسن خاں گروپ کے حسام الحق کے سپرد تھی جو پنجاب کے علاوہ پشاور تک عمل پیرا تھے۔ جب کہ کاظمی گروپ نے پنجاب میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی کی جنرل سیکریٹری غزالہ شبنم کے سپرد کیا۔ یہ کام میں نے ازخود انجام دیا تھا۔
غزالہ شبنم بے خوف نڈر اور ذہین طالبہ تھیں جو بی ایس سی کی اسٹوڈنٹ تھیں۔ جب کہ بلوچستان کی تحریک بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سپرد کر دی گئی تھی۔ اس طرح پورے ملک میں طلبا انجمنوں کا ایک مربوط جال بچھ گیا۔ جس کو توڑنے کے لیے بیس لاکھ رضاکار بھی کم ہوتے۔ کیونکہ ہر گلی سے جمہور آزادی کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ البتہ این ایس ایف کاظمی گروپ نے فرنٹیئر میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور محترم مفتی محمود اور ان کے صاحبزادے فضل الرحمن جو اس وقت مکتب کے طالب علم تھے ان کو بھی اعتماد میں لیا۔ فرنٹیئر میں تحریک بے حد مضبوط تھی اور حکومت بے بس ہوتی چلی جا رہی تھی۔
ادھر کراچی جو پاکستان کا سابق دارالحکومت تھا اور جہاں مزدور انجمنیں اور طلبا بے حد مضبوط تھے یہاں خواتین کے کالجوں میں بھی تحریک نے زور پکڑ لیا تھا۔ این ایس ایف کاظمی گروپ صرف ملک ہی نہیں بلکہ عالمی امور پر بھی تحریک چلا رہی تھی۔ جنوری 1969 کو این ایس ایف نے ویت نام کی آزادی کے لیے ایک جلوس نکالا جس کی قیادت سرسید گرلز کالج کی جنرل سیکریٹری زلیخا واحد کر رہی تھیں۔
زلیخا واحد کی پشت پر طالبات کا ایک ہجوم تھا جن کی رکھوالی این ایس ایف کاظمی گروپ کے طلبا کر رہے تھے۔ یہ جلوس جو تقریباً تیس ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ اس نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے ملے ہوئے امریکن ایمبیسی سے امریکی پرچم اتار کر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ اس طرح عالمی امور کا دامن بھی این ایس ایف کے ہاتھ سے نہ گیا۔ وقت گزرتا گیا دسمبر 1969 میں بھی جلوس نکلتے رہے اور جلوس کے سائے میں ذوالفقار علی بھٹو اپنی کمپین چلاتے رہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی کمپین چلانے میں رشید گروپ نمایاں تھا۔
یکم دسمبر 1970 کی وہ گھڑی بھی آن پہنچی جب طلبا کو 8 جنوری 1953 کی یاد میں جلسہ کرنا تھا۔ اس کی تیاری زور و شور سے شروع تھی کیونکہ گورنمنٹ میڈیکل کالج کی فیسیں اتنی تھیں کہ صرف امرا کی اولاد ہی کالجوں میں داخلہ لے سکتی تھی۔ اس بت شکنی میں جو اہم بت شکن تھے۔ ان میں ڈاکٹر محمد سرور سرفہرست تھے اور دوسرے ڈاکٹر حضرات میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی تھے۔ لہٰذا 8 جنوری کی یاد میں تیاریاں شروع کر دیں۔
ہر کالج میں پمفلٹ تقسیم کیے جانے لگے اور بینرز لگائے جانے لگے۔ ہر کالج کے یونٹ سیکریٹریوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ایک روز قبل اپنے کالجوں میں جلسے کریں اور بتائیں کہ آٹھ جنوری کو طلبا کا خون کیوں بہا۔ بارہ طلبا شہید ہوئے اور چوبیس کے قریب زخمی ہوئے ان میں سے بعض جوشیلے طلبا نے اسلحے کی دکانیں لوٹ لیں اور ہوائی فائر کیے تا کہ پولیس کو یہ اندازہ ہو جائے کہ ہر سوال کا جواب موجود ہے۔
بہرصورت یہ خونیں معرکہ ختم ہوا اور خواجہ ناظم الدین نے جو گورنر جنرل تھے انھوں نے فوری میٹنگ بلائی اور مطالبات بڑی حد تک تسلیم کیے۔ تو اتنے اہم واقعے کو این ایس ایف کیسے بھلا سکتی تھی۔ لہٰذا این ایس ایف کی مرکزی کمیٹی نے ڈی جے سائنس کالج کے جنرل سیکریٹری سے اجازت لینے کے بعد ایک بڑے جلسے کا اعلان کر دیا جو انگریزی اور اردو اخباروں میں کلیدی حیثیت سے شایع ہوئے۔ لہٰذا جلوس نکالا گیا اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ نے دروازے پر آ کر امیر حیدر کاظمی اور انیس باقر سے کہا کہ آپ لوگ واپس چلے جائیں آپ کے مطالبات پورے کیے جائیں گے۔ جس کے بعد طلبا منتشر ہو گئے لیکن دوسرے روز صبح حکومتی بیان سے یہ ظاہر ہو گیا کہ حکومت اب مزید برداشت نہیں کرے گی اور مارشل لا ایکشن میں آئے گا۔
لہٰذا تمام طلبا لیڈروں اور اہم کارکنوں نے یہ طے کر لیا کہ رات گھر پر نہیں گزاری جائے گی اور یہی ہوا کہ دوسری رات بارہ بجے کے قریب تمام اہم کارکنوں کے گھروں پر پولیس وین میں چھاپے مار کر طلبا کو گرفتار کر لیا۔ ان میں بلا امتیاز رشید گروپ اور کاظمی گروپ دونوں کے کارکنان موجود تھے۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو ایک ایک بیرک میں دس دس بیس بیس طلبا موجود تھے۔ جب ان طلبا کو جیل لایا گیا تھا تو سب کو ہتھکڑیاں لگائی گئی تھیں۔ مگر جیل کے دروازے پر پہنچتے پہنچتے صبح ہو چکی تھی۔
(جاری ہے)