دہری شہریت اور وفاقی کابینہ
خود پاکستان میں بھی انھیں اہم سمجھا جاتا ہے جب کہ پی ٹی آئی توایسے لوگوں کو سونے کے انڈے دینے والی مرغی سمجھتی ہے
دوہری شہریت یعنی دو ملکوں کی شہریت ایک ساتھ رکھنا عام طور پر تو کوئی جرم نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ انھیں ملک کے لیے سود مند سمجھا جاتا ہے ۔ خود پاکستان میں بھی انھیں اہم سمجھا جاتا ہے جب کہ پی ٹی آئی توایسے لوگوں کو سونے کے انڈے دینے والی مرغی سمجھتی ہے ۔ پاکستان میں ان کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کے نام سے علیحدہ وزارت و محکمہ بھی قائم ہے ۔ اور یہ سمندر پار پاکستانی ملکی معیشت میں ایک اہم جز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اس لیے مسئلہ سمندر پار پاکستانیوں کی موجودگی یا دو ملکوں کی شہریت رکھنا نہیں بلکہ مسئلہ اُس شہریت کو چھپاناہے کیونکہ آئین ِ پاکستان کے تحت کوئی بھی دوہری شہریت رکھنے والا شخص نہ تو الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن بن سکتا ہے ۔
اور اپنی شہریت کو چھپاکر کوئی حکومتی عہدہ حاصل کرنا نہایت ہی سنگین جرم ہے کیونکہ ایسے شخص کی اپنے ملک سے وفاداری پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ماضی میں کسی بھی ملازمت کے لیے اپنی خدمات پیش کرنیوالوں کی وفاداری ، خاندانی اور ذاتی کردار اور کسی فوجداری یا سول مقدمہ میں سزا یافتہ نا ہونے کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا مگر ضیاء کے آمریتی دور میں دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ ملک میں سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے لیے مطلوبہ جانچ پڑتال اور تحقیقات کے معیاربھی تبدیل ہوگئے اور عام سرکاری محکموں سمیت لازمی سروسز میں بھی اس معاملے میں محض خانہ پوری کی جانے لگی ۔ دوہری شہریت رکھنے والے افراد اصل حقائق چھپاکر جعلی ڈکلیئریشن جمع کراتے رہے ہیں ۔
ماضی میں کابینہ کی بڑی سائیز اور دوہری شہریت پر واویلا مچانے والی پی ٹی آئی اب اپنی اس میٹرو لائین کی طرح طویل کابینہ اور اس کابینہ میں بیٹھے نصف کے برابر غیر منتخب ارکان اور کئی دوہری شہریت کے حامل افراد کو درست ، آئینی اور قانونی ثابت کرنے کے لیے تمام مشنری بروئے کار لائی جارہی ہے ۔
اس ملک میں یہی روایت رہی ہے کہ ''جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ''۔ دیگر حلقوں ، اداروں اور جماعتوں کی طرح ماضی میں حکومتوں کی 35رکنی کابینہ پر ملک کو سرپر اُٹھانے والے میڈیا کی جانب سے اب پی ٹی آئی کی 50ارکان پر مشتمل کابینہ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے سے واضح ہوگیا ہے کہ میڈیا نامی اس بھینس کو بھی کسی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے ۔
