سمن کلیانپور

 باکمال گلوکارہ، لتا جیسی آواز جس کی شناخت کی راہ میں رکاوٹ بن گئی


ندیم سبحان میو August 02, 2020
سمن کے گائے ہوئے متعدد گیت آج لتا منگیشکر کے گیتوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

'' زندگی امتحان لیتی ہے، لوگوں کی جان لیتی ہے'' ، ہندی فلم ''نصیب '' کا یہ گیت برصغیر میں بے حد مقبول ہوا تھا۔

'' نصیب'' 1981ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور اس فلم نے زبردست کامیابی سمیٹی تھی۔ اس گیت کے بول متعدد مقبول عام گیتوں کے خالق آنندبخشی کے قلم سے پُھوٹے تھے جبکہ موسیقی شہرۂ آفاق موسیقار جوڑی لکشمی کانت پیارے لال نے دی تھی۔ پرانی ہندی فلموں کے شائقین آج بھی یہ خوب صورت گیت شوق سے سنتے ہیں۔ یہ نغمہ اس وقت کے صف اول کے اداکاروں امیتابھ بچن، شتروگھن سنہا اور رینا رائے پر فلمایا گیا تھا۔ امیتابھ بچن اور شتروگھن کے بول بالترتیب انور اور ڈاکٹر کملیش اوستھی نے گائے تھے جب کہ رینا رائے کے سرخ لبوں سے لتا منگیشکر۔۔۔۔۔ جی نہیں سمن کلیانپور کی آواز ادا ہورہی تھی۔

اس زمانے کی طرح آج بھی پرانی ہندی فلموں کے دل دادگان کی کثیرتعداد سمجھتی ہے کہ اس گیت میں انور اور ڈاکٹر کملیش کی ساتھی گلوکارہ لتا منگیشکر تھیں۔ اس مغالطے کا سبب یہ ہے کہ سمن کلیانپور کی آواز سُروں کی دیوی کے لب و لہجے سے اس قدر مشابہ ہے کہ تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آج کے دور کی کسی گلوکارہ کو اگر لتامنگیشکر جیسی آواز اور گائیکی کی صلاحیت عطا ہوجائے تو وہ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھے گی مگر سمن کلیانپور کے لیے یہ مشابہت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوہان روح بن گئی کیوں کہ انتہائی باصلاحیت گلوکارہ ہونے کے باوجود دنیائے موسیقی انھیں ان کا جائز مقام نہ دے سکی۔ سمن کے گلے سے نکلتی لتا جیسی سُریلی آواز ان کی جُداگانہ پہچان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔

سمن نے جب فلم نگری میں قدم رکھا تو اس وقت جہان موسیقی پر لتا منگیشکر کا طوطی بول رہا تھا۔ برصغیر میں شائقین فلم و موسیقی ان کی آواز کے سحر میں مبتلا تھے۔ ہر چند کہ سمن نے فلم نگری میں سخت محنت سے اپنا مقام اور شناخت بنانے کی کوشش کی مگر بدقسمتی سے ان پر لتا منگیشکر کی 'ڈپلیکیٹ' کی چھاپ لگ گئی۔ جو فلم ساز کسی بھی سبب سے لتا منگیشکر کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہتا تو پھر اس کا انتخاب سمن کلیانپور ہوتی تھیں۔ اگرچہ یہ بھی اس امر کا اعتراف تھا کہ سُر بکھیرنے میں سمن کسی بھی طرح لتامنگیشکر سے کم نہیں۔

اس باکمال گلوکارہ نے 28 جنوری 1938کو ڈھاکا کے ایک برہمن گھرانے میں جنم لیا۔ ان کا پیدائشی نام سمن ہماڈے تھا۔ والد کا آبائی تعلق ریاست کرناٹک کی تحصیل کنڈاپور کے گاؤں ہماڈے سے تھا اور اُن دنوں وہ سینٹرل بینک آف انڈیا کے اعلیٰ عہدے دار کی حیثیت سے ڈھاکا میں تعینات تھے۔ چھے بچوں میں سمن سن ان کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ 1943ء میں یہ خاندان ممبئی منتقل ہوگیا۔

