بھارت میں سیکڑوں و تاریخی مساجد مندروں گوردواروں میں تبدیل
امرتسر،ہریانہ کی16مساجدبھی شامل، کئی مساجد کو شہیدکرکے شاپنگ سینٹر بنادیے گئے
بھارتی وزیراعظم نے5اگست کو تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی دوبارہ تعمیرکا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیرکا تنازعہ تو کئی سال تک بھارتی عدالتوں میں چلتا رہا ہےتاہم 1947 کی تقسیم کے بعد سے بھارت میں سینکڑوں مساجد ایسی ہیں جن کو مندروں اور گوردواروں میں تبدیل کردیا گیا یاپھران مساجد کوشہید کرکے وہاں دکانیں اوررہائش گاہیں بنائی جاچکی ہیں۔ بھارتی شہروں امرتسر اورہریانہ میں ایسی 16 تاریخی مساجد ہیں جن کو مسلم کمیونٹی کے احتجاج کے باوجود گوردواروں میں تبدیل کردیا گیا ،آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ شہید کی گئی مساجد دوبارہ اسی جگہ تعمیرہونی چاہیں۔
بھارتی ریاست ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی دوبارہ تعمیر5اگست سے شروع کردی گئی ہے جبکہ دوسری طرف بھارتی شہرحیدر آباد کے سیکرٹریٹ کی عمارت کوگرائے جانے کے دوران دو تاریخی مساجد کو بھی شہید کردیا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان خالدسیف اللہ رحمانی نے بتایا کہ جامع مسجد ہاشمی اور مسجددفاترمعتمدی کی شہادت پوری امت مسلمہ کے لیے تکلیف کا باعث ہے، مسجد کی زمین کسی حکومت اور شخص کی ملکیت نہیں ہوتی ہے، مسجد کسی عمارت نہیں بلکہ اس جگہ کا نام ہے جسے نماز کی ادائیگی کے لئے وقف کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا مسجد کسی متبادل جگہ پرنہیں بلکہ اسی جگہ تعمیرکی جائیں جہاں وہ پہلے موجود تھیں۔
ایکسپریس کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ 1947 کی تقسیم کے بعد بھارت میں سینکڑوں تاریخی مساجد کو گوردواروں اورمندروں میں تبدیل کیا جاچکا ہے جبکہ کئی مساجد ایسی ہیں جن کو شہید کرکے ان جگہوں پررہائش گاہیں اور شاپنگ سنٹربن چکے ہیں۔ ہریانہ اورامرتسرمیں 16 ایسی تاریخی مساجد ہیں جواب گوردواروں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔
ہریانہ میں واقع جامع مسجد میہام1667 میں مغلیہ دور میں تعمیر کی گئی تھی ، اس مسجد کو تھوڑا عرصہ قبل ہی گوردوارے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ حالانکہ اس مسجد کی اونچی چھتوں اورمحرابوں پرعربی خطاطی کے نشانات موجود ہیں جن پر رنگ کردیا گیا ہے۔ یہ مسجد ہمایوں کے دور میں 1531 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی ،اس کی تعمیرسے متعلق تختی بھی یہاں نصب ہے۔اسی طرح امرتسر کے محلہ شریف پورہ میں واقع گول مسجد بھی گوردوارے میں تبدیل ہوچکی ہے، اس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اوریہاں 1947 میں مسلمانوں کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ بنایا گیا تھا۔ اس مسجد کوکافی عرصے سے گوردوارے کے طورپراستعمال کیاجارہا ہے لیکن بعض لوگ آج بھی اسے گول مسجد کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔
ہریانہ کے علاقہ پانی پت میں کئی مساجد گوردواروں میں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ پانی پت کے خیل بازار کی جامع مسجد سمیت متعدد مشہور مساجد ہیں جو اب ایک گرودوارے میں تبدیل ہوگئی ہیں۔مسجد کے تین عظیم الشان گنبد بازارمیں دور سے ہی نظرآتے ہیں جبکہ مسجدکی محرابوں پرکی گئی کاشی کاری اور آرائش وتزئین اس کے مغلیہ فن تعمیرکی عکاسی کرتی ہے، ہریانہ میں گیدرانولی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں آخری مردم شماری کے مطابق صرف 200 سے زیادہ کنبے آباد ہیں۔ تاریخی طور پر یہ ایک بڑی تعداد میں مسلمان آبادی ہے جو اس گاؤں کی جامع مسجد میں اپنی پانچ روزانہ کی نماز پڑھتے تھے تاہم یہ مسجد بھی اب گوردوارے میں تبدیل ہوچکی ہے، تقسیم سے پہلے کی مسجد کے زبردست مینار دیکھنے کے قابل ہیں۔سن 1732 ء میں فرخ نگرمیں تعمیر کی گئی جامع مسجدبھی اب سکھ گرودوارہ اور ہندو مندر کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔ اس مسجد میں دو مینار تھے ، آج ان میں سے صرف ایک بچا ہے۔
