کراچی کی صفائی کا مینڈیٹ

ایڈیٹوریل  منگل 4 اگست 2020
بات صرف نالوں کی صفائی کی نہیں ہے، کراچی کے ماضی کے حوالہ سے نئی ڈیبیٹ شروع ہوسکتی ہے۔ (فوٹو، فائل)

بات صرف نالوں کی صفائی کی نہیں ہے، کراچی کے ماضی کے حوالہ سے نئی ڈیبیٹ شروع ہوسکتی ہے۔ (فوٹو، فائل)

کراچی کے ڈرینیج سسٹم (نکاسی کے نظام) کو ٹھیک کرنے کے لیے وزیر اعظم نے سمری پر دستخط کر دیے، گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ کراچی کی حالیہ بارشوں میں بلدیاتی ادارے ناکام ہوگئے، وفاق اب مزید انتظار نہیں کرسکتا، کراچی کی صفائی میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی، وزیر اعظم نے این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کو ٹاسک دے دیا ہے جس میں پاک فوج بھی حصہ لے گی۔

کراچی کو درپیش بلدیاتی مسائل اور چیلنجز کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا شہر قائد کے مسائل کا حل کسی ایک ادارہ، مقامی حکومت یا صوبائی انتظامیہ کے پاس ہے یا کسی کے پاس سندھ حکومت اور کراچی کے مسائل کا حل نہیں ہے، میڈیا کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کا ڈرینیج سسٹم بہتر بنانے کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو ٹاسک دیا ہے۔

حقیقت میں یہ ٹاسک یا مینڈیٹ بنیادی طور پر کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، سٹیک ہولڈرز سے کراچی اور سندھ کے لوگ اس اخلاقی بنیاد moral ground کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں کہ کیا شہر کی صفائی ستھرائی مقامی حکومتوں کا کام نہیں، کیا سندھ حکومت اور صوبائی انفرااسٹرکچر کی حدود میں یہ اہم ترین کمٹمنٹ نہیں آتی اگر کراچی کے نالے کوئی اور ادارہ صاف کرانے میں کامیاب ہوتا ہے تو سیاسی جماعتوں کے ووٹرز اور سول سوسائٹی کس کو اس اجتماعی سیاسی ناکامی کا ذمے دار ٹھہرائیگی؟ پھر تو ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ میئر کراچی کوئی ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں، وہ صرف اپنی بے اختیاری پر آنسو بہاتے اور اخباری بیانات دیتے ہیں۔

دوسری طرف صوبہ سندھ کے عوام اور اہل کراچی نے آئینی اور قانونی معاملات اٹھاتے ہوئے یہ موقف اختیار کرلیا کہ اگر نالوں کی صفائی میں مقامی حکومت یا سندھ حکومت محض تماشائی کا کردار ادا کریں گی تو نتیجہ کیا ہوگا، اس امکانی بلدیاتی منظر نامہ پر غور کریں کہ وفاق اور وزیر اعظم کے ایک فیصلہ پر کراچی کے سارے بڑے برساتی نالے صاف ہوگئے، ڈمپروں نے کچرا، غلاظتوں کے ڈھیر شہر سے دور جاکر پھینک دیے اور کراچی کا حسن نکھر آیا تو سیاسی جماعتوں کی سیاسی حیثیت زیر بحث آسکتی ہے۔

کراچی کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے دعوے پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور اس سے قبل ایم کیو ایم نے بھی کیے تھے، کئی بنیادی سوالات شہر میں ماحولیات، فضائی آلودگی، کرائم، دہشتگردی، بیروزگاری، مہنگائی، کورونا، نکاسی و فراہمی آب، ٹرانسپورٹ و صنعتی ترقی اور آبادی کے پھیلاؤ کے بھی اٹھ سکتے ہیں، صوبہ سندھ کی سیاسی حرکیات اور وفاق و صوبہ سندھ کے درمیان جاری دردناک سیاسی چپقلش کا سیاق و سباق بھی ارباب اقتدار کے پیش نظر رہنا چاہیے۔

بات صرف نالوں کی صفائی کی نہیں ہے، کراچی کے ماضی کے حوالہ سے نئی ڈیبیٹ شروع ہوسکتی ہے۔ جس انگریز سامراج کو گالیاں دیتے ہوئے ارباب اختیار اور بااثر سیاسی ادارے تھکتے نہیں کیا انھیں وہ بلدیاتی عمارتیں، اسپتال، کالجز، مالیاتی اداروں، عدلیہ و مادر علمی کی مضبوط عمارتیں نظر نہیں آتیں، وہ سسٹم جو انگریز دے کر گیا ہے۔

اس کی استقامت کسی کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں۔ کیا پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز بجٹ اور حکومت کے فنڈز کے بہتر اور مناسب و فوری استعمال سے کراچی کی تقدیر نہیں بدل سکتے تھے، وہ سرکاری فنڈز کہاں گئے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی دسترس میں تھے، بلاشبہ نالوں کی صفائی کی حالیہ کارروائی کے دوران قومی و صوبائی اسمبلی کے جملہ اراکین کا جمہوری مینڈیٹ مکالمہ کی بنیاد بن سکتا ہے یا سندھ حکومت کو ناکام بنانے کے الزام پر مختلف پلیٹ فارم سے جمہوری مباحث شروع ہوئے تو عوام کو کون مطمئن کریگا؟ لوگ باتیں کریں گے فوج کو کیوں نالوں کی صفائی پر لگا دیا، یہ کام تو بلدیاتی اداروں کا تھا، میئر کراچی کا تھا۔

میئر کراچی وسیم اختر نے کراچی کے تمام مسائل کا حل آئین کے آرٹیکل 140 اے کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ آیندہ بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کی نگرانی میں کروائے جائیں بصورت دیگر کراچی کے مسائل کبھی حل نہیں ہوسکیں گے۔ یہ بات انھوں نے گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ عمران خان نے مجھے کراچی کے معاملات کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد طلب کیا تھا، میئر کراچی اور دیگر ارکان اسمبلی سے مشاورت کے بعد کچھ تجاویز وزیر اعظم کو پیش کی تھیں، تاہم کراچی کی جدلیاتی صورتحال اور اس کی سیاسی حساسیت کو پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے۔ ارباب اختیار کو بہر حال دوراندیشی اور وژن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