سمن کو گائیکی کے ساتھ ساتھ مصوری کا بھی شوق تھا۔ مصوری کی تعلیم کے لیے انھوں نے معروف ادارے سر جے جے اسکول آف آرٹس کا رخ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنڈت کیشو راؤ بھولے سے موسیقی اور گائیکی کی تربیت لینے کا آغاز کیا جو فلمی موسیقار اور ان کے والد کے دوست تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سمن نے گائیکی کو بہ طور مشغلہ اپنایا تھا۔ دھیرے دھیرے سُرسنگیت میں ان کی دل چسپی اتنی بڑھ گئی کہ انھوں نے اس فن کو پیشہ وارانہ طور پر اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔ چناں چہ پنڈت کیشو راؤ بھولے کے بعد انھوں نے استادخان عبدالرحمان خان اور گروجی ماسٹرنورنگ سے فن گائیکی کی تربیت لی۔

سمن کے گھر کا ہر فرد اگرچہ آرٹ اور موسیقی سے شغف رکھتا تھا لیکن والدین عوامی محفلوں میں فن کے مظاہرے کو پسند نہیں کرتے تھے چنانچہ سمن کی سُریلی آواز گھر کی چار دیواری تک محدود رہتی تھی۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ فن اپنا راستہ خود بنالیتا ہے تو اتنی سختی کے باوجود کسی نہ کسی طرح سمن کے گلے سے خارج ہونے والے سُر چاردیواری سے باہر نکل گئے اور 1952ء میں انھیں آل انڈیا ریڈیو کے لیے گانے کی پیشکش ہوئی۔ خاصی کوشش کے بعد وہ والدین سے اجازت لینے میں کامیاب ہوگئیں۔ یہ ان کی اولین پبلک پرفارمینس تھی جس نے فلم نگر سے منسلک کئی لوگوں کو بھی چونکا دیا چنانچہ انھیں پہلی فلم کے لیے گیت گانے کی پیش کش ہوئی۔

1953ء میں ریلیز ہونے والی اس مراٹھی فلم کا نام '' سُکھ رچی چاندنی '' تھا۔ انھی دنوں معروف فلم ساز شیخ مختار فلم '' منگو'' بنانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ انھوں نے جب سمن کا گیت '' سُکھ رچی چاندنی '' سنا تو بہت متأثر ہوئے اور اس نوجوان گلوکارہ سے اپنی فلم کے لیے گیت ریکارڈ کرانے کی فرمائش کی۔ سُمن کی یہ بڑی خوش نصیبی تھی کہ کسی سفارش کے بغیر انھیں ایک بڑی فلم میں اظہار فن کا موقع مل رہا تھا۔ فلم کے موسیقار مشہور و معروف او پی نیر تھے۔ او پی نیر کی ترتیب دی گئی دھنوں پر سمن نے تین گیت گائے۔

تاہم اسی دوران کسی سبب سے او پی نیر کے بجائے محمد شفیع نے موسیقار کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔ محمد شفیع نے سمن کے گائے ہوئے دو گیت نکال باہر کیے۔ ان کے خیال میں ان گیتوں کے لیے سمن سے زیادہ آشا بھوسلے اور گیتا دت کی آواز موزوں تھی۔ اس طرح سمن کی آواز میں گائی ہوئی ایک لوری ''کوئی پکارے دھیرے سے تجھے'' ہی فلم میں شامل رہی۔ 1954ء میں سنیماؤں کی زینت بننے والی اس فلم سے ہندی فلم نگری میں سمن کی آمد ہوئی۔

'' منگو'' میں سمن کی گائی گئی لوری نے بھی فلم سازوں کی توجہ حاصل کی۔ کچھ ہی دنوں کے بعد انھیں فلم '' دروازہ'' میں اپنی گائیکی کے جوہر دکھانے کی پیش کش ہوئی۔ ''دروازہ'' کی فلم ساز مشہور ترقی پسند افسانہ نگار عصمت چغتائی اور ہدایت کار شاہد لطیف تھے۔ فلم کی موسیقی ترتیب دینے کی ذمے داری نوشاد جیسے لیجنڈ کے کاندھوں پر تھی۔

