چراغ یادوں کے آخری قسط
حکومتی حکمت عملی کے پیش نظر چند دنوں کے بعد یہ حکم آیا کہ تمام طلبا منتشر کرکے الگ الگ جیلوں میں رکھے جائیں گے۔
صبح ہوئی تو مختلف علاقوں سے جو لڑکے پکڑے گئے تھے، ان کو کورٹ میں پیش کیا گیا۔ کورٹ میں ہر ایک لڑکے کے ہاتھ میں ان کے جرائم کا صفحہ تھما دیا گیا۔
میرے ہاتھ میں بھی ایک صفحہ آیا جس پر یہ لکھا تھا کہ آٹھ جنوری 1970 کی صبح سو سے زائد لڑکوں کا ٹولہ ڈی جے سائنس کالج میں داخل ہوا، اس نے توڑ پھوڑ کی، پرنسپل انصاری کو یرغمال بنایا اور اپنی من مانی کرتا رہا۔ گوکہ آٹھ جنوری 1970 کو رشید گروپ کا کوئی نمایندہ ڈی جے سائنس کالج میں شریک نہ تھا۔ پھر بھی ان کے تمام کلیدی کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ہمارا گروپ کاظمی گروپ (روس نواز) تھا۔
سب سے پہلے امیر حیدر کاظمی کا نام پکارا گیا وہ پیش ہوئے اور ان کو چھ ماہ کی سزا سنائی گئی۔ پھر طارق فتح کا نام آیا۔ انھیں بھی چھ ماہ کی سزا سنائی گئی۔ خالد شیخ کا نام پکارا گیا تو ان کا بھی یہی انجام ہوا۔ لیکن جب میرا نام پکارا گیا تو میں نے ہاتھ میں پرچہ لے کر منصف صاحب سے کہا کہ جو بھی اس میں تحریر ہے وہ سراسر دروغ گوئی ہے۔ کیونکہ ہم کالج کی انتظامیہ کی اجازت سے ایک پرامن جلسہ منعقد کرچکے تھے میرے بحث کرنے پر منصف صاحب کو غالباً طیش آگیا اور انھوں نے مجھے نو ماہ کی سزا سنائی۔ سزا سنتے گئے اور پولیس ہتھکڑیاں ڈالتی گئی۔ اور ہم سب لوگوں کو یکے بعد دیگرے پولیس کی بند گاڑی میں بٹھا کر کراچی سینٹرل جیل لایا گیا بعد میں عبدالباری خاں اور رشید گروپ کے ارکان کو بھی کراچی سینٹرل جیل پر اتارا گیا۔
یہ خوبصورت اور قلعہ نما جیل جس میں، میں دوسری مرتبہ داخل ہوا پہلی مرتبہ اپنے ایک کلاس فیلو ریاض مصطفیٰ کے ساتھ جوکہ جیلر کا بیٹا تھا اس کے گھر جیل آیا تھا۔ جہاں جیل کے کارکن بہت عزت اور احترام سے پیش آ رہے تھے۔ واپسی میں میرے دوست نے مجھ کو تھیلا بھر کر املیاں اور کٹارے دیے جو میں نے گھر آکر اپنے محلے میں بانٹ دیں۔ اندر داخل ہوتے ہی املی کے تقریباً سو سالہ درختوں پر نظر پڑی تو میں ماضی کے آئینہ خانے میں چلا گیا۔ اور کچھ بھی نہ یاد رہا۔ اس پر پولیس والے نے ناراض ہوکر کہا کہ ''بھائی کیا سوچ رہے ہو؟ ڈر گئے؟ رونے والے ہو؟ ''میں نے کہا کہ نہیں کچھ پرانی باتیں یاد آگئیں۔ پولیس کے پہرے میں سب طلبا جیل میں داخل ہوئے۔
ہمیں بی کلاس کی بیرکوں میں رکھا گیا کمرے صاف ستھرے تھے جن میں کھانا پکانے کے برتن اور الیکٹرک چولہا بھی موجود تھا۔ ہمارے بیرک میں جو کمرہ نما تھا اس میں سات طلبا تھے اور ہم سب میں عمر میں سب سے بڑے امیر حیدر کاظمی تھے۔اور پڑوس کی بیرک میں جو ہم سے ملا ہوا تھا، اس میں نو طلبا تھے۔ جن میں ڈاکٹر رشید حسن خان تھے۔ میں نے جب کمرے میں موجود ایک پولیس مین سے پوچھا کہ قیدیوں کو طاق عدد میں کیوں رکھا جاتا ہے جب کہ جفت عدد میں بھی رکھے جاسکتے تھے۔ تو اس نے بتایا کہ یہی جیل کے اصول ہیں کہ قیدیوں کو طاق نمبر میں رکھا جائے اس سے آپس میں لڑائی جھگڑے اور فساد نہیں ہوتے۔ شام کو لوگوں کے عزیز و اقارب اور احباب ملاقات کے لیے جو مین گیٹ کے قریب کمرہ ہے وہاں آتے رہے۔
ملاقات کے کمرے کو جیل کی زبان میں ''ماڑی ''کہا جاتا ہے۔ بہرحال ہر لڑکے نے اپنے ملنے والے کو اپنی ضروریات دکھا دیں۔ مجھ سے امیر حیدر کاظمی نے کہا کہ تم بھی اپنے ملنے والوں سے اپنی ضروریات لکھوا دینا۔ گھر سے تکیے اور کمبل کے علاوہ شیونگ کا سامان اپنے ایک ذاتی اور سیاسی دوست نظام الدین کو لکھوا دیں جن میں شیونگ کا سامان بھی تھا۔ کیونکہ بقول کاظمی صاحب اور دوسرے لوگوں کے مجھے بھی داڑھی کا سامنا تھا اور یہ میری زندگی کا پہلا شیو تھا۔ والدہ بھی مجھ سے ملنے آئیں انھوں نے کہا کہ کیا مکان کے کاغذات رکھوا کر تمہاری ضمانت ہو سکتی ہے۔
اس پر میں نے جواب دیا کہ نادان حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک اس طرح ختم ہو جائے گی۔ جب کہ ہم نے اپنے دوستوں سے کہہ رکھا تھا کہ جیل بھرو تحریک کا آغاز کرو۔ دفعہ 144 لگی ہوئی ہے جلوس تو نکل نہیں سکتے، بسوں میں کھڑے ہوکر یہی اعلان کرو کہ تمہارے بچے جیلوں میں بھرے جا رہے ہیں کیونکہ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فیسوں میں کمی کرو۔ یہ سن کر امی مطمئن ہوگئیں کہ عنقریب میرا بیٹا رہا ہو ہی جائے گا۔
دوسرے روز سب کے گھروں سے سامان آیا اور کتابیں بھی آئیں۔ کتابیں پڑھنا لڑکوں کا شیوہ تھا۔ بند کمرے میں اور کیا کرتے۔ جب کاظمی نے کہا میاں شیو کیوں نہیں کرتے کیا ملّا بن رہے ہو، تو نظام کے لائے ہوئے شیونگ سامان سے شیو کرنا شروع کیا۔ شیو ڈرتے ڈرتے چھوٹے چھوٹے اسٹروک میں چلا رہا تھا۔ تو کاظمی نے ریزر پکڑ کر شیو کرنا سکھایا کہ ریزر کو اس طرح لمبائی میں لے کر جاؤ۔ شام کو دروازوں کے پٹ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے لیے کھل گئے تو مختلف بیرکوں کے لڑکے آپس میں ملے۔ دور دور رہنے والے لڑکوں میں اچھی ملاقات اور بات چیت ہوئی۔
یہ سردیوں کے دن تھے۔ شام کو پھر سیٹی بجی اور لوگ اپنے اپنے کمروں میں جانے لگے تمام کمروں کو بند کرکے جیل کے ملازمین سے یہ آواز بلند ہوئی۔ سب خیر آ۔۔۔۔ٹوٹل پورو۔۔۔۔رات کے وقت کمرے میں تاش نکالے گئے اور دوستوں نے کہا جن میں طارق فتح نے کہا کہ ایک بازی ہوجائے۔ مسٹر کاظمی نے مجھ سے بھی کہا کہ معمولی تاش کا دور شروع ہو رہا ہے۔
انیس! تم بھی ہاتھ لگاؤ میں نے جواب دیاکہ مجھے نہیں آتا۔ تمام دوست اس پر ہنسے اور انھوں نے کہا کچھ دیر بیٹھو سب آجائے گا۔ دماغ ابھی تیار ہی ہو رہا تھا کہ تاش کھیلنا سیکھ لیا جائے مگر اپنی دادی کا یہ قول یاد آگیا کہ بیٹا! کبھی تاش نہ کھیلنا کیونکہ یہ وقت کا زیاں اور تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ لہٰذا 74 سال کا ہونے کے باوجود مجھے آج تک تاش کھیلنا نہیں آیا۔ جیل میں یوں ہی دن گزرتے رہے۔ ہمارے دونوں گروپوں کے لڑکے آپس میں ایک دوسرے کو کنوینس کرتے رہے، قربت بڑھتی رہی۔
اس رہائش میں ناشتہ تو مل ہی جاتا تھا جس میں سلائس، مکھن اور انڈہ ہوتا تھا۔ مگر جیل کے کھانے سے انکار پر ہمیں راشن دیا جاتا تھا اور ہر کمرے میں ایک لڑکا شیف بن جاتا تھا اور باقی مددگار۔ میں نے کھانا پکانا امیر حیدر کاظمی سے سیکھا جو بہاری کباب، دال چاول اور کھچڑی بناتے تھے۔ اس کے علاوہ شام کو تمام بیرکوں کے لڑکوں کو چائے نوش کرواتے تھے۔
ان کا رویہ بالکل ایسا ہی تھا جیساکہ کسی گھر میں بڑے بھائی یا چچا کا ہوتا ہے۔ ابھی دو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ ہم لوگوں میں احساس بندش اور بیرکوں میں سر شام بند ہونے سے دل گھبرانے لگا۔ اسی دوران ہمیں یہ معلوم ہوا کہ محرم الحرام سر پر آگئے۔ 9 محرم کی شب گزری تو جیل کے سپرنٹنڈنٹ مسٹر کنور کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ طلبا کے اعزاز میں شام غریباں کی مجلس کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں تمام قیدی ایک ساتھ فرش عزا پر بیٹھیں گے۔ مغرب کا وقت آیا تو قیدی محفل شام غریباں میں آنے لگے، جو طلبا وہاں موجود تھے اور جیل کے کارکنان بھی شریک ہوئے۔ ایک کرسی اور مائیک کا انتظام کیا گیا اور مجھے جیل کی انتظامیہ نے تقریر کے لیے کرسی پر بٹھا دیا۔ تقریر تقریباً بیس منٹ کی تھی۔
قرآنی آیات کی تلاوت کے بعد مجلس شروع ہوئی۔ مجلس کے تمام پہلو تو فی الوقت بیان نہیں کیے جاسکتے مگر جب میں نے آخری جملے یہ ادا کیے کہ حضرت حسین علیہ السلام تاریخ کے واحد جرنیل ہیں جنھوں نے اپنی فوج کے خاتمے کے باوجود سر خم نہ کیا بلکہ تن تنہا ڈھائی گھنٹے تک تلوار زنی کرتے رہے اور مخالفین سے الامان کی صدا بلند ہوتی رہی۔ اس پر حاضرین بے حد جوش میں آئے اور جیل انتظامیہ نے بھی میرے مجلس پڑھنے کا شکریہ ادا کیا۔ مجلس ختم ہونے پر سب قیدیوں نے اپنی رہائی کی دعائیں مانگیں اور اپنی اپنی بیرکوں میں واپس چلے گئے۔
حکومتی حکمت عملی کے پیش نظر چند دنوں کے بعد یہ حکم آیا کہ تمام طلبا منتشر کرکے الگ الگ جیلوں میں رکھے جائیں گے۔ مجھے کراچی سے دیگر طلبا کے ہمراہ سکھر کے لیے روانہ کردیا گیا۔ کچھ لڑکوں کو جن میں امیر حیدر کاظمی اور طارق فتح بھی تھے مچھ جیل بھیجا گیا۔
ٹرین میں عام مسافر بھی بیٹھے ہوئے تھے میں جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہتھکڑیاں لگائے ٹرین میں داخل ہوا تو لوگ ہمیں دیکھ کر بہت حیران اور پریشان ہو رہے تھے۔ مسافروں کے سامنے مجھے بہت شرم آئی کہ لوگ کیا سمجھیں گے کہ میں کن جرائم میں ملوث ہوں۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد پولیس والوں نے لوگوں کو بتا دیا کہ ہم کون ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔داستان طویل ہے ، پھر کبھی سہی۔