انقلابی عزم
اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے مزدوروں، کسانوں، عام لوگوں کو آگے آنا پڑے گا۔
جمہوریت نام ہے، ملک کی اکثریت کی رائے کا۔ یہ جمہوریت کے حوالے سے ایک مسلمہ اصول ہے لیکن ہمارے ملک میں اس جمہوریت کے بجائے اشرافیائی جمہوریت کا راج ہے صرف اشرافیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جمہوریت کے نام پر تانا شاہی کا راج چلائیں۔ اس طریقہ واردات کی وجہ سے 72سال سے ملک میں اشرافیائی راج کا دور دورہ ہے اور اصل جمہور خوار ہو رہے ہیں۔
اگر اس جابرانہ سلسلے کو بند نہ کیا گیا تو ساری عمر عوام کو جمہوریت کے نام پر اشرافیائی جمہوری لوٹ مار کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام میں یہ شعور پیدا کریں کہ جمہوریت اکثریت کی رائے کا نام ہے اور ایک اشرافیائی طبقے کا نام جمہوریت نہیں ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری انٹلیکچوئل اپنی ذمے داریاں بھلا کر یا تو ہر طرف سیاسی سناٹوں میں غرق ہے یا پھر اشرافیہ کی جوتیاں سیدھی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے مزدوروں، کسانوں، عام لوگوں کو آگے آنا پڑے گا، اگر ایسا نہ ہوا تو اشرافیہ مزے سے ایک صدی اور راج کرے گی یہ وہ مجرمانہ جمہوریت کا کھیل ہے جسے اب ہوش مند ہونا چاہیے۔ یہ ملک عوام کا ہے جہاں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں، دیہی آبادی کا 60 فیصد کسانوں پر مشتمل ہے، باقی غریب عوام ہے جن کا جمہوریت میں حصہ صرف ووٹ ڈالنا ہے اس سیاسی جمہوریت نے عوام کو غلام بنا کر رکھ دیا ہے اس جمہوری غلامی سے آزادی کے بغیر جمہوریت کا تصور ایک بچکانہ سوچ کے علاوہ کچھ نہیں، ہمیں اس بچکانہ سوچ سے باہر نکلنا چاہیے۔
جمہوریت میں سب سے پہلے اکثریت کی برتری ضروری ہے، اکثریت کی برتری کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جب تک ہم اس حقیقت کو نہ سمجھ لیں جمہوری فراڈ سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اشرافیہ کبھی نہیں چاہے گی کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے کوئی قیادت ابھرے۔ اس کی آخری حد تک کوشش یہی رہے گی کہ مڈل کلاس کو اقتدار میں نہ آنے دیا جائے اور جمہوریت کے نام پر مڈل کلاس کی حکومت کو ہر قیمت پر ہٹایا جائے۔ آج کل اس حوالے سے اشرافیہ کے روز جمہوری اتحاد بنتے نظر آتے ہیں جس کا مقصد ہے کہ مڈل کلاسر حکومت کو ہر قیمت پر ہٹایا جائے۔
ایسے نازک وقت میں، بلکہ آزمائشی وقت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام خاص طور پر مزدور اور کسان جاگ جائیں اور اشرافیہ کی ہر سازش کو ناکام بنائیں اگر عوام نے اپنے اس طبقاتی فرض سے غفلت برتی تو اشرافیہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو جائے گی اور عوام ایک لمبے عرصے تک اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ یہ اتنا بڑا المیہ ہے کہ عوام اگلی ایک صدی تک اس کا خمیازہ بھگتتے رہیں گے۔ آج کل اشرافیہ کی سازشیں زوروں پر ہیں دولت کے تالے کھول دیے گئے ہیں غریب اور بھوکے پیاسے عوام رات دن تکلیفیں اٹھا رہے ہیں لیکن اشرافیہ کی سازشوں کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اشرافیہ کی ناکامی ہی سے عوام کی ناکامیوں کا عہد تازہ شروع ہو گا۔ عوام کو نیند سے جگانا ایک بہت مشکل ٹاسک ہے اس مشکل ٹاسک کی کامیابی سے ہی عوامی برتری کا آغاز ہو گا۔
سسٹم کا کمال ہے کہ اشرافیہ دو فیصد ہوتے ہوئے 98 فیصد پر صدیوں سے حکومت کرتا آ رہا ہے، میں بعض وقت حیران ہو جاتا ہوں کہ آخر میں اتنی محنت کیوں کر رہا ہوں اور اتنی محنت کرنے والوں کو بدبخت ذہنی اذیت کیوں پہنچاتے ہیں، کیا یہ مخلص عوام سے بھی اتنے ہی مخلص ہیں؟
خیر اس وقت احمق دوستوں کی شکایت اور دل آزاری بے کار ہے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام ہی نہیں بنایا جائے بلکہ جدوجہد کرنے والے دوستوں کی حمایت کی جائے۔ یہی آج کی ضرورت ہے یہی آج کا نعرہ ہے اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام بنائیں اور عوام میں یہ شعور پیدا کریں کہ وہ دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کریں۔ دشمن یعنی طبقاتی دشمن پورے زور و شور سے سازشوں میں مصروف ہیں ان سازشوں کو ناکام بنانا ہی عوام کی ذمے داری ہے، دشمن کے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ جس کا استعمال کر کے وہ ہماری عوام دوست کوششوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ یہی عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ دشمنوں کی سازشوں کو ہر قیمت پر ناکام بنائیں۔
مشکلات کو وہی لوگ جانتے ہیں جو ان سے گزرتے ہیں، راستے میں کتے بھونکتے ہی رہتے ہیں اور قافلہ گزرتا رہتا ہے۔ قافلوں کی راہ روکنے کے لیے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں لیکن مستقل مزاج لوگ ان مشکلات کی پرواہ کیے بغیر آگے اور آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں یہی ان کی شان ہے۔
آج ایک طرف دولت کے انبار ہیں، دوسری طرف نہتے اور دولت کے حوالے سے قلاش انسان ہیں مقابلہ بڑا عدم توازن کا ہے لیکن عزم اتنی بڑی طاقت ہے جو دولت کے انباروں کو روندتی چلی جاتی ہے، یہی ماضی کا تجربہ تھا اور حال کا تجربہ ہے بامقصد زندگی کا ایک دن بے مقصد زندگی کے ہزار دنوں سے برتر ہوتا ہے۔ اس فلسفے نے ہم میں جان ڈال دی ہے ورنہ ہم جیسے کمزور جسم والے رات کے نو سے صبح کے پانچ نہیں کر سکتے۔ یہ سچائی کی طاقت ہے یہ عوام کا حوصلہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ شام سے صبح کرنا اور قلم بردار رہنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن عزم کی طاقت پر کمزوری غالب آ جاتی ہے۔