امیر حیدر کاظمی دوستوں کو چھوڑ گئے
کاظمی صاحب دوستوں کے دوست اور ایک قومی سوچ کے انسان تھے وہ بی بی سے قریب تر تھے۔۔۔
KARACHI:
مولانا الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا ہے:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اس عالم ناپائیدار کو درست کرنے کے لیے لوگ کب سے سرگرداں ہیں کہ انسان سکھ کا سانس لے۔ ازل سے یہ جنگ جاری ہے۔ لاکھوں فلسفی، شانتی کار، اوتار، نبی، رسول آتے رہے کہ انسان کو انسانیت کے رموز سے آشنا کریں۔مگر غلبے کی سیاست جاری رہی۔ آج بھی انسان دوسروں کے حقوق سے پوری طرح آشنا نہ ہوا ۔
اگر اس پوری صدی کا موازنہ کیا جائے اور تاریخ کے سفرکا مطالعہ کریں تو ہم مجموعی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں گوکہ اس دوران مشکلات بھی آتی رہی ہیں لوگ افکار کے اسیر ہوتے رہتے ہیں۔ قیام پاکستان بھی ایک فکری سفر تھا جو قائد اعظم نے شروع کیاجس نے پورے برصغیر میں تہلکہ مچادیا اور پورے مسلمانان ہند اٹھ بیٹھے بھارت کے صوبہ بہار میں بھی بیداری کی یہ لہر بلند اور تند تھی امیر حیدر کاظمی کے والد سید منظور حسین کاظمی بھی آل انڈیا مسلم لیگ صوبہ بہار کے ایک عہدے دار تھے۔ کاظمی صاحب ایک مسلم لیگی گھرانے کے چشم و چراغ تھے مگر عالمی تغیرات اور عالمی تحریکیں ان پر خاصی اثرانداز رہی ہیں خصوصاً نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے ان پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے ۔ میری ملاقات امیر حیدر کاظمی سے 1965 میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ایک اجلاس میں ہوئی تھی کیونکہ ڈاؤ میڈیکل کالج این ایس ایف کے مرکزی دفتر ہی کا کام کرتا تھا ۔ میرا کاظمی صاحب تک پہنچنے کا سفر بھی عجیب وغریب تھا 1963 میں میٹرک کا امتحان صدر میری کلاسو اسکول کراچی سے پاس کیا داخلے کے لیے نیشنل کالج گیا اس کے مین گیٹ پر فتح یاب علی خان اور معراج محمد خان موجود تھے۔
انھوں نے داخلے کے لیے گائیڈ کیا اورواپسی پر این ایس ایف کا ممبر شپ کارڈ پر کروالیا فتح یاب علی خاں اور معراج ایک اچھے مقرر تھے انھوں نے تقریروں کے جوہر سے آشنا کرنا شروع کردیا اور آخر کار مجھے نیشنل کالج کی ڈبیٹنگ سوسائٹی سے کالج نے منتخب کرلیا اب آنا جانا شروع ہوگیا ۔ ایک روز 1965 کی پاک بھارت جنگ پر این ایس ایف کی ورکرز کانفرنس میں مقررین کے جوہر دیکھے جہاں امیر حیدر کاظمی سے ملاقات ہوئی ان کی آواز گرج دار اور خطابت میں وقفہ اور دلائل بھی دیکھے وہ بھی متاثر کرگئے ۔ ان کی تقریر میں سوشلزم کے بجائے معاشی مساوات کا تذکرہ ہوتا تھا ان کا اثر گورنمنٹ کالج ناظم آباد پر بہت گہرا تھا۔ بعدازاں 1966 میں انھوں نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں صدر اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے سید شہنشاہ حسین کے نمایندہ کو شکست دی۔ 12 شہر بدر طلبہ جو جبل پور میں مسلم کش فسادات بھارت میں ہوئے اس پر احتجاج کی پاداش میں نہ صرف جیل بھیجا گیا بلکہ شہر بدر بھی کیا گیا۔ طلبہ تحریک صاف ستھری رکھنا ان کا مقصد اور مار دھاڑ کرنا ان کے مزاج کے خلاف تھا ۔
