چوہدری صاحب کتاب لکھیں
سابق چیف جسٹس اس قوم کو یہ بتا دیں کہ وہ کونسی ٹھوس رکاٹیں جو ہمیں اپنی منزل کی طرف یکسوئی کے ساتھ بڑھنے نہیں دے رہیں
LOS ANGELES:
صرف رپورٹنگ میں ساری زندگی صرف کر دینے کی بدولت میں اس ملک کے چند صحافیوں میں سے ایک تھا جسے 2007ء کے اس دن کا پورا علم تھا جب جنرل مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس کو اپنے دفتر استعفیٰ دینے کے لیے بلایا تھا۔ مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی کوئی شرمندگی نہیں کہ ماضی کا اسیر ہوتے ہوئے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ افتخار چوہدری ''ناں'' کہہ کر واپس آ جائیں گے۔
مشرف کے ہاتھوں 3 نومبر 2007ء کے دن ان کی برطرفی کے بعد بھی مجھے یقین تھا کہ وہ ایک دن بحال ہو جائیں گے۔ بہتری کی کوئی امید رکھے بغیر بھی ان کی بحالی کی تحریک میں اپنی حیثیت میں جو حصہ ڈال سکتا تھا وہ ضرور ڈالا۔ بچپن سے ''لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے'' سے زیادہ ''بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے'' والا رویہ اپنی عادت بن چکا ہے اور پنجابی کے عظیم شاعر وارث شاہ نے واضح طور پر بیان کر رکھا ہے کہ ایک عام انسان اپنی عادت کے سوا ہر چیز سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔
جنرل مشرف کے دنوں کے برعکس مجھے جمہوری حکومت کے قیام کے بعد پورا یقین تھا کہ صدر آصف علی زرداری ان کی بحالی روک نہ پائیں گے۔ اپنا یہ خیال میں نے کئی بار ان سے تنہائی کی ملاقاتوں میں دہرایا اور ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے اسے خوش دلی سے برداشت کیا۔
ان گنت واقعات کا ایک ہجوم ہے جو اس وقت میرے ذہن میں جسٹس افتخار چوہدری کے حوالے سے اُمڈتا چلا آ رہا ہے۔ ان کا ذکر ایک اخباری کالم نہیں پوری کتاب کا تقاضا کرتا ہے جسے لکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ افتخار چوہدری اب اپنے منصب سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے میں قصیدہ گوئی نہ سیکھ پایا۔ بہت ساری باتوں سے بلکہ انھوں نے مجھے حیران، پریشان اور کبھی کبھی ناراض بھی کیا۔ ایسی باتوں کا ذکر اس وقت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ سچی بات لکھنے کا موقع وہ ہوتا ہے جب اسے لکھنا محال نظر آئے۔ وقت گزرنے کے بعد بولے جانے والا سچ کئی حوالوں سے سفید جھوٹ سے بھی زیادہ ناگوار محسوس ہوتا ہے۔
شکوہ بس اتنا مناسب رہے گا کہ چوہدری صاحب آخر دم تک اساطیری داستانوں والے تنہا سورما ہی رہے۔ زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ وہ عام لوگوں کے لیے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ساری توانائیوں کا رخ اپنے ادارے کی طرف ہی موڑے رکھتے۔ نچلی عدالتوں کا حال اب بھی بہت پتلا ہے۔ تاریخ پر تاریخ کی روایت اسی طرح قائم ہے۔ دن دہاڑے گھناؤنے جرائم کرنے والے افراد پکڑے بھی جائیں تو انھیں سزائیں نہیں مل پاتیں۔ سرکاری وکیل رونا روتا ہے کہ پولیس نے اسے ایک کمزور کیس دیا ہے۔ جرائم سے کہیں زیادہ گھمبیر دیوانی معاملات ہیں۔ عام انسانوں کی اس ضمن میں مشکلات اپنی جگہ موجود ہیں۔ مگر وسیع تر تناظر میں جو بات بہت اذیت دیتی ہے، وہ ایسے Stay Orders ہیں جن کی بنیاد پر بہت طاقتور ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اس ملک کے وسائل کو بڑی سفاکی سے نچوڑ رہی ہیں۔کاش کہ جسٹس چوہدری کے ہوتے ہوئے ان معاملات کے حوالے سے کوئی دیر پا حل سامنے آ سکتے۔کوئی ایسا ادارہ جاتی نظام بن جاتا جو ایک عام صارف کو اعتماد دیتا کہ ہمارے عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے اس ملک میں مختلف مالیاتی شعبوں پر حاوی اجارہ دار گروہ من مانیاں نہیں کر پائیں گے۔
