کچھ دھیان ادھر بھی

خدا جانے ہمارے کشمیری بہن اور بھائی کن صعوبتوں سے دوچار ہیں۔

gfhlb169@gmail.com

QUETTA:
3اور 4 اگست 2019 کو بھارت نے 5اگست کے غیر قانونی اقدامات سے پہلے ہی مقبوضہ ریاستِ جموں و کشمیر میں سخت ترین پابندیاں عائد کر کے وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔مقبوضہ وادی میں پورا ایک سال گزر جانے کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار ریاست کی طرف سے جبر و استعداد جاری ہے۔خدا جانے ہمارے کشمیری بہن اور بھائی کن صعوبتوں سے دوچار ہیں۔

خدا کرے ان کی لمبی جدو جہد رنگ لائے۔تاریک رات کا خاتمہ ہو۔نریش کمار شاد نے کہا تھا کہ'' ممکن نہیں کہ شامِ الم کی سحر نہ ہو''۔لگتا ہے کہ 1947میں کشمیری شیخوں، بخشیوں اور مفتیوں کے ذاتی مفادات میں کیے گئے فیصلوں کی نحوست کشمیریوں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔''لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی'' والی صورتحال ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں حالات تیزی سے کشمیری مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتلِ عام کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔اﷲ کرے یہ اندازہ غلط ہو۔کشمیری اور پاکستانی قیادت کو دنیا کے کسی بڑے دارالخلافہ میں اکٹھا ہو کر ایک گرینڈ اسمبلی منعقد کرنی چاہیے جس میں مقبوضہ کشمیر سے حریت کی قیادت۔ زندگی کے تمام شعبوں سے بڑی تعداد میں افراد،طلبا و طالبات اور دانشور اکھٹے ہو کر بھارت سے مکمل علیحدگی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کریں ورنہ صرف ریلیاں نکالنے، گیت گانے اور نعرے مارنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔اگر ایسی ایک قرارداد منظور ہو جائے تو کشمیر کا مقدمہ لڑنے والوں کے ہاتھ بہت مضبوط ہوں گے ۔

قارئینِ کرام،پچھلے دنوں جن اوقات میں کراچی میں بارش ہوئی اور زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی انھی اوقات میں سڈنی آسٹریلیا میں بادوباراں جم کر برسا۔کراچی میں چند گھنٹے بارش کیا ہوئی،سڑکیں ندی نالے بن گئے،سارا فضلہ اور کچرا نکل کر عروس البلاد کراچی کا منہ چڑھانے لگا۔ادھر سڈنی میں لگاتار 26گھنٹے بارش ہوئی اور پانی کا سڑکوں پر نام و نشان تک نہیں تھا۔اگر کراچی میں مسلسل چھبیس گھنٹے اسی طرح بادل برستا جس طرح سڈنی میں برسا تو نہ جانے عروس البلاد کراچی کا کیا حال ہوتا۔ بات ساری ہماری نیت، پلاننگ اور انفرا سٹرکچر کی ہے۔ ہمارا بیشتر انفراسٹرکچر ناقص اورغیرمعیاری ہے۔ ہماری سرکاری عمارتیں مکمل ہونے سے پہلے ہی خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔

آپ کسی بھی حکومتی تعمیراتی پروجیکٹ کو دیکھ لیں آپ کو ایسا ہی لگے گا۔ ہماری سڑکیں مکمل ہونے کے ساتھ ہی ٹُوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر گڑھوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ایسا کیوں ہے،کیا ہمارے انجینیرز قابلیت میں کچھ کم ہیں۔نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے یہی ماہرین جب پاکستان سے باہر کہیں اور کام کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے کام کی بے حد تعریف ہوتی ہے۔ہمارے پروفیشنلز اپنے کام میں ماہر اورپھُرتیلے سمجھے جاتے ہیںلیکن یہی ماہرین )انجینئر(اپنے ملک کے اندر غیر معیاری کاموں کو پروان چڑھاتے ہیں۔آخر ایسا کیوں ہے۔

1982میں ایک لمبے تربیتی پروگرام کے سلسلے میں کوئی سال بھر تھائی لینڈ میں رہائش ہوئی۔وہاں بارشیں اکثر ہوتی ہیں اور خوب ہوتی ہیںایسے لگتا ہے جیسے پانی کا کوئی ذخیرہ اُنڈیل دیا گیا ہو۔اتنی زیادہ بارشوں کے باوجود بہترین سڑکیں،کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں۔کوئی گڑھا نظر نہیں آتا۔بہت حیرانی ہوئی، کیونکہ ہمارے ہاں تو بلی پیشاب کر جائے تو سڑکیں پہلے تالاب بنتی ہیں اور پھر جا بجا کھڈے۔ کراچی کی حالیہ بارشوں کے دوران جو منظر دیکھنے کوملے،کیا ہی اچھا ہوتا دیکھنے کو نہ ملتے۔ بارش شروع ہوتے ہی پہلا احتمال یہ ہوتا ہے کہ بجلی چلی جائے گی۔


ٹیلیفون کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور اسی طرح دوسری سروسز،لیکن تھائی لینڈ، سنگاپور، ملائیشیااور انڈونیشیا جہاں بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں وہاں باشوں سے سیلاب تو آ سکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ ادھر بارش ہوئی اُدھر سروسز غائب، تباہی شروع۔ بہت تجسس ہوا کہ یہاں پاکستان سے مختلف کیا ہے۔ سعودی عرب میں قیام رہا۔وہاں بہت شدید گرمی پڑتی ہے۔دوپہر کو جب ریگستانی ریت گرم ہوتی ہے تو درجہ حرارت کافی اوپر چلا جاتا ہے۔مغرب کے بعد یہی ریت جلدی ٹھنڈی ہو جاتی ہے اس لیے دن اور رات کے درجہ ء حرارت میں کافی فرق ہوتا ہے۔

