کورونا کے زادگان اورزدگان

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 1 اگست 2020
barq@email.com

[email protected]

بے چارے ’’زدہ گان‘‘ایک مرتبہ پھر زدگان۔ سچ کہاہے کسی نے…

زقسمت ازلی چہرہ سیاہ  بختاں

بہ شست وشوئی  نہ گردسفید ایں مثل است

یعنی یہ توکہاوت ہے کہ پیدائشی سیاہ چہرے  دھونے سے کبھی سفید نہیں ہوتے۔کوے کو آپ دنیا بھر کے صابنوں اورڈیٹرجنٹوں سے دھوئیں یہاں تک کہ ’’نیب وریب‘‘کا خصوصی ڈیٹرجنٹ اورخصوصی واشنگ مشین استعمال کریں ،بے چارا کوا ختم ہوجائے گا لیکن اس کی سیاہی پاکستانی لیڈروں کی طرح بدستور رہے گی چنانچہ اس کاحل داناؤں اورباتدبیروں نے یہ نکالا ہے کہ کوے کے بجائے ’’بطخ‘‘ لیتے ہیں چنانچہ آج کل آپ کو جہاں کہیں بھی کوئی ’’بطخ‘‘ دکھائی دے تو اسے ٹٹولے گا ضرور کہ واقعی بطخ ہے یابطخ اوڑھے ہوئے کوا ہے،نتیجہ کوے ہی کی صورت میں نکلے گابلکہ شاید اس کی چونچ میں کسی منصب کا انگور بھی دکھائی دے اورلنگور کے پہلو میں کوئی ’’گل گلانی ‘‘ سی حوربھی ملے۔

جھوٹ بولے کوا کاٹے کوے سے مت ڈریو

اس کوے سے ڈریو جو بطخ پہنے ہو

اصل بات تو رہ گئی، ہم بات پیدائشی خاندانی اور جدی پشتی زادگان اورزدگان کی کررہے تھے ،دنیا میں انسانوں کے اندر بہت ساری قسمیں چلتی رہتی ہیں،  مذہبی،نسلی، قومی،ملکی ،لسانی یاطبقاتی پیشہ ورانہ وغیرہ لیکن وہ ساری کی ساری عارضی اوروقتی تقسیمیں ہوتی ہیں، اصلی اورمستقل تقسیم جو نہ کبھی بدلی تھی نہ بدلی ہے اورنہ بدلے گی وہ ’’زادگان‘‘اور’’زدگان‘‘ کی ہے۔ ہر زمانے ہر دور ہر ملک ہرخطے میں یہی تقسیم مستقل ہے کہ جوزادگان ہوتے ہیں یعنی شہزادگان ،وزیرزادگان، امیرزادگان،پیر زادگان، صاحبزادگان،اخونزادگان ،قاضی زادگان، میاں زادگان، خانزادگان، رئیس زادگان، سردارزادگان، ملک زادگان۔ وغیرہ۔ ہمیشہ ’’زادگان ‘‘ہی رہتے ہیں اور ان کے زدگان میں سیلاب زد گان ، غربت زدگان، فاقہ زدگان وباززدگان،زلزلہ زدگان ،لیڈرزدگان، حکومت زدگان، ٹیکس زدگان یعنی زدگان ہی زدگان ۔

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی

دل کی وہی ویرانی دل کی وہی تنہائی

یہاں سے پھر دونوں میں ’’دل اوردماغ‘‘ کی بھی تقسیم شروع ہوجاتی ہے اورچارلس ڈارون اورلیمارک دونوں کے نظرئیے بھی لاگو ہوجاتے ہیں۔ یعنی استعمال  اورعدم استعمال کے کرشمے کہ زدگان کو زادگان سے دماغی عدم استعمال پر رکھا ہواہوتا ہے چنانچہ صدیوں سے ’’دل ‘‘ کااستعمال کرتے کرتے ان کے دل تو نرم ہوکر ’’دلدل‘‘ بن چکے ہیں اوردماغ سڑتے سڑتے  گلتے گلتے زنگ آلود ہوکر کباڑ بن چکے ہیں جب کہ زادگان نے دماغ کو استعمال سے شیطان کا کارخانہ بنایا ہوتاہے  اوردل پتھر کے ہوچکے ہوتے ہیں،چنانچہ یہ زادگان صاحبان کسی بھی وقت کوئی بھی چیز یابات اٹھا کر دل والوں یعنی زدگان کو متحرک کردیتے ہیں بلکہ ’’زد‘‘ پرلے لیتے ہیں ۔آزادی مذہب،جمہوریت کشمیر ،کوئی اور دشمن۔ کوئی نعرہ نغمہ ترانہ گا کر مست کرسکتے ہیں ۔اس شخص کا قصہ توآپ نے سنا ہی ہوگا جس نے دکاندار سے ’’دوپیسے‘‘ کی افیون مانگی تھی۔ دکاندارنے کہا دوپیسے کی افیون سے کیا ’’نشہ ‘‘ ہوگا۔تو اس نے کہا کہ نشہ میرے سر میں پہلے سے بہت ہے صرف ایک دھکے کی ضرورت ہے۔

