عید سے یاد آیا

عید کے تیسرے روز آدھے ملک نے آرام کیا اور آدھے ملک نے خود کو کام میں مشغول رکھا

عید کے تیسرے روز سندھ حکومت نے چھٹی کا اعلان کیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عید کہنے کو تو تین روزہ تہوار ہے مگر یومِ اقبال کی تعطیل کی طرح عید کا تیسرا روز بھی اب صوبوں کے مابین اختلاف کا باعث بن رہا ہے۔

عید کے تیسرے روز سندھ حکومت نے تو چھٹی کا اعلان کیا مگر ڈاکٹر شہباز گل کے مطابق خان صاحب، جو کہ نتھیاگلی میں موجود ہیں، کے دل میں غریبوں اور مسکینوں کا خیال رہ رہ کر آرہا ہے کہ ان کا پہلے ہی کورونا کے باعث بہت معاشی نقصان ہوگیا ہے اور اب عید کے تیسرے روز یعنی پیر کی سرکاری تعطیل انہیں مزید معاشی کرب کا شکار کردے گی۔ ان کے وژن کے مطابق اب عید کے تیسرے روز آدھے ملک نے آرام کیا اور آدھے ملک نے خود کو کام میں مشغول رکھا۔

عید سے یاد آیا کہ یوں تو ہمیشہ عید کے بعد سیاسی افق پر حقیقتاً کبھی نہ رونما ہونے والے واقعات کی پیشگوئیوں سے عید سے پہلے کے ٹاک شوز اور اخبارات کے اداریے بھر دیے جاتے ہیں مگر آج نجانے کیوں دل ہوا کہ عید کے بعد کچھ حقائق پر مبنی تجزیے پیش کر ہی دیے جائیں۔

یوں تو جب یہ تحریر قلم بند ہورہی ہے تو پاکستان میں کورونا کا زور تقریباً ٹوٹ چکا ہے اور گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں صرف چھ اموات ہوئی ہیں، مگر میڈیا اور اپوزیشن سے جب پوچھا جائے کہ آخر یہ نئے کیسز کی تعداد میں کمی کیونکر ہوئی تو اس کا جواب وہ اللہ کی رحمت سے شروع کرکے پاکستانیوں کے احتیاط پر ختم کرتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اللہ کی حقیقی رحمت کے بعد آپ اس کا وسیلہ بننے والی عمران خان کی پالیسیز کو اگر کریڈٹ نہ دیں تو سراسر زیادتی ہوگی۔ آج سوچیے اگر اسپتالوں میں خلق خدا جان سے جارہی ہوتی اور نئے کیسز کی تعداد میں ہزاروں کا اضافہ ہوتا تو یہی حمد و ثنا میں مشغول لوگ آج عمران خان کی ذات پر وہ وہ تنقیدی نشتر برسا رہے ہوتے کہ خدا کی پناہ۔ مگر افسوس ہمارا یہ آزادی کا شوقین میڈیا جو کہ ہر شام لاک ڈاؤن کا راگ الاپتے نہ تھکتا تھا، آج کورونا کی اب تک کی شکست پر حقیقی تعریف کی مستحق شخصیات کو داد دینے میں آزاد نہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی جیت پر یہ کورونا سے زیادہ نادم اور اس وائرس کے یہاں ناکارہ ہونے پر یہ اس کے تخلیق کاروں سے زیادہ شرمندہ ہے۔

شرمندگی سے یاد آیا کہ ابھی چند دن پہلے ووٹ کو تیسری بار عزت دیے جانے پر اپوزیشن اور ان کے حامی بھی شدید نادم ہیں۔ یاد رہے کہ ووٹ کو پہلی بار عزت تب دی گئی جب آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ ایوان کے سامنے لایا گیا اور دوسری بار ووٹ کی عزت افزائی تب ہوئی جب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف ووٹ دینے کےلیے شہباز شریف سے عشائیہ کھانے والوں نے بعد ازاں اندر خانے ضمیر کی آواز پر صادق سنجرانی کو ووٹ دیا۔ یہ تیسری بار عزت ایف اے ٹی ایف کے بلیک لسٹ سے نکلنے کےلیے قانون سازی کے ضمن میں دی گئی۔


ووٹ اور اس کی حرمت سے یاد آیا کہ میاں صاحب لندن میں ہیں اور تازہ ترین اطلاعات جو ان کی حالیہ جمع کرائی گئی رپورٹ سے سامنے آئی ہیں، ان کو ڈاکٹرز نے کورونا کے باعث باہر جانے سے بالکل منع کردیا ہے۔ تاہم اسی لیے ان کی سرجری اور ٹریٹمنٹ ابھی تاخیر کا شکار ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں، جہاں ہمارے قائد انقلاب یعنی نیلسن منڈیلا ثانی مقیم ہیں، وہاں کورونا کا پیک گزر چکا ہے۔ جب کورونا اپنے بام عروج پر تھا تو میاں صاحب کبھی ہوا خوری تو کبھی ڈبل ایکسپریسو کافی پینے بغیر ماسک اور سوشل ڈسٹینسنگ کے باہر گھومتے دکھائی دیتے۔ پیک گزرنے کے بعد میاں صاحب گھر میں قید کردیے گئے۔ مگر خیر ہم بات کررہے تھے ان کے سیاسی نعرے کو پہنائے گئے عملی جامے کی۔

یوں تو حالیہ قانون سازی پر اپوزیشن کی طرف سے یہ دلیل آتی ہے کہ قانون سازی میں جہاں ملک اور قوم کی بات آئے، وہیں تمام تر سیاسی اختلافات کو پگھلا کر ایک ہوجانا چاہیے۔ پگھلنے سے مگر رحمان ملک کی بات یاد آگئی کہ جب ان سے سوال ہوا کہ اپوزیشن رہنما تو ایف اے ٹی ایف کو بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے اور اپنے لیے نیب اصلاحات کی صورت میں رعایت لینا چاہتے تھے تو یہ اچانک بغیر کچھ لیے اپوزیشن کیسے رام ہوگئی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سورج جب پوری آب و تاب سے چمکتا ہے تو تمام گلیشیئر پگھل جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کے داؤ پیچ اگر سمجھنے ہوں تو اسی سورج اور اس کی حدت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ کیونکہ ووٹ کو عزت ہمیشہ اسی کی روشنی اور حرارت میں ملتی ہے اور رہے گی۔

ابھی کہیں میں نے سیاسی داؤ پیچ کا لفظ استعمال کیا اور اسی سے مجھے یاد آیا کہ شیخ رشید کا حالیہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف یہ ضمانت دے کر گئے کہ ان کو عمران خان کے پانچ سال اقتدار میں رہنے سے کوئی مسئلہ نہیں اور انہیں باہر بھیجنے کی صورت میں عمران خان بے شک اپنے اقتدار کا دورانیہ مکمل کریں، وہ حکومت گرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے۔

ویسے شیخ رشید ہی سے مجھے یاد آیا کہ انہوں نے عیدالفطر کے بعد کے سیاسی حالات کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیب ٹارزن بن جائے گا، دونوں طرف جھرلو پھرے گا، صرف آئی پی پیز والے بچ جائیں گے اور باقی سب کیسز کو ٹائر لگ جائیں گے۔ مگر پوچھنا یہ تھا کہ یہاں نیب کو ہی اپنی جان کے لالے پڑگئے، نہ اس طرف جھاڑو پھیرا گیا نہ دوسری طرف، نہ شہباز ضد میں آئے اور نہ ہی پرویز خٹک پر آنچ آئی، نہ رائے ونڈ اراضی، نہ مالم جبہ کیس کی کوئی خبر ہوئی، نہ احتساب کا کوئی پتہ چلا اور نہ ہی بھل صفائی ہوئی۔

صفائی ہی سے یاد آیا کہ کل چونکہ لاہور میں بارش ہوئی اور سوشل میڈیا پر جگہ جگہ کھڑے پانی کی تصاویر وائرل ہوئیں تو اب پیپلزپارٹی میں عمومی تاثر یہ ہے کراچی میں صفائی کرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں اور جب جب اعتراض اٹھایا جائے تو لاہور کی تصاویر دکھا کر چپ کروا دیا جائے۔ ذکر شروع ہوا تھا عید کے تیسرے روز کی تعطیل سے مگر ختم کراچی کے پانی میں تیرتے گھروں کے سامان پر ہوا۔ یہ عید نے بھی کیا کیا یاد دلا دیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story