باوقار بحالی متنازع رخصتی افتخار چوہدری کا عہد تمام ہوا

جمہوریت کاتصور آمریت کےتصورسےتبدیل نہیں کیاجاسکتا،نہ جانے ماضی میں عدالتوں نے کیوں ان اقدامات کی توثیق کی؟،جسٹس افتخار


اسلام آباد: افتخار محمد چوہدری کی رٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے باہرسیکیورٹی گارڈ ان کی گاڑی سے چیف جسٹس کا فلیگ اتاررہاہے جبکہ ڈرائیور گاڑی میں بیٹھا ہے۔ فوٹو : آئی این پی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بدھ کو مدت ملازمت مکمل ہونے پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔

اپنے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی عملداری کیلیے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اور دیگر ساتھی ریٹائرڈ جج ، وکلا اور عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ سے لوگوں کو توقع ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی، قانون کی عملداری اور عام آدمی کی دادرسی کیلیے فعال رہے گی، انتظامیہ کی پہلی ذمے داری ملک میں قانون کی بالادستی یقینی بنانا ہے، اگر انتظامیہ اپنی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام ہوتوعدلیہ پابند ہے کہ وہ انتظامیہ کی مدد کرے، عدلیہ کا اختیار ہے کہ وہ عوام کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں، اختیارات کے غلط استعمال اور مطلق العنانی سے تحفظ فراہم کرے،کوشش کے باوجود حکومت ملک میں امن کی فضا پیدا نہیںکر سکی۔

جسٹس افتخار نے کہاکہ قائداعظم کے افکار کو سمجھے بغیر ہم پاکستان کو فلاحی ریاست نہیں بنا سکتے، قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کیلیے جمہوری ریاست کے تصور کو مارشل لا کے قابل نفرت تصور سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، نہ جانے ماضی میں عدالتوں نے کیوں ایسے اقدامات کی توثیق کی لیکن 9مارچ 2007 کو عوام کے ضمیر نے بہتری کی طرف رخ کیا۔ آج میں اعلیٰ عدلیہ کے رکن کا مقدس لباس 2 عشروں سے زائد عرصے کے بعد اتار رہا ہوں، اس میں بطور جج سپریم کورٹ اور 8 سال چیف جسٹس کی مدت شامل ہے، میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے ان برادر جج صاحبان کی دیانت داری کا احاطہ کر سکوں جن کو 3نومبر 2007کے اقدامات کی پیروی میں اعلیٰ عہدے سے ہٹا دیا گیا، عدالت عظمیٰ اور عدلیہ کے وہ جج صاحبان خراج تحسین کے مستحق ہیں جنھوں نے آمر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور عدلیہ کی خودمختاری کی حفاظت میں کردار ادا کیا تاہم عدلیہ کی آزادی ججز سمیت وکلا برادری کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

