اہم فیصلے کاروباری سرگرمیاں بحال

یہ حکومت کا مناسب اور دور اندیشی پر مبنی صائب فیصلہ ہے۔


Editorial August 08, 2020
یہ حکومت کا مناسب اور دور اندیشی پر مبنی صائب فیصلہ ہے۔ فوٹو، فائل

کورونا وائرس گراف کے گرنے کی نوید ایک طرف قوم کے لیے ایک خوش آیند نوید ہے اور بادی النظر میں ملک گیر تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں شروع ہو سکیں گی، لوگوں کو تقریباً پانچ ماہ کے تعطل کے بعد کام پر جانے، اپنا کاروبار کرنے اور غربت و بیروزگاری کے دردناک مسائل کے ازالہ کی روشنی ملی ہے۔

یہ حکومت کا مناسب اور دور اندیشی پر مبنی صائب فیصلہ ہے جس کے پیش نظر وفاقی حکومت نے ریسٹورنٹس، کیفیز، تھیٹرز، سینما ہالز، تفریحی مقامات، شادی ہالز اور دیگر شعبہ جات و کاروبار ایس او پیز کے تحت بتدریج کھولنے کا اعلان کیا ہے، مارکیٹوں اور دفاتر کے پرانے اوقات کار بھی بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بریفنگ میں بتایا کہ ہفتہ 8 اگست سے سیاحتی مقامات اور وہاں کے ہوٹل جب کہ پیر 10اگست سے ملک بھر میں پبلک پارکس، تفریحی مقامات، میوزیم، ایکسپو ہال، بیوٹی پارلر، مزارات، مذہبی مقامات، سنیما، تھیٹر، جم، کلب، ہوٹل، کیفے اور ریسٹورنٹ کھول دیے جائیں گے۔ ریستورانوں میں اندر بیٹھ کر کھانا کھانے (ڈائن ان) کی اجازت ہوگی۔

مزارات پر عرس اور بڑے اجتماعات میں ایس او پیز کا خیال رکھنا ہوگا اور انتظامیہ سے اجازت لینا ہوگی۔ بازاروں کے اوقات کار بھی معمول کے مطابق بحال کیے جا رہے ہیں اور تمام مارکیٹیں پرانے نظام کے مطابق کھولنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ان کے لیے وقت کی پابندی اور ہفتہ و اتوار کی چھٹی ختم کی جا رہی ہے۔ جن کھیلوں میں جسمانی ٹکراؤ نہیں ہوتا انھیں بھی10 اگست سے بحال کر دیا جائے گا۔ کبڈی، کشتی، رگبی کے علاوہ دیگر کھیلوں کی اجازت دی جا رہی ہے تاہم تماشائیوں کی اجازت نہیں ہوگی۔

روڈ ٹرانسپورٹ، ریلوے، ایئرلائن کو بھی معمول کے مطابق بحال کیا جا رہا ہے۔ ان پر تمام قدغنیں اور بندشیں ختم کی جارہی ہیں تاہم میٹرو سروسز اور بسوں میں کھڑے ہو کر سفر کی اجازت نہیں ہوگی، موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی اجازت بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شادی ہالز اور تعلیمی ادارے15ستمبر سے کھولے جا سکیں گے، ہوٹلوں میں بھی شادی کی تقریبات ہو سکیں گی۔

حقیقت میں کورونا وبا سے پیدا شدہ معاشی چیلنجز کا دورانیہ عوام کے لیے شدید مصائب اور ناقابل بیان مشکلات کا تھا، لوگ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے سخت نالاں تھے، اس کاروبار کو بہت پہلے کھلنا ضروری تھا، عوام سخت مشکل میں تھے، حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود عمومی ریلیف اور جمہوری ثمرات کا وعدہ پورا نہیں ہوا، سیاسی تفریق، محاذ آرائی، کشیدگی کے باعث سٹیک ہولڈرز میں قومی ایشوز سمیت جمہوری افہام و تفہیم بھی کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی میں نظر نہیں آیا۔

تاہم اب جب کہ ان تجارتی شعبوں اور کاروباری طبقوں کو جن کا تعلق براہ راست عوام کی محنت کش افرادی طاقت سے ہے اور جو کورونا سے بری طرح متاثر تھے وہ اب اپنے معمولات زندگی کی بہتری کی جانب گامزن ہوسکیں گے، اپنے اہل و عیال کو دو وقت کی روٹی دینے کے قابل ہو جائیں گے لیکن اس کے لیے ابھی حکومت کو وائرس سے سنبھلنے اور بحفاظت ملک کو کورونا فری معاشرہ بنانے کا سنگ میل عبور کرنے کا ہدف پورا کرنا ہے، کوئی تساہل نہیں ہونا چاہیے، وائرس کی واپسی عالمی سطح پر جانچی جا رہی ہے۔

اسد عمر نے کہا ہے کہ عوام کے تعاون سے کورونا وبا میں کمی آئی ہے اور صورت حال کافی بہتر ہوگئی ہے تاہم خطرہ ابھی ٹلا نہیں، احتیاط لازمی کرنا ہوگی۔ کورونا کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابی کو دنیا مان رہی ہے۔ دریں اثناء وفاقی حکومت کے اس فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے گلیات، ناران، کاغان، سوات اور دیگر سیاحتی مقامات کھولنے کا اعلان کر دیا۔ علاوہ ازیں اسد عمر کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وبائی امراض میں اضافہ روکنے کے حوالے سے عوامی بیداری مہم تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