2016میں یہ معاملہ اس وقت اُبھر کر سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے اس پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں منتخب ہونیوالے 4نئے سینیٹرز کو دوہری شہریت کے الزام کے تحت اُن کا نوٹیفکیشن روک دیا اور عدالت میں حلفیہ بیان جمع کرانے کا حکم صادر کیا۔ اسی مقدمے میںاسٹبلشمنٹ ڈویژن کی رپورٹ کے توسط سے یہ بات سامنے آئی کہ 213ایسے عملداربھی ہیں جو دوہری شہریت رکھتے ہیں ۔ اُن میں سے 27ایسے عملدار ہیں جو مختلف وفاقی محکموں اور خودمختار اداروں میں کام کررہے ہیں ۔ 42صوبائی اداروں میں اور 24آزاد کشمیر میں تعینات ہیں جب کہ فکر طلب بات یہ ہے کہ ایسے لوگ کئی اہم محکموں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں ۔
سپریم کورٹ نے اس صورتحال کو ملک کے قانون ، مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ پھر ماضی میں سینیٹر فرح ناز اصفہانی اور سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی اہلیہ سعدیہ عباسی کو دوہری شہریت پر نااہل کیا گیا ۔ خود پی ٹی آئی کی 3خواتین ارکان ِ اسمبلی کنول شوزب، ملائیکہ بخاری اور تاشقین صفدرکے خلاف بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوہری شہریت کے خلاف مقدمہ میں درخواست کی گئی کہ آئین کی آرٹیکل 62اور 63کے تحت ان ارکان کو نااہل کیا جائے ۔پھر موجودہ پی ٹی آئی حکومت میں گذشتہ برس سپریم کورٹ میں وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف درخواست داخل کی گئی کہ اُنہوں نے 2013کے الیکشن میں جھوٹا حلفیہ بیان دیا کیونکہ انھوں نے کینیڈا کی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکٹ جمع نہیں کروایا تھا ۔
پھر نواز شریف کو بھی اسی آرٹیکل 63کے تحت محض دوسرے ملک کا اقامہ رکھنے پر نااہل قرار دیا گیا ۔یہاں تک کہ نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر آرٹیکل 62اور 63پر پورا نہ اُترنے کی بناء پر پارٹی کی سربراہی سے بھی نااہل قرار دیا گیااوردوسری جانب مذکورہ بالاامریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کو غدار قرار دیا گیا۔ تو پھر کیسے دوہری شہریت کے حامل موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے مشیر اہل اورکلیدی عہدوں پر براجمان بیوروکریٹس محبان ِ وطن ہوسکتے ہیں ؟ یاپھر کیسے ممکن ہے کہ دوسرے ملک کی مکمل شہریت چھپانے والے کووطن عزیز کی باگ ڈور سونپی جائے اور وہ درست بھی ہو؟
بات ناقابل ہضم ہے اور یہ بات اکثر پی ٹی آئی والے بھی جانتے ہیں اسی لیے فواد چوہدری جیسے وزراء اس پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں لیکن سینیئر رہنماؤں پر حیرت ہے جو سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی محض اپنے نمبر بڑھانے کے لیے وفاقی کابینہ میں موجود دوہری شہریت والے مشیروں اور معاونین ِ خصوصی کا دفاع کررہے ہیں ۔ خیر پی ٹی آئی وزراء کی منطق کی تو بات ہی کیا کی جائے ۔ خود اُن کی اپنی بات'' اس سے قانون کہاں ٹوٹا؟'' اور''وزیر اعظم کے بلانے پر تو ٹرمپ بھی کابینہ میں آسکتے ہیں''، پر اُن کا آئینہ ہی اُن کا منہ چڑاتا ہوگا۔ہمارے ایک نہایت سینئر دوست کہتے ہیں کہ تبدیلی سرکار بھلے ہی ملک میں اداروں اور اُمور میں بہتری پر مبنی کوئی مثبت پالیسی اختیار کرنے جیسی تبدیلی نہ لاسکی ہو لیکن اُس نے ملکی اُمور پر اپنے موقف میں بار بار تبدیلی سے اپنے تبدیلی والے گانے کی لاج بہرحال برقرار رکھی ہے ۔ !
