پیکرِ تسلیم و رضا خلیفۂ راشد حضرت سیّدنا عثمان غنی ؓ
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کروگے، ہدایت پاجاؤ گے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ کے تمام اصحابؓ پیکرِ صدق و صفا، ہدایت کا سرچشمہ اور ظلمت کے اندھیرے میں روشنی کا وہ عظیم مینار ہیں، جن سے زمانہ ہدایت پاتا ہے۔ تمام صحابۂ کرامؓ قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کے لیے پیکرِ رُشد و ہدایت ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کروگے، ہدایت پاجاؤ گے۔''
حضرت عثمان غنیؓ کو اﷲ تعالیٰ نے جن عظیم صفات سے مُتصف فرما کر صحابہؓ میں ممتاز فرمایا، وہ اُن ہی کا حصہ ہے۔ حیا کا ایسا پیکر تھے کہ فرشتے بھی آپؓ سے حیا کرتے تھے۔ آپؓ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں، جن کو رسول اﷲ ﷺ نے دنیا ہی میں جنّت کی بشارت دی۔ حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''اے عثمانؓ! اﷲ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اور جو ظاہر کیے اور وہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں۔''
ایامِ جاہلیت میں بھی آپؓ کا خاندان غیر معمولی وجاہت و حشمت کا حامل تھا۔ اُمیہ بن عبد شمس کی طرف نسبت کے سبب آپؓ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے۔ بنوہاشم کے بعد شرف و سیادت میں کوئی خاندان یا قبیلہ بنو اُمیہ کا ہم پلہ نہ تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اﷲ ﷺ سے جاملتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی نانی رسول اﷲ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں، اس رشتے سے آپ رسول اکرمؐ کے قریبی رشتے دار تھے۔
آپؓ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی۔ رسول اﷲ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں، جس نے اسلام قبول کیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی صاحب زادی سیّدہ رقیہؓ کا نکاح آپؓ کے ساتھ کردیا اور پھر حضرت عثمان غنیؓ اور سیّدہ رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ ہجرت فرمائی۔ حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی سیّدہ ام کلثومؓ کو حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں دے دیا۔ سیّدہ ام کلثومؓ کے وصال کے وقت رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں، تو میں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمان کی زوجیت میں دے دیتا حتّیٰ کہ اُن میں سے کوئی باقی نہ رہتی۔''
حضرت مرہ بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اﷲ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا، اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا، آپؐ نے فرمایا: ''یہ شخص اُس دن (یعنی فتنوں کے دور میں) ہدایت پر ہوگا۔ '' میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ (ترمذی)
ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبّت کرتا ہے۔ مستقبل کے لیے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے۔ صدقات و خیرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اﷲ کا بڑا اجر و ثواب ہے اور جو دولت اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے، اﷲتعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطا فرماتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں صدقۂ خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے، جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اﷲ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اﷲ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے۔'' (البقرہ)
صحابۂ کرامؓ صدق و اخلاص، وفاشعاری و جاں نثاری کا عملی نمونہ ہیں۔ سیدنا عثمان غنیؓ ہر مشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظر آتے ہیں۔ صحابۂ کرامؓ جو صدق و وفا کا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے، ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں۔ مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنیؓ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا، حضر ت ابوبکرؓ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اﷲتعالیٰ تم پر (رزق) کشادہ فرما دے گا۔ اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار اونٹ گندم اور اشیائے خورونوش کے منگوائے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: مدینے کے تاجر حضرت عثمانؓ کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، آپؓ گھر سے باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ چادر آپؓ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔ آپؓ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا: تم لوگ کس لیے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپؓ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلّے کے آئے ہیں، آپؓ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کر دیجیے۔ آپؓ نے فرمایا: اندر آؤ، پس وہ اندر داخل ہوئے، تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمانؓ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ آپؓ نے فرمایا: اگر میں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے؟ اُنہوں نے کہا: دس پر بارہ۔ آپؓ نے فرمایا: کچھ اور بڑھاؤ۔ اُنہوں نے کہا: دس پر چودہ۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ۔ اُنہوں نے کہا: دس پر پندرہ۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ۔ اُنہوں نے کہا: اِس سے زیادہ کون دے گا، جب کہ ہم مدینے کے تاجر ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ، ہر درہم پر دس درہم تمہارے لیے زیادہ ہیں؟ اُنہوں نے انکار کردیا۔ پھر آپؓ نے فرمایا: اے گروہِ تجار! تم گواہ ہوجاؤ کہ یہ تمام مال میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا۔