میڈیا کی غیر جانبدارانہ اور با مقصد رپورٹنگ بھی قابل داد ہے، وکلا تحریک کے دوران میڈیا پر شدید دباؤ ڈالا گیا لیکن انھوں نے اصولی نقطہ نظر سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ کی بحالی کے بعد یہ مجھ سمیت دیگر ججوں پر لازم تھا کہ ہم اس امر کو یقینی بنائیں کہ آئندہ کسی غاصب کو غیر آئینی طور پر ملک کے عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجازت نہ ملے، سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے مقدمے میں یہ قرار دینے کی سعی کی کہ کسی اتھارٹی کے اختیارات کو ہاتھ میں لینا ایک کھلا اور غیر قانونی فعل ہے، ایسا خطرناک قدم کوئی عدالت تسلیم نہیں کرے گی اور اس مد میں کسی جج کا کوئی بھی قدم آئین کے آرٹیکل 209کے تحت غیر اخلاقی حرکت کے زمرے میں ہو گا۔ چیف جسٹس نے ایک آمر کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق نہ کرنے پر پارلیمنٹ کے کردار کو بھی داد دی اور کہا کہ اس فیصلے نے ملک میں آئین کے مطابق حکمرانی کو یقینی بنایا، اب آئندہ کوئی ریاستی عہدیدار آمرکے غیر آئینی اقدامات کی معاونت اور تحفظ کی جرأت نہیں کر سکتا، عدالت نے انصاف اور جمہوری اداروں کی تشکیل کے تناظر میں صدر آصف علی زرداری کا جمہوری انتخاب برقرار رکھا اگرچہ اس نے پی سی او چیف جسٹس سے حلف لیا تھا، اس کا مقصد نوزائیدہ جمہوری عمل کو تقویت پہنچانا تھا ۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے شہلا ضیا کیس کے فیصلے کی روشنی میں اس اصول کو برقرار رکھنے کی کوشش کی اور حقِ زندگی کے مفہوم کو وسیع کیا تاکہ ا س امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ کسی کا حق زندگی اور آزادی تلف نہ ہو اور اس کو قانون کے تحت تحفظ دیا گیا، ہم نے بالخصوص کراچی میں امن عامہ کی دگر گوں صورت حال کا نوٹس لیا جہاں منصوبہ بندی سے قتل و غارت، مافیا اور منشیات ، لوگوں کی زندگی ، تحفظ اور امن کیلیے خطرہ بن رہے ہیں، سپریم کورٹ کو ایسے اہم مسائل پر نوٹس لینے کا عمل جاری رکھنا چاہیے، اسی طرح عدالت نے بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت کے ضمن میں بھی ہدایات دیں، بدقسمتی سے عدالتی احکام پر من و عن عمل نہیں کیا گیا، گمشدہ افراد کے مقدمات بھی قابل توجہ ہیں، عدالت نے گمشدہ افراد کے مقدمات میں بار بار نوٹسز جاری کیے لیکن انتظامی عہدیداران نے اکثر ان کی تعمیل نہیں کی، ملک میں امن اور حالات کو معمول پر لانے کیلیے ہر ایک بشمول ججز ، وکلا ، قانون کے افسران، تفتیشی اور پراسیکیوشن ایجنسیاں اور سائلین انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے پابند ہیں ۔

کیونکہ امن کے بغیر معاشی ترقی اور خوشحالی نہیں ہو سکتی، ان کو یقینی بنانے کیلیے عدلیہ پچھلے چند سال سے درپیش مشکلات سے نبردآزما ہے تاکہ نظام عدل کو مزید بہتر کیا جاسکے، ایسے مقدمات مفاد عامہ کی بنیاد پر اٹھائے لیکن ہمیں تنقید کا نشانہ بنا یا گیا کہ یہ پالیسی معاملات ہیں جو انتظامیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں، ہم نے درحقیقت منصفانہ اور شفافیت کے صراحتی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر بنائی گئی پالیسی سے شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میںکامل عوامی نظم ونسق ابھی بہت دور ہے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک قانون کے ضابطوں سے بھرا ہوا ہے لیکن اس کے نفاذ پر کم زور دیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں کثیرقواعد اور قانونی ضابطے، زندگی ، آزادی اور پاکستان کے لوگوں کی ملکیت کے تحفظ کیلیے موجود ہیں لیکن یہ نظر آتا ہے کہ ان قانونی ضابطوں کے نفاذ پرایک بے حسی پائی جاتی ہے، ریاست کا یہ فرض ہے کہ ان قوانین ، قواعد اور قانونی ضابطوں کے نفاذ کو یقینی بنائے، یہ نظر آتا ہے کہ مراعات اور عدم مراعات یافتہ طبقے کے درمیان فر ق دن بدن بڑھتا جارہا ہے اور انتظامیہ اس بڑھتی ہوئی تفریق کا تدارک کرنے میں ناکام ہے، جب تک کہ ہم بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے موذی مرض سے نہیں نمٹیں گے، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے مفادعامہ میں شفافیت اور انسداد بدعنوانی کے اصول کی بنیاد رکھی۔