ملک میں احتساب کے نام پر قائم پی ٹی آئی سرکار کو سب سے پہلے اپنی جماعت اور کابینہ کو خود احتسابی کے عمل سے گذارنا چاہیے ۔ جس میں مختلف شعبوں کے مافیائی کارندے اور غیر قانونی طور پر منتخب و دوہری شہریت رکھنے والے افراد براجمان ہیں ۔ غیر منتخب افراد کا ملک کے فیصلوں میں شامل ہونے پر حکومت کو سخت تنقید بلکہ عدالتی کارروائی کا بھی سامنا ہے ۔
کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق سے دوہری شہریت رکھنے والے وزیر اعظم کے مشیروں سے متعلق جواب طلب کیا ہے ۔ جھوٹے ڈکلیئریشن یعنی جھوٹا حلفیہ بیان دینے والے پر 62ون ایف کا اطلاق ہوتا ہے ۔ دیکھا جائے تو ایک طرف ملک میں لاکھوں پڑھے لکھے اور اعلیٰ ڈگری یافتہ بیروزگار افراد کی موجودگی میں دوہری شہریت کے حامل لوگوں کی اہم عہدوں پر تعیناتی اُن حقداروں کے ساتھ ناانصافی ہے تو دوسری طرف وفاقی کابینہ میں غیر منتخب اور دوہری شہریت کے حامل افراد کی موجودگی پاکستانی آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے ۔
ایسے ہی لوگوں نے دراصل ریاستی و عوامی مفادات کو اُتم رکھنے کے بجائے اپنے ذاتی ، گروہی اور خاندانی و تنظیمی مفادات کے لیے ملک میں کرپشن کا جو کلچر عام کررکھا ہے اُس نے ملک کی معاشی و جمہوری جڑیں کاٹ کر رکھ دی ہیں ۔ ملک میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ نوکر شاہی طبقے کا بے رحم احتساب بھی انتہائی ضروری ہے ، جو حکومتی مشنری پر مکمل طور پر قابض ہونے کے باعث ہر دور میں سدا بہار رہتاآیا ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کے باوجود اُن کی دولت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
2018کے انتخابات سے قبل ملکی صورتحال پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ملکی اسٹبلشمنٹ کی تمام تر کوشش رہی کہ آنیوالے انتخابات کے بعد ایک ایسی حکومت تشکیل پائے جو ہر طرح سے صادق و امین لوگوں پر مشتمل ہو اور عوام نے بھی یہ توقعات وابستہ کررکھی تھیں ۔ لیکن نامزدگی دستاویزات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد آنیوالی ایک میڈیائی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے افراد میں 2700 سے زائد افراد مختلف مقدمات ، انکوائریز میں زیر تفتیش ہیں ۔
اُن افراد میں موجودہ حکومتی جماعتوں سمیت تمام بڑی جماعتوں کے امیدوار شامل تھے۔ اُس وقت اگر اس کی شفاف اسکروٹنی کو یقینی بنایا جاتا تو شاید آج ملکی حکمرانی اور ملکی انتظامی اُمور کی صورتحال کچھ اور ہوتی مگر بینک ڈیفالٹ ، کرپشن ، ریپ ، قتل ، بھتہ خوری ، منی لانڈرنگ ، انسانی اسمگلنگ سمیت دوہری شہریت کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر ملک میں انتخابات کروادیے گئے ۔ ایسے میںملک میں شفافیت اور بہتر حکمرانی کے ماحول کی باتیں کرنے کو محض ''دیوانے کا خواب'' ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔!!!
اس لیے مسئلہ سمندر پار پاکستانیوں کی موجودگی یا دو ملکوں کی شہریت رکھنا نہیں بلکہ مسئلہ اُس شہریت کو چھپاناہے کیونکہ آئین ِ پاکستان کے تحت کوئی بھی دوہری شہریت رکھنے والا شخص نہ تو الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن بن سکتا ہے ۔
اور اپنی شہریت کو چھپاکر کوئی حکومتی عہدہ حاصل کرنا نہایت ہی سنگین جرم ہے کیونکہ ایسے شخص کی اپنے ملک سے وفاداری پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ماضی میں کسی بھی ملازمت کے لیے اپنی خدمات پیش کرنیوالوں کی وفاداری ، خاندانی اور ذاتی کردار اور کسی فوجداری یا سول مقدمہ میں سزا یافتہ نا ہونے کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا مگر ضیاء کے آمریتی دور میں دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ ملک میں سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے لیے مطلوبہ جانچ پڑتال اور تحقیقات کے معیاربھی تبدیل ہوگئے اور عام سرکاری محکموں سمیت لازمی سروسز میں بھی اس معاملے میں محض خانہ پوری کی جانے لگی ۔ دوہری شہریت رکھنے والے افراد اصل حقائق چھپاکر جعلی ڈکلیئریشن جمع کراتے رہے ہیں ۔
