NEW YORK:
غزل
روتا ہوں تو ہنستا ہوں بہت دیدۂ نم پر
یہ کس نے مجھے چھوڑا مرے رحم و کرم پر
آواز لگاتا ہے یہ مجھ میں کوئی رہرو
چلنا نہ خبردار مرے نقش ِ قدم پر
اُس شہر میں قرطاس پہ سچ کس طرح اُترے
تلوار لٹکتی ہو جہاں نوک ِ قلم پر
دربار سے چپ چاپ بھی اُٹھ سکتے تھے لیکن
دل ہی نہیں راضی ہُوا انکار سے کم پر
آخر کو تو مٹی نے مٹانی ہے مری بھوک
پتھر ہی نہ کیوں باندھ لوں کچھ روز شکم پر
(عقیل شاہ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
کہی کہ ان کہی ہر ایک بات سے گزرا
مرا کلام بھی ہر طاق رات سے گزرا
میں اپنے آپ میں سمٹا تو پُرسکون ہوا
نہ پھر سے کوزہ گروں کے بھی ہاتھ سے گزرا
زمیں پہ بھول بُھلیّاں ہیں اور کچھ بھی نہیں
میں پھیلتی ہوئی ہر کائنات سے گزرا
میں پتھروں کی بھی تہذیب میں رہا پتھر
مرا نصیب چمکتی سی دھات سے گزرا
وہ ابر ہو کے برستا ہے دشتِ عالم پر
وہ دکھ، وہ درد، جو بہتے فرات سے گزرا
دلِ حزیں کی سبھی دھڑکنوں کے صدقے میں
حسیں شباب بھی آخر زکٰوۃ سے گزرا
طوافِ کوچۂ جاناں کی خیر ہو اطہرؔ
خدا کے گھر میں اسی واردات سے گزرا
(علیم اطہر۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
کہیں پہ عشق کہیں زندگی کے دکھ پڑے ہیں
ہمارے سامنے اس آگہی کے دکھ پڑے ہیں
خلا میں جاتے ہوئے لوگ جانتے ہی نہیں
پسِ فلک بھی اسی نارسی کے دکھ پڑے ہیں
یہ تم اندھیرے کے باسی نہیں سمجھ سکتے
ہماری آنکھ میں جس روشنی کے دکھ پڑے ہیں
کوئی بغیر گرے آگیا ہے منزل تک
کسی کے راستے میں دوستی کے دُکھ پڑے ہیں
یہ کاغذات کا اک ڈھیر کیا لگا ہوا ہے
مرے خیال میں تو نوکری کے دکھ پڑے ہیں
(احمد اویس۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
شکم کی آگ بجھانے میں تھک کے بیٹھ گئے
ہم اپنا بوجھ اٹھانے میں تھک کے بیٹھ گئے
اندھیرے جن کے نصیبوں میں تھے اندھیرے رہے
چراغ لوگ جلانے میں تھک کے بیٹھ گئے
غریبِ شہر سہولت سے سو نہیں پائے
نصیب سوئے جگانے میں تھک کے بیٹھ گئے
قسیم رزق کی تقسیم تو ہی جانتا ہے
کہ بھوکے ہاتھ بڑھانے میں تھک کے بیٹھ گئے
امیرِ شہر غریبوں کا کچھ خیال کرو
تمھارے نعرے لگانے میں تھک کے بیٹھ گئے
ہم ایسے لوگوں کو شہزادؔ کچھ بھی راس نہیں
ہم اپنا آپ بسانے میں تھک کے بیٹھ گئے
(شہزاد جاوید۔سعودی عرب)
۔۔۔
غزل
اگر کھولو کبھی باب ِصبا تم
ادھر اک سرد جھونکا بھیجنا تم
جمال ِشب، نگار ِصبحگاہی
ستارہ تم ہو آنگن کا دیا تم
مرے پہلو بہ پہلو ،رو بہ رو ہو
مری تصویر ،میرا آئینہ تم
مری کشتی، مرا دریا، مرا دل
کنارہ تم ہو میرے ناخدا تم
زمانے سے تو دل برداشتہ ہو
مجھے بھی چھوڑنے والے ہو کیا تم
تمہاری تھی تمہاری ہے یہ جاناں
تو پھر کس بات پر ہو غم زدہ تم
(جاناں ملک۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
اک اندیشہ آ گزرا ہے
صحرا سے دریا گزرا ہے
اگلے دن کی رب جانے ہے
یہ دن تو اچھا گزرا ہے
پھرذہنوں کے سورج پر سے
سوچوں کا سایا گزرا ہے
سچ ہے وہ سچ کے رستے سے
پیشہ ور جھوٹا گزرا ہے
سچے جذبوں کے پانی کا
آنکھوں سے رستہ گزرا ہے
تم گزرے ہو یا اس دل سے
تشنہ لب صحرا گزرا ہے
یہ منظر پہلے دیکھا تھا
یہ منظر گزرا گزرا ہے
(شاہد شفقت۔ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
یہ کچے رنگ ہیں گہرے میں ان کو دھو نہیں سکتی
سبھی کچھ جانتی ہوںاس لیے بھی رو نہیں سکتی
ابھی تک آنکھ کے ہر زاویے میں ہجر کے غم ہیں
تمہارے خواب آتے ہیں، مگر میں سو نہیں سکتی
پرانے پیڑ کی ٹہنی ہوں پر سر سبز ہوں اب تک
پرندے آتے جاتے ہیں میں بوڑھی ہو نہیں سکتی
مجھے وہ شعر کہنے ہیں کہ جن میں دل دھڑکتے ہوں
میں نقلی پھول آنگن میں کبھی بھی بو نہیں سکتی
بہادر میں بنوں جتنی مگر یہ بھی ہے سچ اقرا
کہ اب میں مر تو سکتی ہوں پہ تجھ کو کھو نہیں سکتی
(اقرا عافیہ۔ ٹانک،خیبرپختون خوا)
۔۔۔
غزل
وہ جس کے واسطے ہم در بدر ہیں
ہمارے حال سے وہ بے خبر ہیں
وہی کافی ہیں نصرت کو ہماری
اگرچہ دوست میرے مٹھی بھر ہیں
بنا لوں گا میں تجھ سے اور لاکھوں
مرے پہلو میں دیکھو کوزہ گر ہیں
تمہاری ڈھیل دینے کی وجہ سے
کمینے بھی یہاں پرمعتبر ہیں
رفو ہوتا نہیں اک دل بھی ان سے
بہت بیچارے میرے چارہ گر ہیں
تمہارے شہر کے یہ لوگ جوگیؔ
محبت بانٹنے ہیں فتنہ گر ہیں
(حفیظ جوگی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
آنسوؤں میں بہا دیے سب غم
رب کو جا کر بتا دیے سب غم
ایک کن کی صدا لگائی اور
اس نے فوراً مٹا دیے سب غم
مجھ کو کل تک رلا رہے تھے جو
قہقہے میں اڑا دیے سب غم
آپ کو بھول جانا ایسا ہے
جیسے میں نے بھلا دیے سب غم
خط پرانے جلا دیے میں نے
یعنی میں نے جلا دیے سب غم
غم بھی ضائع نہیں کیے ہم نے
شاعری میں سجا دیے سب غم
(علیزہ زہرہ۔کراچی)
۔۔۔
غزل
ہم لوگ کیا بتائیں کیسے بڑے ہوئے ہیں
آنکھوں میں رتجگے اور آنسو لیے ہوئے ہیں
نفرت، حسد، عداوت، آزُردگی، ملامت
کتنے برے رویوں پر ہم جمے ہوئے ہیں
جنگل سے اب پرندوں کو گھر میں لانا ہوگا
کچھ لوگ گھونسلوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں
اک شعر ہم بھی لکھ دیں آخر اویس قرنی
راہِ خیال پر ہم کب سے کھڑے ہوئے ہیں
(اویس قرنی۔کے پی کے)
۔۔۔
غزل
ضرورت سے زیادہ سوچنا اچھا نہیں ہوتا
نظر بھر کر کسی کو دیکھنا اچھا نہیں ہوتا
کوئی تصویر آنکھوں سے ہتھیلی پر اتر آئے
تو اس کو بے تکلف چومنا اچھا نہیں ہوتا
کسی حد تک اگرچہ ضبط لازم ہے محبت میں
مگر سیلِ رواں کو روکنا اچھا نہیں ہوتا
اسے سمجھاؤ خالد ؔدل میں گنجائش کرے پیدا
کہ ہر اک بات پر تو روٹھنا اچھا نہیں ہوتا
(خالد کھوکھر۔ رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہیں ایسی آنکھیں
وہ مجھے جان سے بھی لگتی ہیں پیاری آنکھیں
لاکھ چلمن میں چھپا لو نہیں چھپنے والی
تیری جنت سے حسین راج دلاری آنکھیں
جس کو اک بار یہ دیکھیں اسے گھایل کردیں
ایسی آنکھیں ہیں تری تیغ کی جیسی آنکھیں
جانِ من جانِ تمنا تجھے معلوم نہیں
رب نے فرصت میں تری خوب سنواری آنکھیں
مرتضیٰ ؔدیکھ کے جس چیز کو شب سوتا ہے
ہیں وہی نین وہی جان سے پیاری آنکھیں
(مرتضٰی شاہین ۔بدین)
۔۔۔
غزل
تمہارے نقش کٹیلے نہیں رہے مرے دوست
جو منتظر تھے وہ پیلے نہیں رہے مرے دوست
مجھے پرندوں کے نغموں سے جی ہے بہلانا
کہ لوگ اتنے سریلے نہیں رہے مرے دوست
میں لڑکھڑاتا ہوں یوں ہی تمہیں دکھانے کو
اگرچہ نین نشیلے نہیں رہے مرے دوست
غم ِ حیات پہ کلکاریاں لٹا ڈالیں
جوان چھیل چھبیلے نہیں رہے مرے دوست
تجھے شکیل ؔدکھانا ہے بھائو بھید اپنا
کہ منفرد وہ قبیلے نہیں رہے مرے دوست
(محمد شکیل ۔نیو اسلام آباد)