عدالت نے اکثر مقدمات میں فعالیت سے عوامی مفاد کا پرچار کیا، ان مقدمات میں اسٹیل ملز کا 2006 میں فیصلہ شدہ مقدمہ قابلِ ذکر ہے، عوامی تفریح گاہوں کے تحفظ کیلیے عدالتی اقدامات بھی قابل ذکر ہیں، عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کی غرض سے عدالت نے اپنا ازخود نوٹس کا اختیار ایسے مواقع پر استعمال کیا جہاں انتہائی مفلس و نادار افراد متاثر تھے اور ان کا استحصال کرنے والوں نے ان کے بنیادی حقوق غضب کرنے کی کوشش کی۔ وائٹ کالر کرائم پر عدالت کی توجہ جاری رہنی چاہیے ، وائٹ کالر کرائم جرم کی گھٹیا ترین قسم ہیں اور ان کے اثرات بہت وسیع ہیں جو براہ راست عوام الناس کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ اس میں قوامی خزانے سے اربوں روپوں کی خوربرد کی جاتی ہے۔ ہم نے بہت سے مالیاتی گھپلوں کا فیصلہ کیا جن میں حج بدعنوانی اسکینڈل، ایل این جی کا مقدمہ اور حال ہی میں فیصلہ کردہ این آئی سی ایل کا مقدمہ شامل ہیں جن کے تحت عوام کی لوٹی گئی اربوں کی دولت واپس لی گئی، ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ بدعنوانی کے مہلک مرض کے تدارک میں بے بس ہے، میں صرف یہ امید کرتا ہوں کہ آئندہ اس میں بہتری آئے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوکل گورنمنٹ کے آزاد و شفاف انتخابات کے انعقاد کے بغیر جمہوریت نا ممکل ہے، عدالت نے اکثر مقدمات میں شفاف انتخابات کے انعقاد اور جعلی ووٹوں کے تدارک پر زور دیا ہے لیکن ان کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا، حال ہی میں عدالت نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے مقدمے کی سماعت کی تا کہ آئین کے آرٹیکل140 A کے دستوری احکام کی پیروی کو یقینی بنایا جا سکے اور صوبائی حکومتیں لوکل گورنمنٹ کے انتخابا ت منعقد کروا سکیں۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 62کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے نظریے کو نئی جہت عطا کی، اپنی تعلیم اور جائیداد کی بابت دروغ گوئی کرنے والوں کیلیے اب ممکن نہیں کہ وہ پاکستانی عوام کی نمائندگی کر سکیں، مجھے یقین اور اعتماد ہے کہ اس تناظر میں عدلیہ جمہوریت کی مسلسل معاونت کرے گی، ہمیں شخصیات کے بجائے اداروں کو مدنظر رکھنا چاہیے کیونکہ ادارے ملک کو ریاست بناتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں قائم انسانی حقوق کے شعبے نے ملک میں عام آدمی تک انصاف کی رسائی کو ممکن بنایا، یہ شعبہ حقیقت میں بہت سارے از خود نوٹس کا باعث بنا اور یہ تمام مقدمات اعلیٰ شخصیات کے نہیں بلکہ ان مقدمات کی بدولت عام آدمی کی انصاف تک رسائی ممکن ہوئی، مجھے نامزد چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی سے امید ہے کہ وہ اس شعبہ کے کام اور فعالیت کی حمایت اور مزید بہتری کیلیے اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ عدلیہ کو آئین کے نفاذ اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلیے اپنی ذمے داری کااحساس ہے، عدلیہ اپنے فیصلوں کی بدولت آزادی کے 62 سال کے بعد عوام الناس کو یہ بات ذہن نشین کرانے میں کامیاب ہوئی ہے کہ ان کی فلاح قانون کی حکمرانی او ر آئین کی بالادستی میں ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ جب میں اپنے ملک کے عمومی مسائل پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ جب تک ہم بانی پاکستان کے وژن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے ہم پاکستان کو ایک فلاحی ریاست نہیں بنا سکتے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قائد اعظم کی توقع کے برعکس ہمارے ملک میں امیر تو امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ایک عام آدمی کی آمدنی کا گراف نیچے سے نیچے گرتا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہاکہ امن و امان کی کیفیت دہشت گردوں اور مجرموں کے ظلم و ستم سے اس قدر مخدوش ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کویہاں محفوظ نہیں پاتا، کوشش کے باوجود حکومت ملک میں امن کی فضا پیدا نہیں کر سکی، اسی طرح اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور ان کے جان و مال کی حفاظت کے بارے میں قائد اعظم کے فرمان پر عمل میں نہیں کیا جا رہا، ان مسائل کی طرف توجہ دینا حالیہ اور آئندہ کی ہر حکومت پر لازم ہے خواہ اس کیلیے موجودہ نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی ہی کیوں نہ لانی پڑے۔ آخر میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نظر بندی کے دوران اور اس کے بعد تعاون کرنے پر اہل خانہ سمیت اپنے تمام خیر خواہوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ماضی کی تمام اچھی کاوشوںکو جاری رکھنے کی بھی ضرورت ہے اور آگے اس طرح بڑھیں کہ اس ادارے کو نئی جہت ملے تاکہ عدلیہ کے وقار اورانصاف کے نظام پہ لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ ایک ٹی وی کے مطابق جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ امید ہے جسٹس تصدق جیلانی اچھے چیف جسٹس ثابت ہوں گے اور آنے والی عدلیہ بنیادی انسانی حقوق اور آئین و قانون کی بالادستی کیلیے کام کرے گی۔آئی این پی کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی رہائش گاہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں جسٹس افتخار نے کہا کہ قانون کی بالادستی کا سفر جاری رکھیں گے۔

