دنیا کی سب سے بڑی جیل اور اس کے قیدی
مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون کو ایک سال مکمل ہونے پر گزشتہ روز ملک بھر میں یوم استحصال کشمیر منایا گیا۔
الحمد للہ عید الاضحی کے ایام خیر و عافیت سے گزر گئے، دنیا بھر میں مسلمان جہاں کہیں بھی آباد تھے انھوں نے کورونا وباء کے باوجود ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے نا صرف عید کے نماز پڑھی بلکہ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے قربانی کا اہتمام بھی کیا، لیکن مقبوضہ کشمیر دنیا کا واحد ایسا خطہ ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود عید کی نمازنہ پڑھ سکے اور نہ ہی سنت ابراہیمی ادا کرسکے۔
بھارت کی مودی سرکار نے عید سے چند روز قبل ایک حکم نامے کے ذریعے نماز عید کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی اور مساجد و عید گاہوں کو تالے لگا دیے۔ بھارت کی انتہا پسند اور دہشت گرد مودی سرکارنے مقبوضہ کشمیر کوگزشتہ ایک سال سے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے۔
پانچ اگست 2019ء کو بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں مکمل لاک ڈاون لگا کر پوری وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیااور کشمیریوں کو اس جیل کا قیدی بنا دیا گیا۔ کشمیری گزشتہ ایک سال سے اپنے گھروں میں قید ہیں۔ بھارتی سرکار کی ایماء پرکشمیر پر قابض آٹھ لاکھ ہندوستانی فوج انسانی حقوق کی بد ترین پامالیاں کررہی ہے، کشمیر کے مسلمانوں پر عر صئہ حیات تنگ کرنے کے لیے ہر اوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا جارہا ہے، کشمیری نوجوانوں کا قتل عام ہورہا ہے، خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے، بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران بھارت کی قابض فوج نے ظلم و بربریت کی ایسی داستانیں رقم کیں جن کی مثال انسانی تاریخ دینے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ365 دنوں میں لاک ڈاون کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں دو سو سے زائد کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، پندرہ سو سے زائد بھارتی فوج کے مظالم سے زخمی ہوئے، درجنوں خواتین کی آبروریزی کی گئی اور سیکڑوں گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہے۔
ہمسایہ ملک سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مودی سرکار غیر ریاستی افراد کو وادی میں زمین خریدنے کی طرف راغب کرنے اور ہندو بستیوں کی آباد کاری کے مشن پر ہے۔ اس سے قبل مودی سرکار نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اے اور 35 اے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی، مودی حکومت کی جانب سے اب مقبوضہ وادی میں غیر ریاستی افراد کو بسانے کا گھناؤنا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ منصوبے کے تحت انتہا پسند جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت مقبوضہ وادی کے 18 شہروں میں 6 ہزار ایکڑ اراضی ہندوؤں کو فروخت کرے گی۔ اس زمین کا بڑا حصہ کشمیریوں کی بینکوں میں ضبط شدہ جائیدادوں پر مشتمل ہے۔
مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ وادی میں زمین خریدنے کے لیے سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات، آسان قرضے اور ٹیکسوں میں چھوٹ کا لالچ دیا جارہا ہے۔ یہ اقدام اس بات کی دلیل ہیں کہ بھارت ایک ایسا بدمست ہاتھی بن چکا ہے جو پورے جنگل کے لیے خطرہ ہے، اسے نہ عالمی قوانین کی کوئی پرواہ ہے نہ ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی۔ بدقسمتی سے اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ڈیڑھ لاکھ سے زائد کشمیریوں کا لہو بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ نہ سکا۔ صرف ایک پاکستان ہی ہے جو کشمیریوں کی نگاہوں کا مرکز ہے۔
ہر پاکستانی کا دل اہل کشمیر کے ساتھ دھڑکتا ہے، ہر پاکستانی کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو خود پر محسوس کرتا ہے، یہ مبالغہ آرائی نہیں ایک حقیقت ہے کہ حکومت آج اگر جہاد کشمیر کا اعلان کردے تو سیکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں نوجوان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے میدان عمل میں نظر آئیں گے لیکن پاکستان نے ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کیا ہے، امن کی بات کی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے دشمن کو امن کی بھاشاسمجھ نہیں آتی، وہ لاتوں کا بھوت ہے، باتوں سے ماننے والا نہیں۔ رافیل طیارے آنے سے بد مست ہاتھی اور بھی بدمست ہوتا نظر آہا ہے، ممکن ہے کوئی مہم جوئی کر ڈالے، لیکن پاکستان کا دفاع الحمدللہ مضبوط ہے، ایک بھی رافیل طیارہ غلطی سے بھی سرحد پار کرگیا تو کچرے کا ڈھیر بن جائے گا جسے کباڑی لوہے کے بہاؤ خریدیں گے۔
دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ کشمیر تقسم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر در حقیقت اسی تحریک پاکستان کا حصہ ہے جس نے ہندوستان کو تقسیم کیا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی صورت یہ ہے کہ جب ہندوستان کے کروڑوں عوام کو حق خود ارادیت ملا اس وقت کشمیری عوام کو بھی یہ حق ملنا چاہیے تھا لیکن کشمیری عوام کو اس حق سے محروم رکھا گیا حالانکہ کشمیری عوام نے 1931ء سے ہی اپنے حقوق کی تحریک حریت شروع کردی تھی جس کی حمایت علامہ اقبال اور دیگر سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی سرکردگی میں مسلم انڈیا نے کی تھی۔ بعد ازاں 14 اگست 1947کو جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تھا اس وقت ریاست جموں و کشمیر میں تحریک پاکستان کے نام سے ایک مسلح جہاد شروع ہوا جو پورے پندرہ ماہ جاری رہا۔ جس کے نتیجے میں 32 ہزار مربع میل ریاست آزاد ہوئی جسے آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان کہا جاتا ہے۔
اس طرح ناصرف تاریخی تسلسل اور جغرافیائی اعتبار سے کشمیر کی پاکستان کے ساتھ لازوال وابستگی کا پتا چلتا ہے بلکہ ایک مسلح جہاد کے ذریعے کشمیر کے عوام نے پاکستان کے حق میں اپنی رائے کا اظہار بھی کیا۔ یہ ایک وژن تھا، ایک راستہ تھا جو کشمیریوں نے اپنے عمل سے دکھایا کہ کشمیر کا مسئلہ صرف ووٹ یا مذاکرات سے حل ہونے والا نہیں اس کے لیے جہاد کا راستہ بھی اپنانا پڑے گا۔کشمیر کی آزادی کے لیے تین نسلوں کی قربانیوں کے باوجود اہل کشمیر کے حوصلے جواں ہیں، آج بھی اہل کشمیر بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے دونوں راستے اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مقبول بٹ کے شہادت کے بعد برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادء کشمیر کو نیا ولولہ دیا۔ یہ مسلح جدوجہد بھارت کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے جسے بات چیت کی زبان سمجھ نہیں آتی، آج جو مذاکرات سے بھی بھاگ رہا ہے 1948ء میں وہ خود مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لے کر گیاجہاں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ موقف کی بنیاد پر یہ طے ہوا کہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا حق دیا جائے گااور اسی تصفیہ کے تحت یکم جنوری 1949ء کو جہاد آزادی روک دیا گیا۔ آج اس بات کو 70 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور آج بھی ہم وہیں کھڑے ہیں۔کشمیری اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹے نہ پاکستان نے کشمیریوں کو تنہا چھوڑا۔
مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون کو ایک سال مکمل ہونے پر گزشتہ روز ملک بھر میں یوم استحصال کشمیر منایا گیا۔ حکومت ہی نہیں اپوزیشن جماعتوں نے بھی جلسے جلوس اور ریلیوں کا انعقاد کرکے جہاں اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا وہاں بھارتی حکومت کے اس ظلم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ پاکستان کے عوام نے ایک بار پھر بھارت کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کل بھی کشمیریوں کے ساتھ تھاآج بھی ساتھ ہے اور کشمیر کی آزادی تک ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ پوری قوم مسئلہ کشمیر پر ایک پیج پر ہے اور پوری قوم کا ایک ہی موقف ہے کہ دنیا کے اس دیرینہ مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے حل کیا جائے۔
اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت تمام عالمی اداروں اور عالمی برادری کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے، جس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے بھارتی حکومت کی جانب سے استعمال کیے جارہے ہیں، اور بار بار پاکستان کو اشتعال دلانے کی کوشش ہورہی ہے، ان کی باعث کسی بھی وقت دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے، دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتی ہیں، اگر جنگ ہوئی تو وہ صرف پاکستان اور بھارت تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی، اس لیے خاموش تماشائی بننے کے بجائے بھارت کی انتہا پسندی کو لگام ڈالی جائے اور مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