ماضی میں کابینہ کی بڑی سائیز اور دوہری شہریت پر واویلا مچانے والی پی ٹی آئی اب اپنی اس میٹرو لائین کی طرح طویل کابینہ اور اس کابینہ میں بیٹھے نصف کے برابر غیر منتخب ارکان اور کئی دوہری شہریت کے حامل افراد کو درست ، آئینی اور قانونی ثابت کرنے کے لیے تمام مشنری بروئے کار لائی جارہی ہے ۔
اس ملک میں یہی روایت رہی ہے کہ ''جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ''۔ دیگر حلقوں ، اداروں اور جماعتوں کی طرح ماضی میں حکومتوں کی 35رکنی کابینہ پر ملک کو سرپر اُٹھانے والے میڈیا کی جانب سے اب پی ٹی آئی کی 50ارکان پر مشتمل کابینہ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے سے واضح ہوگیا ہے کہ میڈیا نامی اس بھینس کو بھی کسی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے ۔
2016میں یہ معاملہ اس وقت اُبھر کر سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے اس پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں منتخب ہونیوالے 4نئے سینیٹرز کو دوہری شہریت کے الزام کے تحت اُن کا نوٹیفکیشن روک دیا اور عدالت میں حلفیہ بیان جمع کرانے کا حکم صادر کیا۔ اسی مقدمے میںاسٹبلشمنٹ ڈویژن کی رپورٹ کے توسط سے یہ بات سامنے آئی کہ 213ایسے عملداربھی ہیں جو دوہری شہریت رکھتے ہیں ۔ اُن میں سے 27ایسے عملدار ہیں جو مختلف وفاقی محکموں اور خودمختار اداروں میں کام کررہے ہیں ۔ 42صوبائی اداروں میں اور 24آزاد کشمیر میں تعینات ہیں جب کہ فکر طلب بات یہ ہے کہ ایسے لوگ کئی اہم محکموں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں ۔
سپریم کورٹ نے اس صورتحال کو ملک کے قانون ، مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ پھر ماضی میں سینیٹر فرح ناز اصفہانی اور سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی اہلیہ سعدیہ عباسی کو دوہری شہریت پر نااہل کیا گیا ۔ خود پی ٹی آئی کی 3خواتین ارکان ِ اسمبلی کنول شوزب، ملائیکہ بخاری اور تاشقین صفدرکے خلاف بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوہری شہریت کے خلاف مقدمہ میں درخواست کی گئی کہ آئین کی آرٹیکل 62اور 63کے تحت ان ارکان کو نااہل کیا جائے ۔پھر موجودہ پی ٹی آئی حکومت میں گذشتہ برس سپریم کورٹ میں وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف درخواست داخل کی گئی کہ اُنہوں نے 2013کے الیکشن میں جھوٹا حلفیہ بیان دیا کیونکہ انھوں نے کینیڈا کی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکٹ جمع نہیں کروایا تھا ۔
پھر نواز شریف کو بھی اسی آرٹیکل 63کے تحت محض دوسرے ملک کا اقامہ رکھنے پر نااہل قرار دیا گیا ۔یہاں تک کہ نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر آرٹیکل 62اور 63پر پورا نہ اُترنے کی بناء پر پارٹی کی سربراہی سے بھی نااہل قرار دیا گیااوردوسری جانب مذکورہ بالاامریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کو غدار قرار دیا گیا۔ تو پھر کیسے دوہری شہریت کے حامل موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے مشیر اہل اورکلیدی عہدوں پر براجمان بیوروکریٹس محبان ِ وطن ہوسکتے ہیں ؟ یاپھر کیسے ممکن ہے کہ دوسرے ملک کی مکمل شہریت چھپانے والے کووطن عزیز کی باگ ڈور سونپی جائے اور وہ درست بھی ہو؟
بات ناقابل ہضم ہے اور یہ بات اکثر پی ٹی آئی والے بھی جانتے ہیں اسی لیے فواد چوہدری جیسے وزراء اس پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں لیکن سینیئر رہنماؤں پر حیرت ہے جو سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی محض اپنے نمبر بڑھانے کے لیے وفاقی کابینہ میں موجود دوہری شہریت والے مشیروں اور معاونین ِ خصوصی کا دفاع کررہے ہیں ۔ خیر پی ٹی آئی وزراء کی منطق کی تو بات ہی کیا کی جائے ۔ خود اُن کی اپنی بات'' اس سے قانون کہاں ٹوٹا؟'' اور''وزیر اعظم کے بلانے پر تو ٹرمپ بھی کابینہ میں آسکتے ہیں''، پر اُن کا آئینہ ہی اُن کا منہ چڑاتا ہوگا۔ہمارے ایک نہایت سینئر دوست کہتے ہیں کہ تبدیلی سرکار بھلے ہی ملک میں اداروں اور اُمور میں بہتری پر مبنی کوئی مثبت پالیسی اختیار کرنے جیسی تبدیلی نہ لاسکی ہو لیکن اُس نے ملکی اُمور پر اپنے موقف میں بار بار تبدیلی سے اپنے تبدیلی والے گانے کی لاج بہرحال برقرار رکھی ہے ۔ !