1954ء ہی میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو سمن کلیانپور کی پہلی ہندی فلم خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ '' منگو'' کے برعکس سمن نے اس فلم میں اپنی مدُھر آواز میں پانچ گیت گائے تھے۔ سمن کا اولین فلمی گیت ایک دوگانہ تھا جو انھوں نے طلعت محمود کے ساتھ ریکارڈ کرایا تھا۔ اس گیت کے بول تھے ''ایک دل دو ہیں طلبگار۔'' طلعت محمود نے موسیقی کے ایک کنسرٹ میں سمن کو گاتے ہوئے سنا تھا اور ان کی گائیکی سے بہت متأثر ہوئے تھے۔ اسی بنیاد پر وہ ایک نووارد گلوکارہ کے ساتھ دوگانہ ریکارڈ کروانے پر تیار ہوئے تھے۔ یہ سمن کی خوش قسمتی تھی کہ کیریئر کے آغاز ہی میں انھیں ایک مایۂ ناز گلوکار کی حمایت حاصل ہوگئی تھی۔ طلعت حسین کے ساتھ دوگانے کے بعد فلم نگری اس نوجوان گلوکارہ کی طرف متوجہ ہوگئی۔

ان کی پیشہ وارانہ زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب انھیں شہرۂ آفاق گلوکار محمد رفیع کے ساتھ فلم ''مس بومبے'' میں ایک دوگانہ گانے کا موقع ملا۔ اس گیت کے بول تھے،''دن ہو یا رات، ہم رہیں تیرے ساتھ۔'' یہ گیت عوام الناس میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ تاہم لتا منگیشکر کی آواز سے حیران کُن مشابہت کے باعث لوگوں نے اسے لتا جی ہی کی آواز سمجھا۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد سمن کلیانپور پر فلم نگری کے دَر وا ہوگئے۔

انھیں تسلسل کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگانے کے مواقع ملنے لگے۔ مگر بدقسمتی یہ تھی کہ اس وقت فلمی موسیقی پر لتا اور ان کی بہن آشا کا راج تھا۔ یہ وہ دور تھا جسے ہندی فلمی موسیقی کا سنہری دور کہا جاتا تھا۔ ہر فلم ساز اپنی فلم میں لتا کی آواز شامل کرنے کا خواہش مند ہوتا تھا۔ تاہم بے پناہ مصروفیت کے سبب لتا منگیشکر کے لیے ہر فلم ساز کی خواہش پوری کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ دوسری جانب اپنی مقبولیت اور مانگ کی مناسبت سے ان کا معاوضہ بھی زیادہ (ایک سو روپیہ فی گیت) تھا۔ وقت کی کمیابی یا زائد معاوضے کی وجہ سے کئی فلم ساز لتاجی کی آواز میں گیت ریکارڈ کروانے سے محروم رہ جاتے تھے۔ انھیں سمن کلیانپور کی شکل میں لتاجی کا زبردست متبادل میسر آگیا۔ چنانچہ فلمی دنیا میں سمن کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

انھوں نے غلام محمد، پنڈت شیورام، ایس ڈی برمن، شنکر۔ جے کشن، روشن، دتارام، مدن موہن، خیام، کلیان جی۔ آنندجی، سی رام چندر، اور لکشمی کانت۔ پیارے لال جیسے نام وَر موسیقاروں کی بنائی ہوئی دُھنوں پر متعدد فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ان کے کئی گیت زبان زد عام ہوگئے۔