معروف عالم دین علامہ زبیراحمد ظہیر نے کہا کہ حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے بھارتی حکومت سے بات کرے اوربھارت میں مساجد کوشہید کئے جانے اور ان کو گورودواروں اور مندروں میں تبدیل کیے جانے کے واقعات بارے پاکستانی مسلمانوں کی تشویش سے آگاہ کرے۔پاکستان میں اگرکسی مندر اور گوردوارے سے متعلق کوئی معمولی سی بات بھی ہوتو بھارت پاکستان کیخلاف پراپیگنڈا شروع کردیتا ہے۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیرکا تنازعہ تو کئی سال تک بھارتی عدالتوں میں چلتا رہا ہےتاہم 1947 کی تقسیم کے بعد سے بھارت میں سینکڑوں مساجد ایسی ہیں جن کو مندروں اور گوردواروں میں تبدیل کردیا گیا یاپھران مساجد کوشہید کرکے وہاں دکانیں اوررہائش گاہیں بنائی جاچکی ہیں۔ بھارتی شہروں امرتسر اورہریانہ میں ایسی 16 تاریخی مساجد ہیں جن کو مسلم کمیونٹی کے احتجاج کے باوجود گوردواروں میں تبدیل کردیا گیا ،آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ شہید کی گئی مساجد دوبارہ اسی جگہ تعمیرہونی چاہیں۔
بھارتی ریاست ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی دوبارہ تعمیر5اگست سے شروع کردی گئی ہے جبکہ دوسری طرف بھارتی شہرحیدر آباد کے سیکرٹریٹ کی عمارت کوگرائے جانے کے دوران دو تاریخی مساجد کو بھی شہید کردیا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان خالدسیف اللہ رحمانی نے بتایا کہ جامع مسجد ہاشمی اور مسجددفاترمعتمدی کی شہادت پوری امت مسلمہ کے لیے تکلیف کا باعث ہے، مسجد کی زمین کسی حکومت اور شخص کی ملکیت نہیں ہوتی ہے، مسجد کسی عمارت نہیں بلکہ اس جگہ کا نام ہے جسے نماز کی ادائیگی کے لئے وقف کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا مسجد کسی متبادل جگہ پرنہیں بلکہ اسی جگہ تعمیرکی جائیں جہاں وہ پہلے موجود تھیں۔
ایکسپریس کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ 1947 کی تقسیم کے بعد بھارت میں سینکڑوں تاریخی مساجد کو گوردواروں اورمندروں میں تبدیل کیا جاچکا ہے جبکہ کئی مساجد ایسی ہیں جن کو شہید کرکے ان جگہوں پررہائش گاہیں اور شاپنگ سنٹربن چکے ہیں۔ ہریانہ اورامرتسرمیں 16 ایسی تاریخی مساجد ہیں جواب گوردواروں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔
ہریانہ میں واقع جامع مسجد میہام1667 میں مغلیہ دور میں تعمیر کی گئی تھی ، اس مسجد کو تھوڑا عرصہ قبل ہی گوردوارے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ حالانکہ اس مسجد کی اونچی چھتوں اورمحرابوں پرعربی خطاطی کے نشانات موجود ہیں جن پر رنگ کردیا گیا ہے۔ یہ مسجد ہمایوں کے دور میں 1531 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی ،اس کی تعمیرسے متعلق تختی بھی یہاں نصب ہے۔اسی طرح امرتسر کے محلہ شریف پورہ میں واقع گول مسجد بھی گوردوارے میں تبدیل ہوچکی ہے، اس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اوریہاں 1947 میں مسلمانوں کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ بنایا گیا تھا۔ اس مسجد کوکافی عرصے سے گوردوارے کے طورپراستعمال کیاجارہا ہے لیکن بعض لوگ آج بھی اسے گول مسجد کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔
ہریانہ کے علاقہ پانی پت میں کئی مساجد گوردواروں میں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ پانی پت کے خیل بازار کی جامع مسجد سمیت متعدد مشہور مساجد ہیں جو اب ایک گرودوارے میں تبدیل ہوگئی ہیں۔مسجد کے تین عظیم الشان گنبد بازارمیں دور سے ہی نظرآتے ہیں جبکہ مسجدکی محرابوں پرکی گئی کاشی کاری اور آرائش وتزئین اس کے مغلیہ فن تعمیرکی عکاسی کرتی ہے، ہریانہ میں گیدرانولی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں آخری مردم شماری کے مطابق صرف 200 سے زیادہ کنبے آباد ہیں۔ تاریخی طور پر یہ ایک بڑی تعداد میں مسلمان آبادی ہے جو اس گاؤں کی جامع مسجد میں اپنی پانچ روزانہ کی نماز پڑھتے تھے تاہم یہ مسجد بھی اب گوردوارے میں تبدیل ہوچکی ہے، تقسیم سے پہلے کی مسجد کے زبردست مینار دیکھنے کے قابل ہیں۔سن 1732 ء میں فرخ نگرمیں تعمیر کی گئی جامع مسجدبھی اب سکھ گرودوارہ اور ہندو مندر کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔ اس مسجد میں دو مینار تھے ، آج ان میں سے صرف ایک بچا ہے۔
معروف عالم دین علامہ زبیراحمد ظہیر نے کہا کہ حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے بھارتی حکومت سے بات کرے اوربھارت میں مساجد کوشہید کئے جانے اور ان کو گورودواروں اور مندروں میں تبدیل کیے جانے کے واقعات بارے پاکستانی مسلمانوں کی تشویش سے آگاہ کرے۔پاکستان میں اگرکسی مندر اور گوردوارے سے متعلق کوئی معمولی سی بات بھی ہوتو بھارت پاکستان کیخلاف پراپیگنڈا شروع کردیتا ہے۔