آرٹیکل 6 اور حکمرانوں کا حسن انتخاب
اقتداراوراختیارایسی دلکش چیزیں ہیں کہ انھیں محفوظ بنانے کیلئے انسان ایسی تدبیریں کرتاہے جنھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے
ISLAMABAD:
اقتدار اور اختیار ایسی دلکش چیزیں ہیں کہ انھیں محفوظ بنانے کے لیے انسان ایسی ایسی تدبیریں اور ایسی احتیاطیں کرتاہے جنھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اگر انسان کو یہ اختیار حاصل ہوتا کہ وہ اقتدار کو اپنے ساتھ اپنی قبر میں لے جائے تو انسان ایسا کرنے سے ذرا نہ ہچکچاتا، دوسری قوموں میں یہ بیماری کم نظر آتی ہے۔
لیکن یہاں اقتدار کس قدر قیمتی شے ہے۔ یہ دور حاضر کی فوجی نہیں بلکہ ہمارے ماضی کا تسلسل ہے۔ پاکستان میں اقتدار کے گرد آئینی فصیلیں کھڑی کرنے کا آغاز بھٹو کے دور سے ہوا۔ 1958 میں جب ایوب خان نے سول اور سیاسی حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تو پہلی بار اہل سیاست کو یہ احساس ہوا کہ فوج نہ صرف اس ملک میں سیاست دانوں سے زیادہ طاقتور ہے بلکہ ایک ایسا خطرہ ہے جس کا سدباب اور ممکنہ احتیاط ضروری ہے اسی خوف نے اہل سیاست کو فوج کے چیف آف اسٹاف کے انتخاب میں احتیاط پر مجبور کیا، اسی خوف کی وجہ سے آئین میں آرٹیکل 6 کو شامل کرنا پڑا ۔
بھٹو کا ایوب خان سے ٹکراؤ ہوگیا تو وہ اپنے منہ بولے ڈیڈی کے سامنے سلطان راہی بن کر کھڑے ہوگئے، پھر عوام نے انھیں سر پر بٹھالیا۔ بلا شبہ بھٹو پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول رہنما تھے اور اپنی اس مقبولیت پر بجا طورپر فخر بھی کرتے تھے لیکن اس مقبولیت کے آسمان پر کھڑے ہونے کے بعد انھوں نے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ایوب خان نے سیاست دانوں کو پچھاڑ کر اقتدار کیسے حاصل کرلیا؟
1947کے بعد خاص طورپر لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سول حکومتوں نے سیاست کو جس طرح گندہ کیا اور اقتدار کی لڑائیوں میں عوامی مسائل اور عوام کو جس طرح بھول گئے اور حکومتوں کی تبدیلی جس طرح کپڑوں کی تبدیلی بن گئی۔ اس منظر نامے میں کسی بھی جنرل کے لیے اقتدار کی طرف بڑھنا کوئی مشکل نہ تھا اور ویسے بھی اقتدار ہماری تاریخی کمزوری رہا ہے، لہٰذا ایوب خان نے اقتدار کی طرف چھلانگ لگائی اور اسے قابو میں کرلیا۔ بھٹو یہ بھی بھول گئے کہ وہ ایوب خان کی حکومت کے ایک اہم وزیر رہے ہیں بھٹو یہ بھی بھول گئے کہ اس ملک کے سیاست دانوں نے ایوب خان کو سیاسی چھتری اور جمہوری نقاب پہنانے کے لیے مسلم لیگ کے دو ٹکڑے کرکے ایک ٹکڑا ایوب خان کی خدمت میں پیش کردیا اور ایوب خان کی حکومت میں شامل ہوگئے۔
بھٹو جب مشرقی پاکستان کی قیمت پر اقتدار میں آئے تو انھیں سب سے زیادہ فکر یہ تھی کہ فوج کا چیف آف آرمی اسٹاف کسی ایسے جی حضوریہ کو بنایاجائے جو مستقبل میں ان کے لیے ایوب خان نہ ثابت ہو، سو ان کی نظر انتخاب اس جنرل پر پڑی جو انتہائی فرمانبردار تھا، سو انھوں نے پورے اطمینان کے ساتھ ضیاء الحق کو اس عہدہ جلیل پر فائز کردیا اور یہ بھول گئے کہ فوج کے جنرل کو اقتدار پر قبضہ کرنے میں سب سے بڑی مدد عوام کی حکمرانوں سے بیزاری اور ناراضگی دیتی ہے۔بھٹو کروڑوں عوام کو راضی رکھنے کے بجائے ایک جنرل کو راضی رکھنے کے راستے پر چل پڑے۔
جب 1977میں خود اہل سیاست ان کے سامنے سلطان راہی بن کر کھڑے ہوگئے اور ان کی پشت پرلاکھوں عوام بھی موجود تھے تو بھٹو نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو عوام ان کی راہ میں آنکھیں بچاتے تھے ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے رات رات بھر سردی، گرمی میں ان کے راستے میں پڑے رہتے تھے وہ آج ان کے مخالفین کے پیچھے کیوں کھڑے ہیں؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے بجائے بھٹو چلاتے رہے کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے مجھ سے یہ کرسی کوئی نہیں چھین سکتا، لیکن یہ کرسی اس شخص نے چھین لی جسے وہ اپنا وفادار اور بے ضرر سمجھتے تھے۔