فلم '' پیاسے پنچھی'' میں ہمنت کمار کے ساتھ دوگانہ تمھی میرے میت ہو، '' شمع'' کا ایک جرم کرکے ، اور دل غم سے جل رہا، '' برسات کی رات'' کا گرجت برسات ساون آیو، '' زندگی اور خواب '' کا نہ جانے کہاں تم تھے، ''بات ایک رات کی'' کا نہ تم ہمیں جانو نہ ہم تمھیں جانیں، ''دل ایک مندر'' کا جوہی کی کلی میری لاڈلی اور دل ایک مندر ہے،''جہاں آرا '' کا بعد مدت کے یہ گھڑی، ''شگن'' کا پربتوں کے پیڑوں پر اور بجھا دیا ہے خود اپنے ہاتھوں، '' جب جب پھول کھلے'' کا نا نا کرتے پیار تمھی سے، '' دل نے پھر یاد کیا'' کا گیت دل نے پھر یاد کیا، '' ماڈرن گرل'' کا یہ موسم رنگین سامان اور بہت سے دوسرے گیت مقبولیت کی بلندیوں کو چُھوگئے۔

اسی دوران ہندوستانی فلمی دنیا کی مقبول ترین گلوکار جوڑی لتا اور محمد رفیع کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ لتا گیتوں کی رائلٹی لینے کے خواہش مند تھیں مگر محمد رفیع نے اس معاملے پر ان کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ لتا محمدرفیع سے ناراض ہوگئیں اور ان کے ہمراہ گیت ریکارڈ کروانے سے انکار کردیا۔ ناراضی کا یہ عرصہ دو سال پر محیط رہا۔ اس دوران سمن کلیانپور فلم سازوں کی منظور نظر بنی رہیں اور انھوں نے متعدد فلموں میں درجنوں گیت گائے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ شائقین سمن کی آواز کو لتا کی آواز سمجھتے تھے اور درحقیقت فلم ساز بھی یہی چاہتے تھے۔ اسی لیے اگر کوئی سوال کرتا کہ کیا فلم کے گیت لتا نے گائے ہیں تو بیشتر فلم ساز اور ہدایت کار اس کی تردید نہیں کرتے تھے۔

لتا اور محمد رفیع کی ناراضی سمن کلیانپور کے لیے یوں نعمت ثابت ہوئی کہ اس دوران محمد رفیع کے ساتھ ان کے کئی یادگار گیت سامنے آئے مثلاً ''آج کل تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر'' ( فلم: برہمچاری)،''اج ہُن نہ آئے بالما ساون بیتا جائے'' ( فلم: سانجھ اور سویرا)، ''تم سے او حسینہ محبت نہ میں نے کرنی تھی'' (فلم: فرض)، ''ٹھہریے ہوش میں آلوں تو چلے جائیے گا'' (فلم: محبت اس کو کہتے ہیں ) اور دوسرے متعدد گیت شامل ہیں۔ سمن کلیانپور نے مجموعی طور پر محمد رفیع کے ساتھ 140 گیت ریکارڈ کرائے۔

فلم نگری کے تمام موسیقار سمن کی بے حد عزت کرتے تھے۔ اس کی وجہ ان کا پروفیشنل ازم تھا۔ ایک بار دوران انٹرویو سمن کلیانپور کے بارے میں مشہور و معروف موسیقار خیام نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا،''وہ بہت محنتی اور اپنے کام سے بے انتہا مخلص ہے۔ اس سے جتنی مرضی ریہرسل کرالی جائے اس کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔'' ہمیشہ دیے گئے وقت پر ریہرسل اور ریکارڈنگ کے لیے پہنچنا سمن کی عادت تھی۔ عاجزی و انکساری ان کے مزاج کا جزو تھی۔ ان کے برعکس لتا منگیشکر، جن کا سمن کو پرتو سمجھا جاتا تھا، ہمیشہ سب سے آخر میں اسٹوڈیو پہنچتی تھیں اور بعض اوقات عین آخری لمحات میں ریکارڈنگ ملتوی کرادیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ سُروں کی ملکہ اپنی حریف گلوکاراؤں کے کیریئر کو نقصان پہچانے کے لیے بھی جانی جاتی تھیں۔ ان حریفوں میں سے ایک سمن کلیانپور تھیں۔

ہندی کے علاوہ سمن کلیانپور نے دیگر زبانوں بالخصوص مراٹھی زبان میں بے شمار گیت ریکارڈ کرائے۔ ہندی فلم نگری کے برعکس مراٹھی فلمی صنعت میں انھیں بے پناہ کامیابی، شہرت اور پہچان ملی۔ یہاں وہ کئی عشروں تک مصروف رہیں۔ اس طویل عرصے میں ہزاروں گیت گائے۔ فلمی کے علاوہ ان کے غیرفلمی گیت اور بھجن وغیرہ بھی بے حد مقبول ہوئے۔

سمن کلیانپور کو لتا منگیشکر کے ساتھ بھی ایک دوگانہ ریکارڈ کرانے کا موقع ملا۔ اس گیت کے بول تھے،''کبھی آج، کبھی کل، کبھی پرسوں۔'' اس گیت کی موسیقی ہمنت کمار نے ترتیب دی تھی۔ سمن کلیانپور نے اپنے دور کے تمام معروف گلوکاروں کی ہمراہی میں گیت گائے جن میں محمد رفیع کے علاوہ مناڈے، مکیش، طلعت محمود، ہمنت کمار اور کئی دوسرے گلوکار شامل ہیں۔

حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران (واضح رہے کہ سمن کلیانپور کو گم نامی میں رہنا زیادہ پسند ہے، اسی لیے وہ فلمی دنیا کی سرگرمیوں سے دور بھاگتی ہیں) جب سمن کلیانپور سے لتا منگیشکر کے ساتھ ان کی آواز کی حیرت انگیز مشابہت اور ان کے گائے ہوئے گیتوں کو لتا کے گیت سمجھے جانے سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا،''میں ان سے بہت متأثر تھی۔ کالج کے زمانے میں ان کے گیت گایا کرتی تھی۔ میری آواز نازک اور پتلی تھی مگر میں کر بھی کیا سکتی تھی۔ ریڈیو سیلون سے جب گیت نشر ہوتے تھے تو نام نہیں لیے جاتے تھے۔ اس وجہ سے بھی میرے گیتوں پر لتا منگیشکر کی چھاپ لگ گئی۔ اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے اس وقت کوئی ایسے ذرائع بھی نہیں تھے۔ وہ زمانہ مختلف تھا۔ آج بھلا یہ ممکن ہے کہ کسی کے گائے ہوئے گیت دوسرے کے نام سے نشر ہونے لگیں؟''

سُمن کے نام کے ساتھ کلیانپور کا لاحقہ 1958ء میں اس وقت لگا جب وہ ممبئی میں مقیم کاروباری شخص رامانند کلیانپور کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ سمن ہماڈے کہلاتی تھیں۔ شادی کے بعد ہر گیت کی ریکارڈنگ کے موقع پر سمن کے شوہر کسی محافظ کی طرح ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان کی ایک بیٹی چارُول اگنی ہے۔ چارُول اپنے شوہر کے ساتھ امریکا میں مقیم ہے۔ 80ء کی دہائی کے اواخر میں دوردرشن پر موسیقی کے مشہور پروگرام '' چھایا گیت'' پر 1965ء میں فلم ''جب جب پھول کھلے'' کا مقبول گیت ''نہ نہ کرتے پیار تمھی سے کر بیٹھے'' نشر ہوا۔ پروگرام کے میزبان نے کہا کہ اس گیت میں محمد رفیع کی ساتھی گلوکارہ لتا منگیشکر ہیں۔

کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا کیوں کہ آواز ہوبہو لتا کی تھی۔ نوجوان چارُول بھی یہ پروگرام دیکھ رہی تھیں۔ انھوں نے اسی لمحے نشریاتی ادارے ''پرسار بھارتی'' کے دفتر میں فون کیا اور متعلقہ افسر سے گزارش کی کہ یہ گانا لتا نے نہیں بلکہ ان کی والدہ سمن کلیانپور نے گایا ہے لہٰذا ریکارڈ میں درست کرلیا جائے مگر اس افسر نے یہ کہتے ہوئے ان کی بات پر یقین کرنے سے انکار کردیا کہ آپ غلط کہہ رہی ہیں یہ لتا جی ہی کی آواز ہے۔ سمن کو فلمی موسیقی سے ناتا توڑے کئی برس ہوگئے ہیں۔ اب وہ ممبئی میں واقع اپنے گھر میں مصوری اور کوکنگ سے دل بہلاتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