حضرت عبداﷲ ؓ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اﷲ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے، آپؐ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرما تھے، آپؐ جلدی میں تھے اور آپؐ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نُور کی طرح پھوٹ رہی تھی، نعلین مبارک کے تسموں سے نُور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، میری رغبت آپؐ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اﷲ کی راہ میں صدقہ کیے اور اﷲ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنّت کی ایک حُور سے فرما دیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں۔'' (اِزالۃ الخفاء)
حضرت عثمان غنیؓ کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ آذربائیجان، آرمینیا، طرابلس، الجزائر اور مراکش فتح ہوئے۔ آپؓ نے بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص کو بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا۔ طبرستان میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے۔ فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا۔ حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت کے آخری حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سر اٹھالیا۔ کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سیکڑوں اقوام آباد تھیں، فطری طور پر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجود تھے، نتیجتاً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا، جس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔ اِسی سازش کے نتیجے میں تقریباً دو ہزار فتنہ پرداز باغی اپنے مطالبات منوانے کے لیے حاجیوں کی وضع میں مدینہ پہنچے اور حضرت عثمان غنیؓ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو چالیس روز تک جاری رہا۔ باغیوں نے اشیائے خور و نوش کے سارے راستے بند کردیے۔ حضرت ام حبیبہؓ نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اﷲ ﷺ کے حرم محترم کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علیؓ نے حضرات حسنین رضی اﷲ عنہما کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا، حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ بھی جان نثاروں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے گھر میں موجود تھے۔ محاصرے کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے عرض کی کہ آپؓ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے، ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیے، مکہ حرم ہے، وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیا کہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی خلافت کی بقاء کے لیے مسلمانوں کا خون بہائے، دوسری صورت کا جواب دیا کہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس مُقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسول ﷺ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔ (مسند امام احمد بن حنبل)
حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓنے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں۔ آپؓ نے اُنہیں منع فرما دیا۔ حضرت عثمانؓ کا محاصرہ کرنے والے دو ہزار سے بھی کم افراد تھے اور حضرت عثمانؓ کے مکان کے اندر اور باہر ان کے جاں نثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے۔ آخری وقت تک یہ سب آپؓ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑ دیں گے۔ لیکن آپؓ نے اُنہیں اس کی اجازت نہ دی۔ آپؓ کا ایک ہی جواب تھا: ''میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا۔''
جمعۃ المبارک اٹھارہ ذوالحجہ کو حضرت عثمانؓ نے خواب میں رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا کہ رسول اﷲ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اﷲ ﷺ فرما رہے ہیں: عثمان جلدی کرو، ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا۔
بیدار ہوکر آپؓ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپؓ کو تلاوتِ قرآن فرماتے ہوئے شہید کردیا۔ اس وقت آپ قرآن مجید سورۂ بقرہ کی آیت ''تمہارے لیے اﷲ کافی ہے اور اﷲتعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے'' کی تلاوت فرما رہے تھے۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام، کہ آپؓ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کے لیے مدینے کی سرزمین اور مسلمانوں کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا۔ جان نثار آپؓ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپؓ نے اجازت نہ دی۔ شہید کا خون جس جگہ گرتا ہے، وہ جگہ اُس کی شہادت کی گواہی دیتی ہے۔ اے عثمان غنیؓ! آپؓ کے خون کی عظمتوں کو سلام جو قرآن کے اوراق پر گرا اور قیامت کے دن قرآن کریم کے اوراق آپ کی شہادت کی گواہی دیں گے۔ روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایا جائے گا جیسا کہ اپنی موت کے وقت وہ دنیا سے گیا، کوئی اَحرام باندھے ہوئے اٹھے گا، کوئی سجدہ کرتے ہوئے، آپؓ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپؓ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے ہوئے اٹھیں گے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کروگے، ہدایت پاجاؤ گے۔''