اب یہ سن کو آپ کو ذرہ بھربھی ’’حیرت زدہ‘‘ نہیں ہوناچاہیے کہ ان دونوں طبقوں یعنی زادگان اور زدگان میں ایک اور’’الف‘‘ کااضافہ ہوگیاہے ’’کورونا زادگان‘‘ اور’’کورونا زدگان ‘‘، بظاہر ’’زادہ‘‘ اور ’’زدہ‘‘ میں ایک الف کافرق ہے لیکن ۔

علموں بس کریں اویار

تینوں اکوں الف درکار

اوروہ الف زادگان کے پاس ہے ،زدگان کے پاس نہیں ہے یا وہ ایک الف زادگان نے حاصل کیاہے اورزدگان حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔

اس الف کی کہانی بہت طویل بھی ہے اورجانکاہ بھی اسی لیے اسے چھوڑ دیتے ہیں صرف ’’کورونا‘‘کی بات کرتے ہیںجس کے زادگان نے بڑے کمال سے زدگان کو زد پر لے کر زد وکوب کرنا شروع کیاہے۔

آپ نے چینل دیکھے ہیں یادیکھ رہے ہیں ؟ چلیے اخبار تو پڑھتے ہوں گے وہ بھی نہیں تو روزانہ دواکی طرح ’’بیانات‘‘ تو سن رہے ہوں گے ،صاف صاف ایسا لگتا ہے جیسے کورونا نہ ہو،بلی کے بھاگوں چھینگا ٹوٹا ہو۔ ہردن عید بن گیا ہو اور ہررات شب برات۔

تمام ذمے داریاں ختم ہوگئی ہیں بلکہ کورونا کے سائے تلے چھپا دی گئی ہیں اورکورونا کے تمام ’’ثمرات‘‘ سمیٹے جا رہے ہوں۔

جو مررہے ہیں ،بیروزگارہورہے ہیں جن کے رزق کے وسائل چھن گئے ہیں جو بھرے بازار میں یک وتنہا ہوگئے ہیںان سب کا سب کچھ کورونا تلے آگیا ہے۔لیکن ہواکرے کہ زدگان اسی لیے توپیدا ہوتے ہیں اوراسی لیے مرتے ہیں کہ زادگان کا کاروبار یعنی ’’زدگی‘‘ چلتی رہے۔

جوٹوٹ گیا سوٹوٹ گیا

شیشوں کامسیحا کوئی نہیں

ہم ذرا اندھوں میں کانے راجہ ہیں یعنی لوگوں کاخیال یاوہم ہے کہ اخباری دنیاسے تعلق کے باعث ہم ’’خبردار‘‘ ہیں، اس لیے روزانہ ان بدنصیب زدگان میں سے آٹھ دس ہم سے پوچھتے ہیں کہ وہ پیکیج کہاں ملتے ہیں ،کارڈ کہاں ملتے ہیں یہ کہاں ملتا ہے، وہ کہاں ملتاہے کیوں کہ ’’بیانات‘‘ میں تو سب کچھ ملتاہی ملتا ہے۔ لیکن ہم ان کو کیا بتائیں کہ ’’کہاں‘‘ ملتا ہے؟ کیاملتاہے اورکس کو ملتا ہے کہ جن کو ملنا تھا مل چکا ہے جن کو ملتاہے ان کو مل رہاہے لیکن بیچاروں کو آج تک پتہ نہیں چلاہے کہ وہ توزدگان میں ہیں اورزدگان کو صرف ’’زدگی‘‘ ملتی ہے کہ یہی ان کامقدر ہے جو پکی سیاہی سے لکھا گیاہے ،اگر کچھ لینا ہی ہے تو زدگان سے نکل کر ’’زادگان ‘‘ میں شامل ہوجاؤ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