ملک میں احتساب کے نام پر قائم پی ٹی آئی سرکار کو سب سے پہلے اپنی جماعت اور کابینہ کو خود احتسابی کے عمل سے گذارنا چاہیے ۔ جس میں مختلف شعبوں کے مافیائی کارندے اور غیر قانونی طور پر منتخب و دوہری شہریت رکھنے والے افراد براجمان ہیں ۔ غیر منتخب افراد کا ملک کے فیصلوں میں شامل ہونے پر حکومت کو سخت تنقید بلکہ عدالتی کارروائی کا بھی سامنا ہے ۔
کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق سے دوہری شہریت رکھنے والے وزیر اعظم کے مشیروں سے متعلق جواب طلب کیا ہے ۔ جھوٹے ڈکلیئریشن یعنی جھوٹا حلفیہ بیان دینے والے پر 62ون ایف کا اطلاق ہوتا ہے ۔ دیکھا جائے تو ایک طرف ملک میں لاکھوں پڑھے لکھے اور اعلیٰ ڈگری یافتہ بیروزگار افراد کی موجودگی میں دوہری شہریت کے حامل لوگوں کی اہم عہدوں پر تعیناتی اُن حقداروں کے ساتھ ناانصافی ہے تو دوسری طرف وفاقی کابینہ میں غیر منتخب اور دوہری شہریت کے حامل افراد کی موجودگی پاکستانی آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے ۔
ایسے ہی لوگوں نے دراصل ریاستی و عوامی مفادات کو اُتم رکھنے کے بجائے اپنے ذاتی ، گروہی اور خاندانی و تنظیمی مفادات کے لیے ملک میں کرپشن کا جو کلچر عام کررکھا ہے اُس نے ملک کی معاشی و جمہوری جڑیں کاٹ کر رکھ دی ہیں ۔ ملک میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ نوکر شاہی طبقے کا بے رحم احتساب بھی انتہائی ضروری ہے ، جو حکومتی مشنری پر مکمل طور پر قابض ہونے کے باعث ہر دور میں سدا بہار رہتاآیا ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کے باوجود اُن کی دولت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
2018کے انتخابات سے قبل ملکی صورتحال پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ملکی اسٹبلشمنٹ کی تمام تر کوشش رہی کہ آنیوالے انتخابات کے بعد ایک ایسی حکومت تشکیل پائے جو ہر طرح سے صادق و امین لوگوں پر مشتمل ہو اور عوام نے بھی یہ توقعات وابستہ کررکھی تھیں ۔ لیکن نامزدگی دستاویزات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد آنیوالی ایک میڈیائی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے افراد میں 2700 سے زائد افراد مختلف مقدمات ، انکوائریز میں زیر تفتیش ہیں ۔
اُن افراد میں موجودہ حکومتی جماعتوں سمیت تمام بڑی جماعتوں کے امیدوار شامل تھے۔ اُس وقت اگر اس کی شفاف اسکروٹنی کو یقینی بنایا جاتا تو شاید آج ملکی حکمرانی اور ملکی انتظامی اُمور کی صورتحال کچھ اور ہوتی مگر بینک ڈیفالٹ ، کرپشن ، ریپ ، قتل ، بھتہ خوری ، منی لانڈرنگ ، انسانی اسمگلنگ سمیت دوہری شہریت کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر ملک میں انتخابات کروادیے گئے ۔ ایسے میںملک میں شفافیت اور بہتر حکمرانی کے ماحول کی باتیں کرنے کو محض ''دیوانے کا خواب'' ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔!!!