سندھ میں کپاس کی پیداوار پنجاب کے مقابلے میں 100 فیصد سے تجاوز کرگئی
پنجاب کے کاٹن بیلٹ میں گلابی سنڈی پر قابو نہ پانے کی وجہ سے کاشتکاروں کا مستقبل داوپر لگنے کا خدشہ
کپاس کے پیداواری سال 2019-20 کے سیزن کے دوران پنجاب کے کاٹن بیلٹ میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوارکا حجم تاریخ کی کم ترین سطح تک گھٹنے کے باعث سندھ میں فی ایکڑکپاس کی پیداوار پنجاب کے مقابلے میں 100فیصد سے تجاوز کرگئی ہے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ کاٹن ایئر2019-20 کے دوران پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار حیران کن طور پر صرف 86/87لاکھ گانٹھ تک گرگئی تھی جس کی بڑی وجہ پنجاب میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں غیر معمولی کمی تھی جس کے باعث پاکستان کو گزشتہ برس بیرونی ممالک سے کپاس کی 25لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ درآمد کرنا پڑی تھیں۔
ذرائع کے مطابق کاٹن ایئر2019-20 کے دوران پنجاب میں مجموعی طور پر 48لاکھ 50ہزار ایکڑ پر کپاس کاشت کی گئی تھی اور پنجاب میں کل 51لاکھ 25ہزار گانٹھ (160کلو گرام) روئی جننگ فیکٹریوں میں پہنچی تھی جو فی ایکڑ صرف 12.08من پیداوار کی نشاندہی کرتی ہے جب کہ سندھ میں مذکورہ سال کے دوران مجموعی طور پر 14لاکھ 97ہزار ایکڑ پر کپاس کاشت کی گئی تھی جس سے روئی کی کل 34لاکھ 75ہزار گانٹھ (160کلو گرام) جننگ فیکٹریوں میں پہنچی تھیں جو فی ایکڑ 25.70من پیداوار کی نشاندہی کرتی ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ پنجاب میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں غیر معمولی کمی کی بڑی وجہ گلابی سنڈی کا کپاس کی فصل پر غیر معمولی حملوں اور کاٹن زونز مین گنے کی زیادہ کاشت کے باعث پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے باعث کپاس کی فی ایکڑ پیداوار اور معیار متاثرہونے سے فی ایکڑ پیداوار میں ریکارڈ کمی واقع ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے کپاس کی فصل پر حملہ آور ہونے والی گلابی سنڈی کے مکمل تدارک کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ اٹھائے تو پنجاب میں کپاس کی فصل غیر معمولی طور پر متاثر ہو سکتی ہے جس سے پاکستانی ٹیکسٹائل ملز کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اربوں ڈالر مالیتی روئی درآمد کرنی پڑے گی جس سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ملکی معیشت کو بچانے کے لئے کاٹن زونز میں گنے کی کاشت نہ ہونے بارے قوانین پر سکتی سے عمل درآمد کروایا جائے تاکہ پاکستان میں حقیقی معنوں میں سبز انقلاب آسکے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ کاٹن ایئر2019-20 کے دوران پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار حیران کن طور پر صرف 86/87لاکھ گانٹھ تک گرگئی تھی جس کی بڑی وجہ پنجاب میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں غیر معمولی کمی تھی جس کے باعث پاکستان کو گزشتہ برس بیرونی ممالک سے کپاس کی 25لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ درآمد کرنا پڑی تھیں۔
ذرائع کے مطابق کاٹن ایئر2019-20 کے دوران پنجاب میں مجموعی طور پر 48لاکھ 50ہزار ایکڑ پر کپاس کاشت کی گئی تھی اور پنجاب میں کل 51لاکھ 25ہزار گانٹھ (160کلو گرام) روئی جننگ فیکٹریوں میں پہنچی تھی جو فی ایکڑ صرف 12.08من پیداوار کی نشاندہی کرتی ہے جب کہ سندھ میں مذکورہ سال کے دوران مجموعی طور پر 14لاکھ 97ہزار ایکڑ پر کپاس کاشت کی گئی تھی جس سے روئی کی کل 34لاکھ 75ہزار گانٹھ (160کلو گرام) جننگ فیکٹریوں میں پہنچی تھیں جو فی ایکڑ 25.70من پیداوار کی نشاندہی کرتی ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ پنجاب میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں غیر معمولی کمی کی بڑی وجہ گلابی سنڈی کا کپاس کی فصل پر غیر معمولی حملوں اور کاٹن زونز مین گنے کی زیادہ کاشت کے باعث پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے باعث کپاس کی فی ایکڑ پیداوار اور معیار متاثرہونے سے فی ایکڑ پیداوار میں ریکارڈ کمی واقع ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے کپاس کی فصل پر حملہ آور ہونے والی گلابی سنڈی کے مکمل تدارک کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ اٹھائے تو پنجاب میں کپاس کی فصل غیر معمولی طور پر متاثر ہو سکتی ہے جس سے پاکستانی ٹیکسٹائل ملز کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اربوں ڈالر مالیتی روئی درآمد کرنی پڑے گی جس سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ملکی معیشت کو بچانے کے لئے کاٹن زونز میں گنے کی کاشت نہ ہونے بارے قوانین پر سکتی سے عمل درآمد کروایا جائے تاکہ پاکستان میں حقیقی معنوں میں سبز انقلاب آسکے۔