عزت افزائی کرنے پر سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔چیف جسٹس افتخا رمحمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس کی فوٹیج صرف ایک ٹی وی چینل کو دینے پر صحافیوں نے عدالت عظمیٰ کے احاطے میں احتجاج کیا اور نئے چیف جسٹس سے معاملے کی انکوائری کا مطالبہ کیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پران کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں روایتی طور پر فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں چیف جسٹسنامزد چیف جسٹس اور دیگرفاضل ججوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تاہم اس کی کوریج کی فوٹیج صرف ایک میڈیا گروپ کو دی گئی، یہاں تک کہ سرکاری ٹی وی کو بھی کوریج سے دور رکھا گیا اور اسے بھی نوازے گئے میڈیا گروپ کی فوٹیج استعمال کرنا پڑی۔ اس امتیازی سلوک پر قومی اورعالمی میڈیاکے صحافیوں نے سپریم کورٹ کی انتظامیہ سے حقیقت جانناچاہی توتسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، جس کے بعد صحافیوں اور دیگر عملے نے احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔

واقعے کی خبر ایکسپریس نیوز سمیت دیگر چینلز پر نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس کے پروٹوکول افسر چوہدری عبدالحمید میڈیا کے سامنے آئے لیکن وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ انھوں نے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کوریج کیلیے پرائیویٹ کیمرہ مین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اور فوٹیج تمام ٹی وی چینلوں کو پہنچانے کا کہا گیا تھا لیکن انھوں نے صرف ایک مخصوص چینل کو فوٹیج فراہم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ واقعے سے عالمی میڈیا میں غلط پیغام گیا، جس کی تحقیقات کی جائے گی۔ صحافیوں نے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کیا گیا، صحافیوں نے کہا کہ اس سازش میں عدالت کے کچھ ملازمین بھی شامل ہیں اور آزادانہ انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار کے صدر اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین نے بھی صحافیوں کے موقف کی تائید کی اور معاملے کی انکوائری کا مطالبہ کیا۔آخری اطلاعات تک عدالت عظمٰی نے اس معاملے پر کوئی باقاعدہ وضاحت جاری نہیں کی۔

بعدازاں واقعے کے ازالے کیلیے چیف جسٹس افتخارچوہدری کے اعزاز میں رات گئے عشائیے میں میڈیا کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا تاہم عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن نے شرکت سے انکار کردیا۔ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے رات گئے اپنے ہنگامی اجلاس چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس کی فوٹیج صرف ایک ٹی وی چینل کو دینے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرلی۔ قراردادمیں کہاگیاکہ اس امتیازی سلوک کی تحقیقات کی جائے، بار کی جانب سے معاملہ کی چھان بین کیلیے 3 رکنی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی۔ آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس کی کوریج میں میڈیا سے امتیازی سلوک برتنا آئین و قانون کے منافی اور قابل افسوس ہے، معاملے کی مکمل تحقیقات کرائی جانی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں