سراپا عنایت۔۔۔۔ عنایت علی خان

کلیم چغتائی  اتوار 9 اگست 2020
ان سے ملنے والا ہر فرد یہی سمجھتا تھا کہ پروفیسر صاحب سب سے زیادہ اسی سے محبت کرتے ہیں۔ فوٹو :فائل

ان سے ملنے والا ہر فرد یہی سمجھتا تھا کہ پروفیسر صاحب سب سے زیادہ اسی سے محبت کرتے ہیں۔ فوٹو :فائل

اسلام آباد کا بین الاقوامی کے ہوائی اڈے پر آسمان گھنے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ 1987ء کی اس شام بھی حسبِ معمول مسافروں اور ان کو الوداع کہنے یا استقبال کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ میری نظریں کسی شناسا چہرے کو تلاش کر رہی تھیں۔ میں ان دنوں بین الاقوامی ماہنامہ” رابطہ” کے شعبۂ ادارت سے وابستہ تھا۔

میرے دیرینہ دوست سلیم مغل بھی اس سفر میں ساتھ تھے۔ ہمیں ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے اسلام آباد مدعو کیا تھا جہاں انہوں نے دعوہ اکیڈمی کے شعبۂ بچوں کا ادب کے تحت ایک سہ روزہ کیمپ کا بندوبست کر رکھا تھا۔ اس کیمپ میں بڑے بڑے نام شامل تھے۔ میرزا ادیب، مسعود احمد برکاتی، ڈاکٹر اسد اریب، پروفیسر عبدالجبار شاکر، سعید لخت، مقبول انور داؤدی، طالب ہاشمی اور دیگر۔ اس وقت تک ہمارا خیر مقدم کرنے والے منتظمین کا کوئی نمائندہ وہاں پہنچ چکا تھا اور اسلام آباد پہنچنے والے اپنے مطلوبہ مسافروں کی موجودگی کا اطمینان کر رہا تھا۔

اچانک میری نظر گھنی اور طویل داڑھی والے ایک سرخ و سفید بزرگ پر پڑی۔ انہوں نے شلوار قمیص پر واسکٹ زیب تن کر رکھی تھی، سر پر جناح کیپ تھی۔ ابھی میں انہیں غور سے دیکھ ہی رہا تھا کہ منتظمین کے نمائندے نے انہی بزرگ سے استفہامیہ انداز میں کہا،”پروفیسر عنایت علی خان؟” جواب میں بزرگ کی باوقار آواز سنائی دی۔ انہوں نے ذرا لہک کر جواب دیا تھا، ” جی جناب! پروفیسر عنایت علی خان!”

یہ پروفیسر عنایت علی خان سے میری پہلی شناسائی تھی۔

جب ہم اسلام آباد پہنچے تو اسی دن سے پروفیسر عنایت علی خان کی شگفتہ مزاجی کے جوہر مجھ پر کھلنا شروع ہوئے۔ بظاہر نہایت متشرع اور دین دار نظر آنے والے یہ بزرگ ایسے ہنسوڑ ثابت ہوں گے، یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ہر بات پہ وہ کوئی نہ کوئی پُرلطف فقرہ چست کر جاتے، اس طرح کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ان کی شگفتہ مزاجی نے کیمپ کی تمام تر کارروائی کے دوران کبھی اکتاہٹ کا شکار نہ ہونے دیا۔ اسی سفر میں ان سے دلی قربت ہو گئی اور فرصت کے لمحات میں بہت سی باتیں ہوئیں۔

کیمپ کے آخری دن منتظمین تمام مہمانوں کو تفریح کی غرض سے شکر پڑیاں لے گئے۔ فرصت کے ان لمحات میں پروفیسر عنایت علی خان نے وہ وہ پھلجھڑیاں چھوڑیں کہ تمام مہمانوں کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ محترم طالب ہاشمی صاحب جو نہایت ذی علم شخصیت تھے اور ہمہ وقت سنجیدہ رہتے تھے، وہ بھی بلاتکلف ہنس رہے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا تھا “ہم یبوست زدہ لوگ نہیں ہیں!”

اگلے دن ہمارا ارادہ تھا کہ اسلام آباد میں بعض معروف ادیبوں اور شعراء سے ملاقات کی جائے۔ دعوہ اکیڈمی والوں نے گاڑی کا انتظام کر دیا۔ ہم مقتدرہ قومی زبان کے دفتر بھی جا پہنچے۔ ان دنوں مقتدرہ کے صدر نشین ڈاکٹر وحید قریشی تھے۔ اتفاق یہ کہ چند ہی دن قبل ماہنامہ “رابطہ” کو ڈاکٹر وحید قریشی کا ایک خط موصول ہوا تھا۔ یہ خط انہوں نے “رابطہ” کے شعبۂ ادارت کے ایک خط کے جواب میں ارسال کیا تھا۔ “رابطہ” نے ان دنوں انگریزی الفاظ کے اردو متبادل تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔

اس ضمن میں “اوور سیز پاکستانیز” کے لیے ایک لفظ “پاکبان” تجویز کیا گیا تھا۔ “رابطہ” نے مقتدرہ کے صدر نشین سے اس سلسلہ میں راہنمائی چاہی تھی جس کے جواب میں ڈاکٹر وحید قریشی کا کچھ خفگی بھرا خط موصول ہوا تھا کہ اس طرح ہر فرد اگر الفاظ وضع کرنا شروع کر دے تو یہ غیرمناسب ہوگا۔ خیر ہم مقتدرہ کے دفتر پہنچے تو میں نے پروفیسر عنایت علی خان کو صورت حال بتا کر کہا کہ میں ڈاکٹر وحید قریشی کے سامنے نہیں جانا چاہتا، آپ مل آئیے، میں مقتدرہ میں کچھ دیگر افراد سے مل لوں گا۔ انہوں نے جواب نہ دیا اور مجھے لیے لیے سیڑھیاں چڑھتے گئے، یہاں تک کہ ہم ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کے کمرے میں داخل ہوگئے۔ اب ڈر کے مارے میرا برا حال کہ جانے کتنی ڈانٹ پڑے۔

پروفیسر عنایت علی خان نے میرا تعارف کروایا اور یہ بھی بتا دیا کہ یہ آپ کے پاس آنے سے ڈر رہے تھے ، “ڈر” نکالنے کے لیے میں انہیں آپ کے پاس لے آیا ہوں! میری توقع کے برخلاف ڈاکٹر وحید قریشی بہت شفقت سے پیش آئے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو بلا کر ہدایت کی کہ پروفیسر عنایت علی خان صاحب کے ساتھ جتنے مہمان یہاں آئے ہیں ان کو مقتدرہ کے تحت شائع شدہ کتب کی فہرست دکھا دیں، ہر مہمان دو کتابیں منتخب کر سکتا ہے جو اسے مقتدرہ کی طرف سے بطور تحفہ ابھی پیش کردی جائیں گی۔ میں نے بھی فہرست ملاحظہ کی اور پروفیسر عنایت علی خان صاحب کی وجہ سے مجھے دو بے حد عمدہ کتابیں “اندلس کا تاریخی جغرافیہ” اور “جغرافیہ خلافتِ مشرقی” مل گئیں جو “رابطہ” میں تاریخی شخصیات پر مضامین لکھتے ہوئے میرے بہت کام آئیں۔

اسی دن میں، سلیم مغل اور پروفیسر عنایت علی خان فیصل مسجد بھی گئے۔ فیصل مسجد سے نکلنے کے بعد میں پروفیسر عنایت علی خان صاحب سے ان کی شگفتہ مزاجی کا راز پوچھے بغیر نہ رہ سکا کیوںکہ انہوں نے گذشتہ شب شکر پڑیاں کی پہاڑی پر صدا کاری کے جوہر بھی دکھائے تھے۔ غالب کی ایک مشہور غزل کو انہوں نے ذرا سی ترمیم کرکے پشتو لب و لہجہ میں سنایا تو موقع پر موجود تمام مہمانوں کی ہنسی رکنے ہی میں نہ آ رہی تھی۔ میرے سوال کے جواب میں پروفیسر صاحب نے بتایا کہ مزاح سے دل چسپی انہیں طالب علمی کے دور سے ہے۔ کالج کی تقریبات میں بھی وہ صداکاری اور پیروڈی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔

اس کے بعد گویا پروفیسر عنایت علی خان صاحب سے گہرا دلی تعلق ہوگیا۔ ان کے حیدرآباد میں قیام کے باعث ملاقاتیں تو کم کم ہی ہوتی تھیں لیکن خط و کتابت باقاعدہ ہونے لگی جس کے نتیجے میں میری ان سے ایک احترام آمیز بے تکلفی قائم ہو گئی۔ جب وہ کراچی تشریف لاتے تو نارتھ ناظم آباد یں اپنی بیٹی کے گھر ٹھہرتے اور اپنی آمد کی اطلاع مجھے بھی عنایت فرماتے۔ میں بلاک ایچ میں واقع ان کی بیٹی کے گھر جا کر شرفِ ملاقات حاصل کر لیا کرتا تھا۔ ہمارے درمیان ایک بڑی قدرِمشترک مزاح تھا۔ مجھے بچپن ہی سے طنز و مزاح سے دل چسپی رہی ہے۔ پروفیسر صاحب بڑے معیاری مزاح گو سخنور تھے۔ ان کے کلام میں مزاح سے زیادہ طنز کی آمیزش ہوتی تھی۔ ان کی کئی منظومات ہم نے ماہنامہ” رابطہ” میں شائع کیں۔”ذرا یہ ورلڈ کپ ہولے۔۔۔” انہوں نے سب سے پہلے “رابطہ” ہی کو ارسال فرمائی تھی۔ ان دنوں ہماری مجبوری یہ تھی کہ “رابطہ” بیرون ملک چَھپتا تھا اور وہاں کے پبلشنگ ہاؤس کے منتظمین کی شرط تھی کہ آنے والے شمارے سے دو ماہ قبل ہی اس شمارے کے تیار شدہ تمام صفحات انہیں فراہم کردیے جائیں۔ یوں اس عمل میں تقریباً ڈھائی ماہ لگ جاتے تھے۔ اس دوران، ورلڈ کپ منعقد ہو کر ختم ہوچکا ہوتا، لہٰذا ہمیں پروفیسر صاحب سے مجبوراً دلی معذرت کرنی پڑی۔

ہم نے پروفیسر صاحب کو کراچی میں ہونے والے کئی پروگراموں میں مدعو کیا۔ ان پروگراموں میں شرکت کے لیے انہیں لے کر آنے اور واپس گھر چھوڑنے کا اتفاق بھی مجھے ہوا۔ ان سے گفتگو شروع ہوتی تھی تو جی چاہتا تھا کہ ختم نہ ہو۔ کیا شگفتہ بیانی تھی ان کی کہ روتا بسورتا فرد بھی مسکرا اٹھے۔ وہ ہر عمر اور ہر جنس کے فرد سے اس کے مزاج، ذوق اور استعداد کے مطابق گفتگو کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔

لگے ہاتھوں، پروفیسر صاحب کی حاضر جوابی کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
کراچی میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا۔ حاضرین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مشاعرے کا موضوع “پاکستان” رکھا گیا، اس کے ساتھ ساتھ شعراء کرام کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ چاہیں تو بچوں کے لیے کہی گئی کوئی نظم بھی پیش فرماسکتے ہیں۔ مشاعرہ تقریباً اختتام کو پہنچنے والا تھا۔ دو تین بزرگ شعراء کرام رہ گئے تھے۔ ان میں سے ایک بزرگ شاعر کو دعوتِ کلام دی گئی۔ انہوں نے مائیک سنبھال کر، بچوں کے لیے کہی گئی ایک دل چسپ نظم سنائی۔ نظم کا موضوع تھا، “چڑیا گھر کی سیر۔” اس نظم میں مختلف جانوروں کا احوال بیان کرتے ہوئے وہ گدھے کے پنجرے تک جا پہنچے۔ بند کا آخری مصرع تھا جسے انہوں نے بڑی گھن گرج کے ساتھ ادا کیا، دراصل یہ گدھے کی للکار تھی۔ مصرع کچھ یوں تھا: میری طرح کسی اور گدھے کو ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے دیکھا؟” یہ سنتے ہی اسٹیج پر ان بزرگ شاعر کے عین پیچھے بیٹھے پروفیسر عنایت علی خان صاحب نے زور زور سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا: “نہیں صاحب! نہیں دیکھا! بالکل نہیں دیکھا!!!”

ایک بار دعوہ اکیڈمی کے تحت بچوں کے ادب پر اسلام آباد میں ایک کیمپ منعقد ہوا۔ اس میں پروفیسر صاحب اور مجھے دونوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ رات میں قدرے فرصت تھی تو ہم دونوں اپنے اپنے بستر پر ذرا پاؤں پسار کر بیٹھ گئے اور گپ شپ کرنے لگے۔ کچھ دیر میں مجھے ایک خیال آیا اور میں نے کہا، “ارے مجھے تو خط لکھنا ہے” یہ کہہ کر کاغذ قلم سنبھالا اور “خط بنانے” لگا۔ پروفیسر صاحب چند لمحے مجھے دیکھتے رہے، پھر انہوں نے بھی اپنے بیگ سے کاغذ اور قلم نکالا اور “جو نیت امام کی” کہہ کر وہ بھی کچھ لکھنے میں مصروف ہو گئے۔!

ایک بار ذکر چھڑا کہ اردو کے بعض الفاظ کو کچھ لوگ غلط فہمی میں غلط پڑھ جاتے ہیں اور اس غلطی پر قائم رہتے ہیں۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کئی دل چسپ مثالیں دیں، جن میں سے ایک یاد رہ گئی۔ وہ کچھ یوں تھی: “غِینم” نے “شنجون” مارا اور اپنی سپاہ “دُم نجود” رہ گئی۔ “!

مزاح سے اس گہرے تعلق کے باوجود پروفیسر عنایت علی خان ایک نہات دین دار، متقی اور باعمل انسان تھے اور موقع پر سچ بات کہہ دینے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ میری زبان و املا کی کئی اغلاط کی اصلاح انہوں نے چھوٹتے ہی فرمادی۔ ان کی بروقت راہنمائی سے بے حد خوشی ہوتی تھی۔ انہوں نے سنجیدہ کلام بھی کہا اور معرفت میں ڈوبے ہوئے حمدیہ اور نعتیہ اشعار بھی کہے جن کے ذریعے سے انھوں نے بعض غلط تصورات کی حوصلہ شکنی بھی کی۔ لیکن ان کی مزاح گوئی ان کے سنجیدہ کلام پر غالب آ گئی اور اس نے شہرت اور مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔

پروفیسر صاحب حالاتِ حاضرہ کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ انہوں نے بڑی بڑی، قد آور اور صاحبِ اختیار سیاسی شخصیات تک کو نہ بخشا اور ان کے غلط فیصلوں یا عمل پر بر وقت، بلاجھجھک گرفت کی۔ ان کا کمال یہ تھا کہ طنز اور ظرافت کے پیرائے میں انہوں نے ایسے کاٹ دار اشعار کہے کہ ہدف سوائے تلملا کر رہ جانے کے، کچھ نہ کر پاتا تھا۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ پروفیسر صاحب کو کسی شخصیت پر چوٹ کرنے کی پاداش میں کوئی نوٹس دیا گیا ہو یا عدالت میں طلبی ہو گئی ہو۔

ان کی دینی اور سیاسی وابستگی کسی سے پوشیدہ نہ تھی لیکن ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کا بے حد احترام کرتے تھے اور ان کے طنّاز اشعار کو لطف لے کر سنتے تھے۔ اللہ نے پروفیسر صاحب کو بہت اچھی آواز، نیز، تحت اللفظ اور ترنم کے ساتھ دونوں طرح ادائیگی کی بہترین صلاحیت عطا کی تھی۔ وہ کسی لفظ یا جملے کی کیفیت مثلاً ڈانٹ ڈپٹ، حیرانی، خوشامد وغیرہ کے لحاظ سے اسے مکمل صدا کاری کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ اس طرح ان کے اشعار سنے والوں کو دوہرا لطف آتا تھا۔ جب وہ اپنی رعب دار اور واضح آواز میں کوئی شعر، قطعہ یا نظم ترنم کے ساتھ یا تحت اللفظ سناتے تو سامعین کے قہقہوں اور واہ واہ کے شور سے مشاعرہ گاہ کی چھت اُڑ جاتی تھی۔

وہ ہر ایک سے بہت محبت اور شفقت سے ملتے تھے، اس طرح کہ ان سے ملنے والا ہر فرد یہی سمجھتا تھا کہ پروفیسر صاحب سب سے زیادہ اسی سے محبت کرتے ہیں۔ اس طرح کی خوش فہمی مجھے بھی رہی۔ شاید میری خوش فہمی اسی طرح درست تھی جس طرح ان سے ملنے والا ہر فرد یہی احساس لے کر واپس جاتا تھا۔

میرا خیال ہے کہ پروفیسر عنایت علی خان نے ایک باکردار اور باعمل انسان کی حیثیت سے جس طرح زندگی گزار دی، تنگی ترشی کے باوجود لب پر حرفِ شکایت نہ لائے، جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے اللہ کو پیارا ہوگیا، غم زدہ باپ نے صبروشکر کیا، زندگی بھر محبتیں بانٹیں، اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ان کے رب کی نہ ختم ہونے والی عنایات ان کی منتظر ہوں گی اور ان کے لاکھوں مداحوں کی خلوص آگیں دعائیں ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتی رہیں گی۔n

استادِ گرامی، استاد عنایت
کلیم چغتائی

اخلاق و شرافت و لطافت کا وہ پیکر
ایمان کا مضبوط تھا کردار کا جوہر

نکھری ہوئی تہذیب کی روشن تھا نشانی
شائستگی و حلم و قناعت کا وہ مظہر

پُرلطف سخن اس نے جس انداز کا باندھا
ہر لب کو تبسم کا دیا تحفۂ ازہر

بَل کھا کے ہی رہ جاتا تھا بنتا جو نشانہ
تیر اس کا نشانے ہی پہ لگتا تھا برابر

شمشیر کی سی کاٹ تھی اشعار میں اس کے
تھی اس کی ظرافت بڑی طنّاز و برتر

پیکر تھا وہ گوناگوں صفات اور غنا کا
سنجیدہ بھی وہ شوخ بھی وہ اور قلندر

غوّاصی کرو بحر کی یا دشت نوردی
لاؤ گے کہاں سے بھلا تم ایسا سخنور؟

یاد اس کی بسی دل میں خلش آفریں بن کر
استاد عنایت کا ہوا نقش ہے دل پر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