پاکستان میں ایک انجینیئر نے پوچھنے پر بتایاکہ ہمارے انفراسٹرکچر کے جلدی خراب ہونے کی وجہ دن اور رات کے درجہء حرارت میں کافی فرق ہے حالانکہ سعودی عرب کے مقابلے میں ہمارے درجہء حرارت کا فرق کچھ بھی نہیں۔ سعودی عرب کے طول و عرض میں سفر کے دوران کسی جگہ کوئی سڑک ٹوٹی ہوئی نہیں ملی،کسی پُل کو نقصان زدہ نہیں دیکھا، کوئی عمارت مکمل ہوتے ہی زمین بوس ہوتی نظر نہیں آئی۔تھائی لینڈ میں قیام کے دوران کریدتا رہا کہ مشرقی ایشیا کا ملک ہوتے ہوئے وہاں معاملات کیوں بہتر ہیں اور ہمارے ہاں کیوں خراب ہیں۔

پتہ چلا کہ کسی بھی پروجیکٹ کی جو اصل لاگت ہے ٹھیکیدار ٹینڈرنگ کرتے ہوئے اپنا معاوضہ وغیرہ اس لاگت میں سے نہیں نکالتا بلکہ کل لاگت کے اوپر اپنا معاوضہ و نفع شامل کر کے ٹینڈرنگ کرتا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت میں سے کچھ نہیں لیا جاتا اور پروجیکٹ پر جو کام جس معیار کا ہونا چاہیے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی اس لیے جو ترقیاتی کام بھی ہوتے ہیں وہ اپنے وقت پر مکمل ہوتے ہیں اور کام معیاری ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں ترقیاتی پروجیکٹ کی اصل لاگت میں بہت سے فریقوں کا حصہ ہوتا ہے۔خرابی کی بڑی وجہ ہمارے ماہرین اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اصلی لاگت میں سے کم و بیش چالیس فیصد بانٹ لیا جاتا ہے۔آپ خود دیکھ لیں کہ اگر ایک عمارت نے سو روپے میں تعمیر ہونا ہے اور سو میں سے چالیس روپے ہڑپ کر لیے جائیں تو باقی ساٹھ روپے میںجو کچھ بھی بنے گا وہ کس معیار کا ہو گا،کہیں نہ کہیں تو ضرور ڈنڈی ماری جائے گی۔

پاکستان کے اندر چھوٹا بڑا جو بھی ترقیاتی کام ہو گا اس کے اوپر کام کسی انجینئر نے کروانا ہے اور کسی ٹھیکیدار کے ذریعے کروانا ہے باقی سارے لوگ جو اس میں شامل ہوں گے وہ نہ تو براہِ راست کام کروانے والے ہوں گے اور نہ ہی اس کی صحیح سوجھ بوجھ رکھتے ہوں گے۔ٹھیکیدار چاہے کتنا ہی ناقص کام کرے لیکن چونکہ اس نے تمام متعلقین کو راضی رکھاہوتا ہے اس لیے اُس کو اپنی ادائیگیوں کے نہ تو رکنے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی کسی مِین میخ نکلنے کا۔ ٹھیکیدار ایڈوانس لے چکا ہوتا ہے پھر وہ پروجیکٹ کبھی بھی وقت پر مکمل نہیں کرتا۔پروجیکٹ کا دورانیہ حیلوں بہانوں سے بڑھتا رہتا ہے جس سے لاگت اوپر ہی اوپر جاتی رہتی ہے۔

ٹھیکیدار ایسا کر ہی نہیں سکتا اگر سپروائزنگ اسٹاف جس میں انجینئر کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے وہ ایسا نہ کرنے دے۔پنلٹی کلاز یا تو سرے سے ڈالی ہی نہیں جاتی یا بہت خامیوں بھری ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ٹھیکیدار کو کبھی ڈر نہیں ہوتا کہ اگر پروجیکٹ وقت پر مکمل نہ ہوا یا معیاری نہ ہوا تو اس کا ٹھیکہ کینسل ہو جائے گا اور اس کو پنلٹی کا سامنا ہو گا۔سنگا پور میں ستر کی دہائی میں لوگوں کو فارغ بیٹھے،تمباکو پیتے دیکھا۔ وہاں ان دنوں غربت دیواروں پر لکھی تھی لیکن پھر جناب لی کوان یو نے کایا پلٹ دی،وہ پروجیکٹ کے معائنے کے دوران کوئی نہ کوئی غلطی پکڑ کر سب متعلقین کی کلاس لے لیتے تھے اس طرح ایک آدمی کے ویژن اور محنت نے سنگاپور کو پس ماندہ ممالک سے نکال کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرِ فہرست کر دیا۔

پاکستان میں ہم کبھی کسی اور کبھی کسی کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں لیکن اصل میں پاکستان نے اندرونِ ملک یا باہر سے جتنے قرضے لیے ہوئے ہیں وہ سب انھی ترقیاتی منصوبوں کے لیے لیے گئے تھے جن کو ہمارے ماہرین اور ٹھیکیداروں نے مل کر بانٹ لیا۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ سیاسی اور انتظامی عہدیدار اپنا کام پوری دیانت داری، سوجھ بوجھ اور لگن سے کریں تو خرابی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت میں سے وہ بھی لینے والے ہوتے ہیں لیکن اگر پروجیکٹ وقت پر مکمل نہیں ہوتے یا معیاری کام نہیں ہوتا تو بنیادی ذمے داری ماہرین اور ٹھیکیداروں کے سرہے۔ادھربھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story