حضرت عثمان غنیؓ کو اﷲ تعالیٰ نے جن عظیم صفات سے مُتصف فرما کر صحابہؓ میں ممتاز فرمایا، وہ اُن ہی کا حصہ ہے۔ حیا کا ایسا پیکر تھے کہ فرشتے بھی آپؓ سے حیا کرتے تھے۔ آپؓ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں، جن کو رسول اﷲ ﷺ نے دنیا ہی میں جنّت کی بشارت دی۔ حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''اے عثمانؓ! اﷲ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اور جو ظاہر کیے اور وہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں۔''
ایامِ جاہلیت میں بھی آپؓ کا خاندان غیر معمولی وجاہت و حشمت کا حامل تھا۔ اُمیہ بن عبد شمس کی طرف نسبت کے سبب آپؓ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے۔ بنوہاشم کے بعد شرف و سیادت میں کوئی خاندان یا قبیلہ بنو اُمیہ کا ہم پلہ نہ تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اﷲ ﷺ سے جاملتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی نانی رسول اﷲ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں، اس رشتے سے آپ رسول اکرمؐ کے قریبی رشتے دار تھے۔
آپؓ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی۔ رسول اﷲ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں، جس نے اسلام قبول کیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی صاحب زادی سیّدہ رقیہؓ کا نکاح آپؓ کے ساتھ کردیا اور پھر حضرت عثمان غنیؓ اور سیّدہ رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ ہجرت فرمائی۔ حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی سیّدہ ام کلثومؓ کو حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں دے دیا۔ سیّدہ ام کلثومؓ کے وصال کے وقت رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں، تو میں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمان کی زوجیت میں دے دیتا حتّیٰ کہ اُن میں سے کوئی باقی نہ رہتی۔''
حضرت مرہ بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اﷲ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا، اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا، آپؐ نے فرمایا: ''یہ شخص اُس دن (یعنی فتنوں کے دور میں) ہدایت پر ہوگا۔ '' میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ (ترمذی)
ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبّت کرتا ہے۔ مستقبل کے لیے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے۔ صدقات و خیرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اﷲ کا بڑا اجر و ثواب ہے اور جو دولت اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے، اﷲتعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطا فرماتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں صدقۂ خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے، جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اﷲ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اﷲ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے۔'' (البقرہ)
صحابۂ کرامؓ صدق و اخلاص، وفاشعاری و جاں نثاری کا عملی نمونہ ہیں۔ سیدنا عثمان غنیؓ ہر مشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظر آتے ہیں۔ صحابۂ کرامؓ جو صدق و وفا کا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے، ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں۔ مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنیؓ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا، حضر ت ابوبکرؓ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اﷲتعالیٰ تم پر (رزق) کشادہ فرما دے گا۔ اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار اونٹ گندم اور اشیائے خورونوش کے منگوائے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: مدینے کے تاجر حضرت عثمانؓ کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، آپؓ گھر سے باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ چادر آپؓ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔ آپؓ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا: تم لوگ کس لیے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپؓ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلّے کے آئے ہیں، آپؓ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کر دیجیے۔ آپؓ نے فرمایا: اندر آؤ، پس وہ اندر داخل ہوئے، تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمانؓ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ آپؓ نے فرمایا: اگر میں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے؟ اُنہوں نے کہا: دس پر بارہ۔ آپؓ نے فرمایا: کچھ اور بڑھاؤ۔ اُنہوں نے کہا: دس پر چودہ۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ۔ اُنہوں نے کہا: دس پر پندرہ۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ۔ اُنہوں نے کہا: اِس سے زیادہ کون دے گا، جب کہ ہم مدینے کے تاجر ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ، ہر درہم پر دس درہم تمہارے لیے زیادہ ہیں؟ اُنہوں نے انکار کردیا۔ پھر آپؓ نے فرمایا: اے گروہِ تجار! تم گواہ ہوجاؤ کہ یہ تمام مال میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا۔
