سیز فائر کے معاہدے کی پاسداری ہونی چاہیے نواز شریف بھارت کو دہشت گردی کیخلاف نظام بنانے کی دعوت
مشیرقومی سلامتی ڈی جی ملٹری آپریشنزکا نظام مزید موثر بنائیں، تصفیہ طلب مسائل مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں
پاکستان نے بھارت کودہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشیر قومی سلامتی کی سطح پرجدید اور مربوط نظام بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کنٹرول لائن پر ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان رابطے مزید مضبوط بنانے اور دونوں ممالک کے درمیان2003 کے سیز فائر معاہدے کی پاسداری کرنے پر زور دیا ہے۔
جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی خاطرتمام تصفیہ طلب مسائل کو سفارتی طریقے سے حل کرکے خطے میں خوشحالی لانا ہوگی۔ بدھ کونواز شریف سے بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر رگھوان نے وزیراعظم ہائوس میں ملاقات کی جس میں پاک بھارت تعلقات کومضبوط بنانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر پرامن طریقے سے رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں اور پاکستان اب بھارت کیساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ پرامن اور بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت سے مذاکراتی عمل جلد شروع ہونا ہماری ترجیحات کا حصہ ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے قریب آنے سے خطے میں خوشحالی کا ایک نیا دورآئے گا جس سے دونوں ملکوں کوفائدہ ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کنٹرول لائن پر موجودہ صورتحال اطمینان بخش ہے۔ پاک بھارت ڈی جی ملٹری آپریشنزکو جلد رابطوں کے ذریعے ناخوشگوار صورتحال سے بچنا چاہیے۔ ڈی جی ملٹری آپریشنز کے موجودہ نظام کومزید مضبوط کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک کے مشیرقومی سلامتی مل کر بیٹھیں اور ڈی جی ملٹری آپریشنزکا نظام مزید مضبوط اور موثر بنائیں، جدید اور نئے نظام سے دہشتگردی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ نیویارک میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات میں معاملات کوسمجھنے میں مدد ملی۔ بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے نئے اقدامات کررہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے عوام کی خاطردونوں کو ملکر پرامن طریقے سے رہنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔
سفیروں کے ایک گروپ کے اعزاز میں ظہرانے کے موقع پر خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے تمام دوستوں کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، انفراسٹرکچر، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کا خواہشمند ہے۔ افغانستان کی صورتحال ایک اہم مرحلے میں داخل ہو رہی ہے،پاکستان نے ایک پرامن افغانستان کی حمایت کا تہیہ کر رکھا ہے۔ افغانستان میں افغان مفاہمتی عمل کی سہولت کے لیے تعاون بھی شامل تھا جو افغانوں کے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم نے پاکستان کوانتہاپسندی اور دہشت گردی سے نجات دلانے کا عزم کررکھا ہے۔ اس لعنت کی نوعیت پیچیدہ ہے اور اس کی جڑیں ماضی کے 3 عشروں کے واقعات میں ہیں۔ ظہرانے میں کینیڈا، ناروے، ترکی، برازیل، جاپان، ہولیسی، کیوبا، سوئٹزرلینڈ اور ارجنٹائن کے سفیروں، امریکا کے ڈپٹی چیف آف مشن اور آسٹریلیا کے ناظم الامور نے بھی شرکت کی۔
جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی خاطرتمام تصفیہ طلب مسائل کو سفارتی طریقے سے حل کرکے خطے میں خوشحالی لانا ہوگی۔ بدھ کونواز شریف سے بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر رگھوان نے وزیراعظم ہائوس میں ملاقات کی جس میں پاک بھارت تعلقات کومضبوط بنانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر پرامن طریقے سے رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں اور پاکستان اب بھارت کیساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ پرامن اور بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت سے مذاکراتی عمل جلد شروع ہونا ہماری ترجیحات کا حصہ ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے قریب آنے سے خطے میں خوشحالی کا ایک نیا دورآئے گا جس سے دونوں ملکوں کوفائدہ ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کنٹرول لائن پر موجودہ صورتحال اطمینان بخش ہے۔ پاک بھارت ڈی جی ملٹری آپریشنزکو جلد رابطوں کے ذریعے ناخوشگوار صورتحال سے بچنا چاہیے۔ ڈی جی ملٹری آپریشنز کے موجودہ نظام کومزید مضبوط کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک کے مشیرقومی سلامتی مل کر بیٹھیں اور ڈی جی ملٹری آپریشنزکا نظام مزید مضبوط اور موثر بنائیں، جدید اور نئے نظام سے دہشتگردی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ نیویارک میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات میں معاملات کوسمجھنے میں مدد ملی۔ بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے نئے اقدامات کررہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے عوام کی خاطردونوں کو ملکر پرامن طریقے سے رہنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔
سفیروں کے ایک گروپ کے اعزاز میں ظہرانے کے موقع پر خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے تمام دوستوں کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، انفراسٹرکچر، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کا خواہشمند ہے۔ افغانستان کی صورتحال ایک اہم مرحلے میں داخل ہو رہی ہے،پاکستان نے ایک پرامن افغانستان کی حمایت کا تہیہ کر رکھا ہے۔ افغانستان میں افغان مفاہمتی عمل کی سہولت کے لیے تعاون بھی شامل تھا جو افغانوں کے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم نے پاکستان کوانتہاپسندی اور دہشت گردی سے نجات دلانے کا عزم کررکھا ہے۔ اس لعنت کی نوعیت پیچیدہ ہے اور اس کی جڑیں ماضی کے 3 عشروں کے واقعات میں ہیں۔ ظہرانے میں کینیڈا، ناروے، ترکی، برازیل، جاپان، ہولیسی، کیوبا، سوئٹزرلینڈ اور ارجنٹائن کے سفیروں، امریکا کے ڈپٹی چیف آف مشن اور آسٹریلیا کے ناظم الامور نے بھی شرکت کی۔