اس وفادار اور بے ضرر جنرل نے کرسی ہی نہیں چھین لی بلکہ انھیں پھانسی کے پھندے پر لٹکاکر ان سے ان کی جان بھی چھین لی وہ جیل کی 8x8کوٹھری میں بیٹھے اپنے دوستوں اور عوام کا انتظار کرتے رہے لیکن کسی نے ان کی طرف نہیں دیکھا، وہ اپنے دوستوں اور عوام کی بے وفائی پر تو کڑھتے رہے لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ دوست تو بے وفا ہوتے ہی ہیں عوام کیسے بے وفا ہوگئے۔؟ بھٹو رات کے اندھیرے میں پھانسی گھات کی طرف بڑھتے رہے اور آئین کا آرٹیکل 6 ان کا منہ دیکھتا رہ گیا اور ان کا منتخب کردہ وفادار جنرل فاتحانہ انداز میں اقتدار کے ایوان میں داخل ہوگیا۔
ابھی ابھی کی بات ہے وینز ویلا کے رہنماء ہوگو شاویز کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وینز ویلا کی گلی گلی سے عوام کا سیلاب وینز ویلا کی سڑکوں پر آگیا اور یک زبان ہوکر چلایا ہماری موجودگی میں ہوگو شاویز ہمارے محترم لیڈر وینز ویلا کے باپ کو کوئی اقتدار سے نہیں ہٹاسکتا۔ سو ہوگو شاویز کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے آگ آنے والے وینز ویلا کی گلیوں میں دبک گئے، پاکستان کے عوام بھٹو کو پھانسی پر چڑھتا دیکھتے رہے اور کچھ نہ بولے۔!! بھٹو پر انتخابی دھاندلی کا الزام لگانے والے جمہوریت کے رکھوالے بھٹو کے دشمن کی حکومت میں انتہائی بے شرمی سے شامل ہوگئے، یہ صورت حال بھٹو تک محدود نہیں رہی۔ بھٹو کی بیٹی کو دو بار اقتدار سے بے دخل کردیاگیا، عوام خاموشی سے دیکھتے رہے، میاں نواز شریف کو دو بار اٹھاکر اقتدار سے باہر پھینک دیاگیا، عوام سڑکوں پر نہ آئے عوام حکمرانوں سے کیوں اتنے لاتعلق کیوں، اتنے دور ہوجاتے ہیں؟
غالباً کسی حکمران کو اس پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، وہ آئین کے آرٹیکل 6 اور اپنے حسن انتخاب پر تکیہ کیے بیٹھتے ہیں، بھٹو کو ایک فوجی آمر نے اقتدار سے الگ کردیا یہ بغاوت اور آئین کی خلاف ورزی تھی لیکن آئین کا باغی اور آرٹیکل 6 کو روندنے والا 10سال حکومت کرتا رہا۔ کسی جمہوریت پسند سیاست دان نے اس باغی کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کی بات تک نہیں کی بلکہ اس کی حکومت کا حصہ بنتے رہے۔ ایسا کیوں؟ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق یہ سب منتخب حکومتوں کے باغی تھے لیکن آرٹیکل 6 ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ آج ایک جنرل پر بغاوت اور آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا الزام ہے، سیاست دان یک زبان ہوکر کہہ رہے ہیں کہ اسے پھانسی دو اسے میڈیا میں ذلیل کیا جارہا ہے اسے عدالتوں اور تھانوں میں گھسیٹا جارہاہے۔
یہ اس باغی کی سزا ہے لیکن عوام سوچ رہے ہیں کہ اس آئینی سزا سے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق کیسے بچ گئے؟ مشرف ہی اس کی زد میں کیوں آرہا ہے پھر وہ مشرف کے آمرانہ دور کا موازنہ جمہوری دور سے کررہے ہیں، آج کل ایسی دہشت گردی کے معزز جج عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ گھر سے نکلتے وقت بازوؤں پر امام ضامن باندھ لو آج آٹا 50روپے، چاول 140روپے، تیل، گھی170روپے، دالیں130روپے، پٹرول 115، ڈیزل110، بجلی 18-14روپے یونٹ، گیس اتنی مہنگی، سبزی 100،180روپے اور گوشت 420روپے کلو کیوں مل رہا ہے اس فرق کی وجہ کیا ہے اس میں کہاں چار سو بیسی ہورہی ہے۔ سول حکومتوں میں فوجی مداخلت بلا شبہ غداری ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو پھانسی ہونی چاہیے یہی سارے جمہوری سیاست دانوں کا مطالبہ ہے، یہی سب مذہبی رہنماؤں کا مطالبہ ہے اور جائز مطالبہ ہے لیکن عوام یہ سوچ کر حیران ہورہے ہیں کہ ایک جمہوری اور مقبول عوام رہنما بھٹو کو پھانسی دی گئی اور وہ بھی اس فوجی آمر نے دی جو آرٹیکل 6 اور منتخب حکومت کا باغی تھا اس وقت جمہوری سیاس دان کہاں تھے۔؟ کیا عوام کا ایسا سوچنا درست ہے۔؟ کیا یہ بغاوت اور آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی تو نہیں؟