ان کا فلسفہ یہ تھا کہ مظلوم اور مضبوط بن کر کالجوں میں الیکشن لڑا جائے اور انتظامی امور کو بخوبی چلایا جائے ایک اچھی انتظامیہ کے جو ہران میں موجود تھے۔ این ایس ایف میں کئی اقسام کے کارکنان موجود تھے۔ کاظمی صاحب کے ارد گرد دونوں موجود تھے اور وہ دونوں گروپوں کو لے کر چلنے کے عادی تھے لیکن ان کی کابینہ میں اشتراکیت کو پسند کرنے والے لوگ زیادہ تھے۔ اس لیے 1968 اور 1970 کے اخبارات میں عام طور پر خبروں میں کاظمی صاحب کی قیادت کو روس نواز یعنی این ایس ایف پرو ماسکو کہا جاتا تھا کیونکہ نیشنل عوامی پارٹی سے این ایس ایف کے قریبی روابط تھے اور این ایس ایف عالمی پیمانہ پر روس کی سامراج دشمن پالیسیوں کی ہمنوا تھی مگر ذاتی طور پر روس کی پالیسیوں کی حمایت میں بیان نہیں دیا۔
البتہ ویتنام کی جنگ آزادی، فلسطین کی جنگ آزادی کی حمایت میں جلسے اور جلوس منعقد کرتی رہی۔ 1965 کی جنگ، پھر معاہدہ تاشقند جو پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے لال بہادر شاہ ستری سے معاہدہ ہوا اس میں اس کو مجموعی طور پر این ایس ایف بین بین تھی مگر ذوالفقار علی بھٹو اور تاشقند معاہدہ کی تفصیلات پر این ایس ایف نے کوئی واضح لائن نہ لی جب کہ دبے دبے ذوالفقار علی بھٹو اس کی ان دنوں مخالفت کرتے تھے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے پھر وزیر اعظم کے شہنشاہ ایران لابی یعنی اسکندر مرزا اور ناہید مرزا سے اچھے تعلقات تھے اور خاص طور سے نصرت بھٹو اس لابی سے زیادہ قریب تھیں۔ چونکہ روس اور امریکا ان دنوں سرد جنگ کی لپیٹ میں تھے اس لیے معاہدہ تاشقند کو زیادہ برا بھلا کہا گیا اور آج تک کوئی بھی پاکستانی حکمران معاہدہ تاشقند کی واضح برائی بتانے سے قاصر رہا ۔البتہ یہ معاہدہ عوام کو ابھارنے اور بھارت سے ہزار سال جنگ کی باتیں کرنے والوں کو مجموعی طور پر متاثر کر رہا تھا ۔
این ایس ایف کے اکثریتی کارکنان متفق نہ تھے لیکن ایوب خان کی آمرانہ حکومت کی مخالفت کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ایوب خان نے 1968 میں جب دس سالہ جشن ڈیکوراما منانا شروع کیا تو معراج محمد خان نے مخالفت کی ابتدا کی اور عوام میں ایک ہلکی سی پذیرائی دیکھنے میں آئی معراج محمد خان، ڈاکٹر رشید حسن خان کو ڈیکوراما کی مخالفت میں نظر بند کردیا گیا۔ اس مسئلے پر امیر حیدر کاظمی نے بھرپور غور و فکر کیا۔ 8 اکتوبر 1968 کو آدم جی سائنس کالج میں آل پارٹیز اسٹوڈنٹس کنونشن بلایا جس میں کراچی کے 26 کالجوں کے صدور اور جنرل سیکریٹریوں نے شرکت کی جن میں بیشتر نمایندے این ایس ایف کے عہدیدار تھے۔ غرض شہر میں طبل جنگ بج گیا اور پورے ملک میں طلبہ تحریک چلانے کے لیے طلبہ متحد ہوگئے۔