جو ہوا اور جو نہ ہو سکا اب اس کا ذکر کرنے سے کیا فائدہ۔ آئیے آیندہ کی گفتگو کرتے ہیں اور اس ضمن میں مجھے عرض کرنے دیجیے کہ وہ لوگ افتخار چوہدری کے ہرگز دوست اور بہی خواہ نہیں جو انھیں سیاست کے میدان میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ عمران خان بھی ایک زمانے میں بہت کرشمہ ساز نظر آیا کرتے تھے۔ مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب مرحوم جنرل مجیب الرحمن نے بڑے فخر اور رعونت کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اسے ایک سیاستدان کے طور پر Launch کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان کل وقتی سیاست دان بن گیا تو پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔ میں نے بعد احترام ان سے شدید اختلاف کیا تھا اور آج بھی اپنی اس سوچ پر قائم ہوں۔
سیاست بنیادی طور پر سمجھوتے کرنے کا کھیل ہے۔ یہ بڑی لچک اور بے تحاشا صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں جھانک کر ان کی حقیقی اُمنگوں کو پڑھ لینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے ایک خاص قسم کا NAG چاہیے۔ لوگوں کی اُمنگوں کو پہچان کر ان کے حصول کے نام پر آپ اپنے گرد ایک ہجوم تو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ مگر ہجوم سے کہیں زیادہ ضرورت ہجوم میں شامل لوگوں کو ''ووٹر'' بنانا ہوتا ہے۔ ووٹر آپ کو اقتدار تک پہنچا دیں تو پھر ''حکومت'' کرنا پڑتی ہے۔ حکومت کرتے ہوئے آپ کو مقبول کے بجائے سخت فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ برسوں سے قائم ایک نظام کی بھول بھلیوں سے گزرتے ہوئے Deliver کرنے کے بڑے ہی تخلیقی طریقے سوچنا ہوتے ہیں۔ ''عوام کی محبت'' سے مالا مال Populist ہیرو یہ تمام باتیں جو میں نے بیان کی ہیں ان کے لیے جبلی طور پر تیار نہیں ہوتے۔
افتخار چوہدری کے لیے ''عوام کی محبت'' 2010ء کی اس رات اپنے انتہا کو پہنچی جب یوسف رضا گیلانی کو ٹیلی وژن پر آ کر ان کی بحالی کا اعلان کرنا پڑا۔ اس کے بعد چوہدری صاحب نے جو کچھ کیا وہ سپریم کورٹ کی طاقت کی بنا پر کیا۔ اس طاقت کے مقابلے میں ''نااہل اور بدعنوان'' سمجھے جانے والے سیاست دان بہت کمزور تھے۔ سیاست دان بن کر چوہدری صاحب ان کے برابر آ جائیں گے۔ ان کی کوئی اپنی ذاتی Edge نہیں رہے گی۔
ایک جرمن مفکر کا مشہور مقولہ ہے کہ کسی انسان کی اصل طاقت اپنی حدود (Limits) کو پہچان لینا ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ سے حاصل طاقت کی بنیاد پر چوہدری صاحب نے بہت سارے لوگوں اور اکثر جائز اور چند ناجائز وجوہات کی بناء پر ناراض بھی کیا ہے۔ وہ ان کے ازلی دشمن بن چکے ہیں اور اس وقت کے وحشیانہ انتظار میں ہیں جب انھیں اپنے حساب برابر کرنے کا موقعہ مل سکے۔ چوہدری صاحب کو ان سب سے اجتناب برتنا ہو گا۔ زیادہ بہتر ہو گا کہ اپنی فرصت کے ایام میں گزرے زمانوں کو یاد کریں اور سب کچھ لکھ ڈالیں۔ مقصد اس لکھنے کا چند لوگوں کو تاریخ کے لیے بدنام کرنا نہ ہو بلکہ اس قوم کو یہ بتا دیں کہ وہ کونسی ٹھوس رکاٹیں جو ہمیں اپنی منزل کی طرف یکسوئی کے ساتھ بڑھنے نہیں دے رہیں۔