’کورونا‘ اور خواتین پر تشدد میں اضافہ

ندا جمیل  منگل 4 اگست 2020
حکومت نے بے شمار عالمی معاہدے طے کر رکھے ہیں، جن کے مطابق خواتین کے استحصال کا خاتمہ کرنا ہے۔فوٹو : فائل

حکومت نے بے شمار عالمی معاہدے طے کر رکھے ہیں، جن کے مطابق خواتین کے استحصال کا خاتمہ کرنا ہے۔فوٹو : فائل

پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے، مگر اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

اگرچہ آئین پاکستان خواتین کے تمام حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور اس حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں، مگر اس کے باوجود آج بھی بڑی تعداد میں خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ خواتین کو درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ تشدد ہے۔ تشدد خواہ ذہنی، معاشی ، جسمانی ہو یا احساسات کو مجروح کرنا ہو، تعلیم یافتہ خاتون سے لے کر ان پڑھ عورت تک اور معاشی طور پر مستحکم خاتون سے لے کر غریب عورت تک، سب کو ہی کسی نہ کسی شکل میں ’تشدد‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ ہونے والے کیس اور مختلف سروے رپورٹس کے مطابق ہر سال خواتین پر تشدد کے ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہیں، جب کہ زیادتی، غیرت کے نام پر قتل و دیگر مظالم کی صورت حال بھی افسوس ناک ہے۔ کورونا وائرس کے آغاز سے ہی ملک میں کافی پریشانی کا ماحول رہا۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر لاک ڈاؤن کیا گیا تو اس سے کاروبار زندگی بھی مفلوج ہوا۔

ایسے میں خواتین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، کیوں کہ والد، خاوند، بھائی، بیٹے و گھر کے دیگر مردوں کی 24 گھنٹے گھر میں موجودگی سے انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کو ان کی ہیلپ لائن 15 پر موصول ہونے والی کالز کے مطابق خواتین پر گھریلو تشدد کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔ ’پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی‘ کے ڈیٹا کے مطابق پنجاب بھر سے جنوری میں خواتین پر تشدد کے خلاف دو ہزار 96 کالیں موصول ہوئیں۔

فروری میں دو ہزار 360، مارچ میں دو ہزار 853، اپریل میں تین ہزار 79، جب کہ مئی میں تین ہزار 90 کالیں موصول ہوئیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنوری سے مئی تک ان واقعات میں 30 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ رپورٹ نہ ہونے والے کیس کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے اور آگاہی کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن‘‘ بھی منایا جاتا ہے، جس کا مقصد معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنا ہے اور مختلف ممالک پر زور دینا ہے کہ وہ اس حوالے سے اقدامات کریں۔ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے موثر قانون سازی کی اور ادارے بھی قائم کیے ہیں، جن سے کچھ بہتری آئی ہے تاہم ابھی بھی تشدد کے افسوسناک واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور اب ان کے رجحان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

خواتین کے مسائل کے حل اور حقوق و تحفظ کے حوالے سے اسمبلیوں نے قانون سازی کی ہے، مگر بدقسمتی سے خواتین کے حوالے سے اقدامات کے لیے مناسب بجٹ نہ رکھنے اور قوانین پر موثر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ابھی تک تشدد کی روک تھام میں خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو سکا۔ ہمارے ملک میں جزا و سزا کا نظام درست نہیں ہے۔ تیزاب گردی، زیادتی، غیرت کے نام پر قتل و دیگر جرائم ہوتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ان مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا گیا؟ تیزاب گردی اور زیادتی جیسے جرائم سے صرف جسم ہی متاثر نہیں ہوتا، بلکہ روح بھی ہمیشہ کے لیے متاثر ہوتی ہے۔

افسوس ہے کہ خواتین کو انصاف کے حصول کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ’ایف آئی آر‘ سے لے کر عدالت تک انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ عدالتوں و دیگر اداروں میں ویمن فرینڈلی ماحول ہی نہیں ہے۔ اس حوالے سے قانون ساز اداروں میں موجود افراد کو تربیت دی جائے، ان کی سوچ اور رویہ تبدیل کیا جائے۔ حکومت نے وفاقی خاتون محتسب، ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن جیسے ادارے قائم کر رکھے ہیں، مگر وسائل اور کمٹمنٹ کی کمی کی وجہ سے یہ درست کام نہیں کر رہے۔ صورت حال تو یہ کہ گزشتہ ایک برس سے ’پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن‘ کی کوئی سربراہ ہی نہیں ہے، یہ ادارہ بغیر سربراہ کے ہی کام کر رہا ہے اور اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

خواتین پر تشدد سے بچاؤ کے قانون مجریہ 2016ء کے تحت تشدد کا شکار خواتین کو ایک ہی چھت تلے خدمات کی فراہمی کا واحد مرکز ملتان میں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے ادارے ہر ڈویژن اور ہر ضلع کی سطح پر قائم کرے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین پر تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں، مگر وہاں ادارے بروقت ایکشن لیتے ہیں۔ وہاں ملزمان کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے اور متاثرین کی دادرسی بھی جس سے  لوگوںکا اپنے اداروں پر اعتماد بڑھتا ہے، مگر ہمارے ہاں ادارے بروقت ایکشن نہیں لیتے، جس کی وجہ سے مسائل زیادہ ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ صرف ادارے ہی قائم نہ کرے، بلکہ ان کی سرپرستی کرے، انہیں وسائل فراہم کرے تاکہ یہ اپنا کام موثر طریقے سے سرانجام دے سکیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ 2020ء کے مطابق 153 ممالک میں سے پاکستان 151 نمبر پر ہے، اس سے خواتین کے حقوق اور ملکی ترقی میں ان کی شمولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

حکومت نے بے شمار عالمی معاہدے طے کر رکھے ہیں، جن کے مطابق خواتین کے استحصال کا خاتمہ کرنا ہے۔ سیڈا کنونشن کے تحت ہم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ موثر قانون سازی کریں گے، تاکہ خواتین کے خلاف تشدد نہ ہو۔ ہم نے پائیدار ترقی کے اہداف پر کام کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ جی ایس پی پلس میں بھی ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ورکنگ ویمن کو سازگار و محفوظ ماحول فراہم کریں گے۔ دنیا میں ترقی کو خواتین کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، لہٰذا خواتین کی شمولیت کے بغیر ہم ترقی کے اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔ اب صرف تعلیم یا صحت پر بات نہیں ہوتی، بلکہ اس میں خواتین کی تعلیم اور صحت پر بھی بات ہوتی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم گلوبل ویلیج میں تنہا نہیں رہ سکتے۔

اب ممالک کی درجہ بندی کو صنفی مساوات سے جوڑ دیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں جینڈر بیسڈ گورننس کے ماڈل کی جانب بڑھنا ہوگا۔ جب ہم خواتین پر تشدد کی بات کرتے ہیں تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس سے صرف خواتین ہی متاثر نہیں ہوتی، بلکہ معاشرہ ،ملک اور دنیا متاثر ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے، تو اس لحاظ سے ہمارا پلان آف ایکشن بھی انتہائی مضبوط ہونا چاہیے، تاکہ نصف آبادی کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی خوش حالی اور امن خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے سے مشروط ہے۔ جب خواتین مستحکم ہوں گی تو ملک بھی ترقی کرے گا، لہٰذا اس حوالے سے جامع پالیسی بنائی جائے، قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، آگاہی مہم چلائی جائے اور معاشرے میں خواتین کے احترام کا پہلو اجاگر کیا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