اسی تحریک کے عمل میں امیر حیدر کاظمی این ایس ایف کے صدر اور نائب صدر اسماعیل بنگش گرفتار ہوگئے تقریباً پوری سینٹرل کمیٹی پس زنداں گئی ، یہی وہ دور تھا جب مجھے کاظمی صاحب کی قربت حاصل ہوئی کیونکہ کاظمی صاحب کے بعد راقم کو این ایس ایف کا قائم مقام صدر منتخب کیا اور تحریک کا یہ بوجھ میرے کاندھوں پر آن پڑا۔ ہر ہفتے مظاہرے، لاٹھی چارج اور جلوسوں سے واسطہ تنظیم نو یہاں تک کہ پورا ملک اس تحریک کی لپیٹ میں آگیا سیاسی تحریک جاری رہی اور بھٹو صاحب مغربی پاکستان کی نمایاں شخصیت بن کر ابھرے۔ این ایس ایف نے ایوب خان کی سبکدوشی اور ذوالفقار علی بھٹو کے نمایاں ہونے پر سکون کا سانس لیا۔ اس وقت معراج محمد خان نے بھٹو کی پارٹی میں باقاعدہ شرکت کرلی مگر کاظمی ذرا دور رہے مگر وہ بھی ایک وقت ایسا آیا کہ جب انھوں نے بھٹو صاحب کی پارٹی سے خود کو وابستہ کرلیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں وفاقی وزیر صحت کا قلمدان سنبھال لیا اس وقت این ایس ایف کے بیشتر کارکنان نظری اور فکری اعتبار سے گھر بیٹھ چکے تھے مگر وہ پارٹی کے وفادار رہے کاظمی صاحب نے وزیر صحت بننے کے بعد جو اہم کام کیا وہ مقامی فارما کمپنیوں کو لائسنس دلایا اور اسی دور میں پاکستان کی فارما سوٹیکل انڈسٹری نے اپنے وجود کو منوایا ورنہ اس سے قبل پاکستان میں قومی کمپنیوں کا کوئی اہم مقام نہ تھا اور آج پاکستانی فارما انڈسٹری میں سیکڑوں کمپنیاں کاروبار کر رہی ہیں ۔
کاظمی صاحب دوستوں کے دوست اور ایک قومی سوچ کے انسان تھے وہ بی بی سے قریب تر تھے مگر زرداری صاحب کے دور میں پارٹی سے ان کی قربت کم نظر آئی یا یوں کہیے کہ زرداری صاحب کے دور میں پرانے پارٹی کارکنوں کی فضیلت جاتی رہی یہاں تک کہ ان کی موت پر پیپلز پارٹی نے نہ کوئی پروگرام کیا اور نہ قرآن خوانی کا کوئی اہتمام۔ وہ لندن میں مقیم تھے سال میں ایک دو مرتبہ جب آتے این ایس ایف کے پرانے دوستوں سے ملتے اور واپس چلے جاتے ۔ گوکہ پارٹی میں آج بھی ان کا اثر باقی ہے مسرور احسن، امیر حیدر کاظمی کے بھانجے ہیں اور پارٹی کے سرگرم رکن ۔ امید ہے کہ وہ یا دیگر ساتھی کاظمی صاحب کی یاد میں کوئی پروگرام رکھیں گے معراج محمد خان، عبدالباری خان، راشد تقی، جاوید افتخار ان کے دیرینہ دوست عوامی جمہوری انقلاب کے داعی کاظمی کی یادیں لیے بیٹھے ہیں۔ تحریر کا دامن تنگ ہے۔ این ایس ایف کے اور دوستوں جوہر حسین، آغا جعفر، علی مختار رضوی، فتح یاب علی خان، کی طرح امیر حیدر کاظمی دوستوں کو چھوڑ گئے، عوامی جمہوریت کی زمین مزید بنجر ہوگئی۔