حضرت عبداﷲ ؓ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اﷲ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے، آپؐ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرما تھے، آپؐ جلدی میں تھے اور آپؐ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نُور کی طرح پھوٹ رہی تھی، نعلین مبارک کے تسموں سے نُور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، میری رغبت آپؐ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اﷲ کی راہ میں صدقہ کیے اور اﷲ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنّت کی ایک حُور سے فرما دیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں۔'' (اِزالۃ الخفاء)
حضرت عثمان غنیؓ کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ آذربائیجان، آرمینیا، طرابلس، الجزائر اور مراکش فتح ہوئے۔ آپؓ نے بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص کو بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا۔ طبرستان میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے۔ فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا۔ حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت کے آخری حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سر اٹھالیا۔ کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سیکڑوں اقوام آباد تھیں، فطری طور پر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجود تھے، نتیجتاً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا، جس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔ اِسی سازش کے نتیجے میں تقریباً دو ہزار فتنہ پرداز باغی اپنے مطالبات منوانے کے لیے حاجیوں کی وضع میں مدینہ پہنچے اور حضرت عثمان غنیؓ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو چالیس روز تک جاری رہا۔ باغیوں نے اشیائے خور و نوش کے سارے راستے بند کردیے۔ حضرت ام حبیبہؓ نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اﷲ ﷺ کے حرم محترم کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علیؓ نے حضرات حسنین رضی اﷲ عنہما کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا، حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ بھی جان نثاروں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے گھر میں موجود تھے۔ محاصرے کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے عرض کی کہ آپؓ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے، ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیے، مکہ حرم ہے، وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیا کہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی خلافت کی بقاء کے لیے مسلمانوں کا خون بہائے، دوسری صورت کا جواب دیا کہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس مُقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسول ﷺ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔ (مسند امام احمد بن حنبل)
حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓنے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں۔ آپؓ نے اُنہیں منع فرما دیا۔ حضرت عثمانؓ کا محاصرہ کرنے والے دو ہزار سے بھی کم افراد تھے اور حضرت عثمانؓ کے مکان کے اندر اور باہر ان کے جاں نثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے۔ آخری وقت تک یہ سب آپؓ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑ دیں گے۔ لیکن آپؓ نے اُنہیں اس کی اجازت نہ دی۔ آپؓ کا ایک ہی جواب تھا: ''میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا۔''
جمعۃ المبارک اٹھارہ ذوالحجہ کو حضرت عثمانؓ نے خواب میں رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا کہ رسول اﷲ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اﷲ ﷺ فرما رہے ہیں: عثمان جلدی کرو، ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا۔
بیدار ہوکر آپؓ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپؓ کو تلاوتِ قرآن فرماتے ہوئے شہید کردیا۔ اس وقت آپ قرآن مجید سورۂ بقرہ کی آیت ''تمہارے لیے اﷲ کافی ہے اور اﷲتعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے'' کی تلاوت فرما رہے تھے۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام، کہ آپؓ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کے لیے مدینے کی سرزمین اور مسلمانوں کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا۔ جان نثار آپؓ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپؓ نے اجازت نہ دی۔ شہید کا خون جس جگہ گرتا ہے، وہ جگہ اُس کی شہادت کی گواہی دیتی ہے۔ اے عثمان غنیؓ! آپؓ کے خون کی عظمتوں کو سلام جو قرآن کے اوراق پر گرا اور قیامت کے دن قرآن کریم کے اوراق آپ کی شہادت کی گواہی دیں گے۔ روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایا جائے گا جیسا کہ اپنی موت کے وقت وہ دنیا سے گیا، کوئی اَحرام باندھے ہوئے اٹھے گا، کوئی سجدہ کرتے ہوئے، آپؓ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپؓ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے ہوئے اٹھیں گے۔