تعلیم کی کمی اور معاشرے کا زوال پہلا حصہ
ہر ادارے میں خوشامد پسند لوگ پائے جاتے ہیں وہ اپنے باس کو خوش رکھنے کے لیے منافقین کا کردار ادا کرتے ہیں
میں نے الحمد للہ شعبہ درس وتدریس میں ایک طویل عرصہ گزارا۔ او لیول،کیمبرج اورکالج کے طلبا کو بڑی محنت اور خلوص کے ساتھ پڑھایا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت کرنے کی کوشش کی افکار عالیہ سے روشناس کرانے اور ان میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی جدوجہد جاری رکھی۔
30 منٹ نصابی کتب اور دس منٹ تک اخلاقیات کے حوالے سے لیکچر دیا اور اس کے مثبت نتائج دیکھ کر اطمینان حاصل ہوا کہ ہماری محنت رائیگاں ہونے سے بچ گئی۔ طلبا بھی انھی اساتذہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اپنے پیشے سے مخلص ہوں، اس کے ساتھ اس بات کا بھی خوب تجربہ ہوا کہ استاد نہ صرف یہ کہ اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کر رہا ہے بلکہ طلبا کو برائیوں خصوصاً سیاست کی طرف مائل کرنے میں بھی اس کا پورا پورا ہاتھ ہے طلبا سے گفتگو کرنے کے سلیقے سے ناآشنا ساتھ میں اکثر اوقات مغلظات بکنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے، یہ صورت حال افسوس ناک تھی۔
ہر ادارے میں خوشامد پسند لوگ پائے جاتے ہیں وہ اپنے باس کو خوش رکھنے کے لیے منافقین کا کردار ادا کرتے ہیں، دوسرے ایمان دار اور محنت سے کام کرنے والوں کو باس کی نظر میں گرا کر دم ہی نہیں لیتے بلکہ ملازمت سے بھی نکلوا دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں چاپلوسی کرنے والے اساتذہ کی ہرگزکمی نہیں ہے عیش پسند اورکچے کانوں کے مدرس اور افسر بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں انھیں بغیر ہاتھ پیر ہلائے ادارے کے تمام ورکرزکی خبریں بھی مل جاتی ہیں اور تحفے تحائف، دعوتیں اور پارٹیوں سے بھی خوب مزے اڑاتے ہیں۔
ہر روزکسی نہ کسی بہانے سے مختلف کلاسوں میں پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے ،کسی استادکی سالگرہ توکبھی کلاس میں فرسٹ سیکنڈ آنے والے طلبا و طالبات کے لیے جشن مناتے ہیں، زیادہ تر یہ طلبا صاحب حیثیت گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں بڑی بڑی فیسیں ادا کرتے ہیں تو پھر یہ معمولی پروگراموں کے لیے چھوٹی سی رقم خرچ کرنا، ان کے لیے مشکل نہیں انھی طلبا کو اضافی نمبر بھی اسی لیے دیے جاتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوجائیں، اسکول وکالج میں آج سے نہیں ایک طویل عرصے سے ناچ گانے اورگلوکاری کے جوہر دکھانے کے لیے باقاعدہ کلاسیں لی جاتی ہیں اور اداکاروں، گلوکاروں اور موسیقاروں کی مستقبل کے لیے ایک کھیپ تیارکر دی جاتی ہے یہ وہی علمی درسگاہ ہے جہاں اپنے فن کا لوہا منوانے کے لیے یہ طلبا اپنے گھر والوں سے بھی بغاوت کرکے راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور پھر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان نادانوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ گلیمرکی دنیا اندر سے بڑی ہیبت ناک اور ڈراؤنی ہے۔ اس تاریک راہ میں بے شمار نوجوانوں کا مستقبل برباد ہوجاتا ہے اور جو اپنی منزل کو پا لیتے ہیں وہ بھی ناشاد رہتے ہیں اور دل کے چین سے محروم ضمیر انھیں تنگ کرتا ہے اور جو ضمیر کی مار نہیں سہہ پاتے ہیں وہ اس راہ کو خیرباد کہہ کر صراط مستقیم پر قدم رکھ دیتے ہیں۔
اگر ہمارے بچوں کو دین ودنیا کی تعلیم وتربیت سے محروم نہ رکھا جاتا توآج اس قدرگھور اندھیرا ہرگز نہ ہوتا۔ جرائم اس قدر نہ پنپتے نوجوان اللہ سے ڈرتے اپنے سیاسی آقا سے نہیں، جن کے کہنے پر سو، سو قتل کیے اور زندہ جلایا گیا، بہرحال سیاسی اور تلخ حقائق کو فی الحال یہیں دفن کردیتے ہیں اور آتے ہیں علامہ اقبال اور دوسرے اکابرین کے تعلیمی نظریات کی طرف۔ اس ضمن میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے تعلیمی فلسفے کا نچوڑ یہ ہے کہ اللہ نے یہ کائنات بامقصد بنائی ہے۔ انسان کا مقصد زندگی اپنے رب کی بندگی ہے اللہ کی رضا کا حصول ہی سب سے بڑی قدر ہے، اقبال کے نزدیک توحید ورسالت کی تعلیم ہی وہ بلند ترین نصب العین ہے جس میں کلمہ طیبہ کی روح شامل ہو، وہ طلبا کی ایسی تربیت چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو پہچانیں۔
اقبال کے فلسفۂ خودی کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر ایسی عادات اورصفات پیدا ہوں جو انھیں دوسری مخلوقات سے ممتازکریں چنانچہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اللہ کے احکامات مانے۔ اقبال ایسے طرز تعلیم کو قطعی پسند نہیں کرتے ہیں جو طلبا کو درسی علم تک محدود رکھے اور تربیت کرنے کی ضرورت سے محروم کردے۔
ان کا خیال یہ ہے کہ سیرت وکردار میں مثبت تبدیلی کا ہونا ناگزیر ہے چونکہ اس کے بغیر کوئی بھی انسان تہذیب یافتہ اوراوصاف حمیدہ کا مالک نہیں بن سکتا ہے۔ انھوں نے معلم کے لیے فرمایا کہ طلبا کی تعلیم وتربیت میں استاد کا کلیدی کردار ہوتا ہے، معلم کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون میں مہارت رکھتا ہو۔ اس کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو تب ہی وہ طلبا کو اسلامی تہذیب و تمدن سے روشناس کرانے کا سبب بنے گا۔ اقبال نے اپنی نظم ''خطاب بہ جاوید سخنی بہ نژادنو'' میں تعلیمی نظریات پیش کیے ہیں انھوں نے نظم کی ابتدا اس طرح کی ہے:
اے پسر! ذوق نگہ از من بگیر
سوختن در لاالہ از من بگیر
لاالہ گوئے بگو از روی جان
تاز اندام تو آید بوے جان
این دو حرف لاالہ گفتار نیست
لاالہ جز تیغ بی زنہار نیست
زیستن با سوز او قہاری است
لاالہ ضرب است و ضرب کاری است
علامہ نے ان اشعار میں نوجوانوں کوکلمہ طیبہ کے انقلابی مفہوم کو سمجھنے کا درس دیا ہے اور نصیحت کی ہے کہ وہ یہ کلمہ دل وجان سے کہیں کیونکہ جب کوئی شخص دل و جان سے (روحانی طور پر) لاالہ کہے گا تو وہ صرف اللہ ہی کی حکمرانی کو تسلیم کرے گا، اسی نقطہ نظر کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے گا اور اللہ کی رضا کے لیے بلا چوں و چرا سر تسلیم خم کرے گا۔