فورم کو بتایا گیا کہ کورونا پھیلاؤ میں کمی کے ساتھ ساتھ ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے کے معاملہ میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے، اب تک 2608 نئے آکسیجن بیڈز کو ملک بھر کے اسپتالوں میں شامل کر دیا گیا ہے جس میں آزاد کشمیر میں80 بلوچستان میں 264 گلگت بلتستان میں100، خیبر پختونخوا میں400، پنجاب میں 787، سندھ میں351 اور اسلام آباد میں 626 آکسیجن بیڈز شامل کیے گئے ہیں۔

ماہرین کی تحقیق کے مطابق بچوں میں وائرس باآسانی پھیل سکتا ہے، بھارت میں چار روز کی بچی چل بسی، امریکی ریاست جارجیا اور اسرائیل میں اسکولوں کے دوبارہ کھلنے اور موسم سرما کے کیمپس لگنے کے بعد سے کیسز بڑھ گئے، خطرہ ہے کہ برطانیہ میں دسمبر کے دوران یومیہ ایک لاکھ 35 ہزار کورونا کے مریض سامنے آسکتے ہیں، ادھر عالمی ادارہ صحت کے حکام نے کہا ہے کہ ویکسین پر قوم پرستی دنیا کے مفاد میں نہیں، صدر ٹرمپ کی نگاہ بھی امریکی الیکشن پر لگی ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے 3نومبر کے الیکشن سے پہلے ہی ویکسین مل جائے۔ پنجاب میں عید کے بعد کیسز میں اضافہ کا خطرہ محسوس کیا گیا ہے۔

وفاقی وزارت تعلیم کے حکام کے مطابق تعلیمی ادارے کھولنے سے قبل7 ستمبر کو جائزہ اجلاس ہوگا جس میں کورونا کی صورتحال کا جائزہ لے کر تعلیمی ادارے کھولنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا 14 اگست کے حوالے سے بھی گائیڈ لائنز جاری کریں گے اور محرم الحرام کے لیے بھی علما سے مل کر ایس او پیز بنائی گئی ہیں۔ ٹرین اور جہاز میں مسافروں سے متعلق پابندیاں30 ستمبر تک جاری رہیں گی، یکم اکتوبر سے جہاز میں مسافر نارمل انداز میں سفر کر سکیں گے۔

ذرایع کے مطابق وفاقی حکومت اس معاملے پر صنعتی ماہرین کی ایک سمٹ کا اہتمام کر رہی ہے جس میں صوبوں کو فعال شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں قومی کمیشن برائے انسانی ترقی اور بیسک ایجوکیشن کمیونٹی اسکولز کے مستقبل میں کردار اور کام کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں اس حوالے سے اصولی فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ قومی کمیشن برائے انسانی ترقی اور بیسک ایجوکیشن کمیونٹی اسکولز، اساتذہ اور طلباء کو وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت سے لے کر متعلقہ صوبوں و علاقوں کو منتقل کر دیا جائے، یہ عمل رواں مالی سال کے اختتام سے قبل مکمل کیا جائے گا۔ اجلاس نے وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کو اس حوالے سے صوبوں کے ساتھ مشاورت کے ساتھ پلان تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کے اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔

دریں اثنا وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت جمعرات کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے42 ویں اجلاس میں قابل تجدید توانائی پالیسی کی منظوری دی گئی، خام تیل اور قدرتی گیس کا ونڈ فال لیوی کے تحت 50 فیصد حصہ صوبوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم نے گیس کی طلب و رسد، مستقبل کی ضروریات اور مقامی ذخائر کی صورتحال کے بارے میں تفصیلی پریزنٹیشن دی۔ وزارت پٹرولیم کو اوگرا میں صوبوں کی تجاویز شامل کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔

اجلاس میں لوئر چشمہ رائٹ بینک کینال کا کنٹرول وزارت آبی وسائل سے لے کر پنجاب کے سپرد کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس حوالے سے ارسا، حکومت پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نمایندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس ضمن میں طریقہ کار اور دو صوبوں کے درمیان دوطرفہ معاہدے کو حتمی شکل دے گی۔ اجلاس کے دوران 1991ء میں کیے گئے پانی کی تقسیم کے معاہدہ کے بارے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کی سفارشات کے جائزہ کے دوران مشترکہ مفادات کونسل کو بتایا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ٹیکنیکل ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو صوبوں کے مابین پانی کی منصفانہ تقسیم کے معاملے کو دیکھے گی۔

کونسل نے کمیٹی کو ایک ماہ کے اندر اپنا کام مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس کو ٹیلی میٹری سسٹم کی تنصیب کے حوالے سے پیشرفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ مشترکہ مفادات کونسل کو بتایا گیا کہ موسم سرما میں 2021-22ء تک ملک کو گیس کی بڑی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، گیس بحران سے بچنے کے لیے پیداوار، گھریلو گیس کے تحفظ، نئے ذخائر کی تلاش و پیداوار، مقامی گیس کی بچت اور پرائس میکنزم کو متناسب بنانے کے سلسلے میں قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔

کراچی میں جمعرات سے شروع ہونے والی بارش 140ملی میٹر کے تخمینہ اور پیدا شدہ خوف کے مطابق نہیں تھی مگر جتنی ہوئی اس سے شہری زندگی مفلوج ہوگئی، پانی کی نکاسی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، ٹریفک جام رہا، رین ایمرجنسی انتظامات غیر موثر ثابت ہوئے، البتہ ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور دیگر حکومتی ادارے نالوں کی صفائی کی اطلاعات دیتے رہے، محکمہ موسمیات نے جمعہ کو موسلادھار بارش کی پیشگوئی کی تھی۔ بہر حال ارباب اختیار کو اربن فلڈ کے خطرات کا سدباب کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا ہوگی، ایڈہاک ازم سے کام نہیں چلے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں