نیلسن منڈیلا روشن عہد کی علامت
وہ لمحہ بیسویں صدی کے عظیم تاریخی لمحات میں سے ایک تھا منڈیلا طویل جد وجہد کے بعد دیومالائی کہانی کا کردار بن گئے
منڈیلا کا امکھنٹو کے ساتھ گٹھ جوڑ ثابت ہونے کے بعد ان پر غداری کا مقدمہ چلایاگیا۔ 19 اکتوبر 1963 کو منڈیلا اور ان کے ساتھی سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے وہ مقدمہ جنوبی افریقہ کا مشہور ترین سیاسی مقدمہ قرار پایا۔ بدنام زمانہ مقدمے Rivonia Trial کے حج مسٹرکوارٹیس ڈی ویٹ اور وکیل استغا ثہ ڈاکٹر پرسی یوٹار تھے جو ٹرانزوال کے اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز تھے منڈیلا اور ان کے دس ساتھیوں پر دہشت گردی ، تخریب کاری اور حکومت کا تختہ الٹنے کے دو سوالزامات لگائے گئے تھے، منڈیلا نے اپنی دفاعی تقریر کرتے ہوئے جج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا '' میں نے اپنی ساری عمر افریقی قوم کی آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی ہے میں نے ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھاہے جس میں تمام انسانوں کو برابر کے حقوق اور مراعات حاصل ہوں میں اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے زندہ ہوں اور اگر ضرورت پڑی تو اس آدرش کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوں ۔''
منڈیلا نے زمانہ طالب علمی میں تھیڑ میں حصہ لیاتھا۔انھوں نے اپنی ادا کاری کی ساری صلاحیتوں کو عدالت میں استعمال کیا کیونکہ انھیں پتہ تھا کہ نہ صرف کمرہ عدالت میں موجود افراد بلکہ پورے جنوبی افریقہ کے لوگ اس دن ان کی یہ تقریر سن رہے ہیں، پہلے کمرہ عدالت میں ہوکا عالم تھا لیکن جب منڈیلا کی تقریر ختم ہوئی تو عورتوں نے دھاڑیں مار مارکر رونا شروع کر دیا۔منڈیلا کے ساتھیوں اور وکیلوں کو پورا یقین تھا کہ ان کوپھانسی کی سزا ہو جائے گی جب وکیل نے پوچھا کہ اگر انھیں پھانسی کی سزا ہو گئی تو کیاوہ اس کے خلاف اپیل کریں گے تو انھوں نے انکارکر دیا ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے زندہ رہنے کے بجائے مرکر زیادہ سود مند ثابت ہوسکتے ہیں وہ غازی کے بجائے شہید ہونے کو زیادہ ترجیح دے رہے تھے۔ منڈیلا کو سمجھ آگیا تھا کہ کسی دیو مالائی کہانی کا حصہ بننے کے لیے جان سے ہاتھ دھونا ہی ایک دانش مندانہ سودا ہوگا ۔ جب جج نے سزائے مو ت کے بجائے عمر قید کا فیصلہ سنایا تو سب لوگ حیران وششدر رہ گئے یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ جج نے موت کی سزا کے بجائے عمر قید کی سزا کیوں سنائی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس پر اندرون ملک اور بیرون ملک سے بہت زیادہ دباؤ تھا، اقوام متحدہ نے ان کے لیے معافی کی درخواست کی تھی ۔
عدالت کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد منڈیلا اور ان کے ساتھیوں کو جزیرہ روبن بھیج دیاگیا ۔11 فروری 1990 نہ صرف نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک تاریخی دن تھا کیونکہ اسی دن منڈیلا 27 سال عمر قید سے رہا ہو رہے تھے منڈیلا کی قید کے دس ہزار دن کے اندر دنیا کی رائے ان کے بارے میں تبدیل ہوگئی تھی اور وہ امن و انصاف کے پیمبر سمجھے جانے لگے تھے اس دن سیکڑوں کی تعداد میں زندگی کے ہر نسل رنگ مذہب ، طبقے اور شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ جیل کے باہر ان کی رہائی کے منتظر تھے اور پوری دنیا میں ٹیلی ویژن پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس تاریخی لمحے کو دیکھ رہے تھے۔ یہ پورا منظر اتنا خواب ناک تھا کہ جب اگلے دن منڈیلا سے ان کے تاثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ '' میں اپنے جذبات کو الفاظ کی شکل میں ڈھالنے سے قاصر ہوں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے اس غیر متوقع خراج تحسین نے میرا دل موہ لیا ہے وہ منظر جان لیوا تھا '' ۔
وہ لمحہ بیسویں صدی کے عظیم تاریخی لمحات میں سے ایک تھا منڈیلا طویل پر تشدد جد وجہد کے بعد امن ، انصاف اور جمہوریت کی علامت اور قید میں 27 سال گذار نے سے وہ ایک دیو مالائی کہانی کا کردار بن گئے ۔ منڈیلا کی زندگی کا یہ ایک دلچسپ باب ہے کہ انھیں کئی دہائیوں کی پرتشدد جدوجہد کے باوجود امن کا نوبیل انعام ملا ۔اس امن کے انعام کی خبر سن کر جو لوگ حیران ہوئے ان میں خود منڈیلا بھی شامل تھے ۔منڈیلا نے نوبیل انعام لیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ ہماری یہاں حیثیت کچھ بھی نہیں ماسوائے اس کے کہ ہم ان کروڑوں لوگوں کی نمایندگی کررہے ہیں جنہوں نے ایک ایسے شر انگیز معاشرتی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کی جس کی جڑ میں جنگ ، تشدد ، تعصب ، ظلم ،مداخلت اور عوامی معاشی محتاجی بیٹھی ہوئی ہے اندرون اور بیرون ملک بسنے والے بے شمار افراد ایک ایسا معزز اور بے لوث جذبہ رکھتے ہیں جو کہ ان کو مقتدر العنان اور ناانصاف نظام کے خلاف رکاوٹ بننے کی ہمت عطا کرتاہے یہ لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ کسی ایک فرد کو لگنے والی چوٹ انسانیت پر ضرب ہوتی ہے اور اسی لیے یہ لوگ انصاف اور انسانیت کی بقاء کے لیے اجتماعی طورپر جدو جہد کرنے کے قائل ہیں ۔
ان لوگوں کی اسی سال ہا سال کی پر ہمت اور مستقل مزاج جدوجہد کے باعث آج ہم آیندہ کے اس حسین دن کا خیال پیش کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں جب تمام انسانیت ایک ساتھ مل کر اس صدی کی ان ہی غیر معمولی انسانی کاوشوں اور کامیابیوں کا جشن منائے گی اور وہ جب لمحہ آئے گا تو ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی اسی مشترکہ کامیابی کا جشن منائیں گے اور تب ہی تاریخ کا اس منزل کی طرف ایک عظیم قدم اٹھے گا اور اس اجتماعی عہد کا اعادہ ہوگا کہ عوام نسلی امتیاز کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی موجود ہو اور کوئی سا بھی بھیس بدل کر آئے ۔ تو پھر ہم ایک ایسے معاشرے میں رہیں گے جس کو ہم ان اصولوں کی بنیاد پر بنایا ہوگا جس میں سارے افراد پیدائشی طور پر برابری کا حق رکھتے ہوں گے جن کو یکساں معیار زندگی،آزادی، ترقی،انسانی حقوق اور اچھی حکومت کے حقوق میسر ہونگے ۔ ایسا معاشرہ جو پھر کبھی اس بات کی اجازت نہ دے گا کہ وہاں کسی کو بھی ضمیرکا قیدی بننا پڑے اور نہ ہی پھر کسی کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو، چلیے اک نئے روشن دورکو طلوع ہونے دیں ۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے حالات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے جنوبی افریقہ کے لوگ گورے انگریزوں کے غلام تھے جب کہ پاکستان کے عوام کالے انگریزوں (اشرافیہ )کے آج تک غلام ہیں ہمارا اور ان کا نصیب اور مقدر تقریباً ایک ہی جیسا ہے۔ فرق صرف آقاؤں کے رنگت کا ہے دوسرا فرق منڈیلا کا ہے۔ جنوبی افریقہ کے لوگ خوش قسمت واقع ہوئے کہ انھیں منڈیلا جیسا با کردار ، اصول پرست ، نڈر لیڈر نصیب ہوا جب کہ ہمارے نصیب میں وہ لیڈر آئے جو صرف باتوں کی حد تک باکردار ، اصول پرست اور نڈر ہیں۔ تیسرا فرق لوگوں کی سوچ کا ہے جنوبی افریقہ کے لوگوں کو غلامی اور اپنے نصیب میں لکھی گئی ذلتوں سے نفرت تھی جب کہ ہمیں اپنی غلامی سے محبت اپنے نصیبوں میں لکھی گئی ذلتوں سے پیار ہے۔
ہمارے یہ کالے آقا (اشرافیہ ) پاکستان بننے سے پہلے گوروںکے غلام تھے اور اب ہمارے آقا بنے ہوئے ہیں یعنی ہمیں غلاموں کی غلامی نصیب ہوئی ، ہمارے یہ کالے آقا اپنے سابقہ گورے آقاؤں کی کاربن کاپی ہیں انھوں نے اپنی ساری عادات ، زبان ، لباس ، طور و اطوار اپنے سابقہ گورے آقاؤں جیسا اختیار کر رکھا ہے ۔ یعنی بہت بڑے بہروپیے ثابت ہوئے ہیں انھیں بھی غریبوں سے نفرت ہے انھیں اپنی زبان ، لباس ، تہذیب و تمدن ، اخلاقی اقدار سے حد درجہ چڑ ہے انھیں اپنی زمین اور کلچر سے گھن آتی ہے ۔
بات ذرا نفسیاتی سی ہے ایک شخص جب اپنے سے بہت زیادہ تعلیم یافتہ ، امیرو کبیر ، شان و شوکت والے کی نوکری کرتا ہے تو وہ اپنے مالک کی شخصیت سے مرغوب ہوکراس کی ہو بہو نقل شروع کردیتا ہے اور اپنے سے معاشرتی سطح پر نیچے والے آدمیوں سے اسے نفرت سی ہو جاتی ہے اور یہ ہی سب کچھ ہمارے کالے آقاؤں کے ساتھ ہوا دراصل میں یہ شدید احساس کمتری کا شکار ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مصنوعی ، جھوٹی اور نقلی زندگی گذار رہے ہیں۔ پاکستان دنیاکے گنتی کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ایک ملک کے اندر دو ملک بن گئے ہیں ایک آقاؤں ، امیروں اور حاکموں کا پاکستان ہے دوسرا غریبوں ، بے کسوں ، مظلوموں کا پاکستان ہے۔ دونوں ملکوں میں بسنے والے ایک دوسرے کے ملک میں نہ تو جاسکتے ہیں اور نہ ہی انھیں جانے کی آزادی حاصل ہے ۔ دونوں ملکوں کے حالات میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ زمین و آسمان میں ۔ دنیا کی تاریخ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ زمینی جھوٹے ، مصنوعی ،خداؤں کا انجام ہمیشہ وحشت نا ک ہوا ہے۔ ہمارے کالے آقاؤں کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ تاریخ کی چیخوں کو اچھی طرح سے سن لیں ورنہ انجام کے لیے تیار رہیں ۔آج نہیں تو کل لوگ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہی ہونگے۔
منڈیلا نے زمانہ طالب علمی میں تھیڑ میں حصہ لیاتھا۔انھوں نے اپنی ادا کاری کی ساری صلاحیتوں کو عدالت میں استعمال کیا کیونکہ انھیں پتہ تھا کہ نہ صرف کمرہ عدالت میں موجود افراد بلکہ پورے جنوبی افریقہ کے لوگ اس دن ان کی یہ تقریر سن رہے ہیں، پہلے کمرہ عدالت میں ہوکا عالم تھا لیکن جب منڈیلا کی تقریر ختم ہوئی تو عورتوں نے دھاڑیں مار مارکر رونا شروع کر دیا۔منڈیلا کے ساتھیوں اور وکیلوں کو پورا یقین تھا کہ ان کوپھانسی کی سزا ہو جائے گی جب وکیل نے پوچھا کہ اگر انھیں پھانسی کی سزا ہو گئی تو کیاوہ اس کے خلاف اپیل کریں گے تو انھوں نے انکارکر دیا ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے زندہ رہنے کے بجائے مرکر زیادہ سود مند ثابت ہوسکتے ہیں وہ غازی کے بجائے شہید ہونے کو زیادہ ترجیح دے رہے تھے۔ منڈیلا کو سمجھ آگیا تھا کہ کسی دیو مالائی کہانی کا حصہ بننے کے لیے جان سے ہاتھ دھونا ہی ایک دانش مندانہ سودا ہوگا ۔ جب جج نے سزائے مو ت کے بجائے عمر قید کا فیصلہ سنایا تو سب لوگ حیران وششدر رہ گئے یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ جج نے موت کی سزا کے بجائے عمر قید کی سزا کیوں سنائی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس پر اندرون ملک اور بیرون ملک سے بہت زیادہ دباؤ تھا، اقوام متحدہ نے ان کے لیے معافی کی درخواست کی تھی ۔
عدالت کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد منڈیلا اور ان کے ساتھیوں کو جزیرہ روبن بھیج دیاگیا ۔11 فروری 1990 نہ صرف نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک تاریخی دن تھا کیونکہ اسی دن منڈیلا 27 سال عمر قید سے رہا ہو رہے تھے منڈیلا کی قید کے دس ہزار دن کے اندر دنیا کی رائے ان کے بارے میں تبدیل ہوگئی تھی اور وہ امن و انصاف کے پیمبر سمجھے جانے لگے تھے اس دن سیکڑوں کی تعداد میں زندگی کے ہر نسل رنگ مذہب ، طبقے اور شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ جیل کے باہر ان کی رہائی کے منتظر تھے اور پوری دنیا میں ٹیلی ویژن پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس تاریخی لمحے کو دیکھ رہے تھے۔ یہ پورا منظر اتنا خواب ناک تھا کہ جب اگلے دن منڈیلا سے ان کے تاثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ '' میں اپنے جذبات کو الفاظ کی شکل میں ڈھالنے سے قاصر ہوں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے اس غیر متوقع خراج تحسین نے میرا دل موہ لیا ہے وہ منظر جان لیوا تھا '' ۔
وہ لمحہ بیسویں صدی کے عظیم تاریخی لمحات میں سے ایک تھا منڈیلا طویل پر تشدد جد وجہد کے بعد امن ، انصاف اور جمہوریت کی علامت اور قید میں 27 سال گذار نے سے وہ ایک دیو مالائی کہانی کا کردار بن گئے ۔ منڈیلا کی زندگی کا یہ ایک دلچسپ باب ہے کہ انھیں کئی دہائیوں کی پرتشدد جدوجہد کے باوجود امن کا نوبیل انعام ملا ۔اس امن کے انعام کی خبر سن کر جو لوگ حیران ہوئے ان میں خود منڈیلا بھی شامل تھے ۔منڈیلا نے نوبیل انعام لیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ ہماری یہاں حیثیت کچھ بھی نہیں ماسوائے اس کے کہ ہم ان کروڑوں لوگوں کی نمایندگی کررہے ہیں جنہوں نے ایک ایسے شر انگیز معاشرتی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کی جس کی جڑ میں جنگ ، تشدد ، تعصب ، ظلم ،مداخلت اور عوامی معاشی محتاجی بیٹھی ہوئی ہے اندرون اور بیرون ملک بسنے والے بے شمار افراد ایک ایسا معزز اور بے لوث جذبہ رکھتے ہیں جو کہ ان کو مقتدر العنان اور ناانصاف نظام کے خلاف رکاوٹ بننے کی ہمت عطا کرتاہے یہ لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ کسی ایک فرد کو لگنے والی چوٹ انسانیت پر ضرب ہوتی ہے اور اسی لیے یہ لوگ انصاف اور انسانیت کی بقاء کے لیے اجتماعی طورپر جدو جہد کرنے کے قائل ہیں ۔
ان لوگوں کی اسی سال ہا سال کی پر ہمت اور مستقل مزاج جدوجہد کے باعث آج ہم آیندہ کے اس حسین دن کا خیال پیش کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں جب تمام انسانیت ایک ساتھ مل کر اس صدی کی ان ہی غیر معمولی انسانی کاوشوں اور کامیابیوں کا جشن منائے گی اور وہ جب لمحہ آئے گا تو ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی اسی مشترکہ کامیابی کا جشن منائیں گے اور تب ہی تاریخ کا اس منزل کی طرف ایک عظیم قدم اٹھے گا اور اس اجتماعی عہد کا اعادہ ہوگا کہ عوام نسلی امتیاز کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی موجود ہو اور کوئی سا بھی بھیس بدل کر آئے ۔ تو پھر ہم ایک ایسے معاشرے میں رہیں گے جس کو ہم ان اصولوں کی بنیاد پر بنایا ہوگا جس میں سارے افراد پیدائشی طور پر برابری کا حق رکھتے ہوں گے جن کو یکساں معیار زندگی،آزادی، ترقی،انسانی حقوق اور اچھی حکومت کے حقوق میسر ہونگے ۔ ایسا معاشرہ جو پھر کبھی اس بات کی اجازت نہ دے گا کہ وہاں کسی کو بھی ضمیرکا قیدی بننا پڑے اور نہ ہی پھر کسی کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو، چلیے اک نئے روشن دورکو طلوع ہونے دیں ۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے حالات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے جنوبی افریقہ کے لوگ گورے انگریزوں کے غلام تھے جب کہ پاکستان کے عوام کالے انگریزوں (اشرافیہ )کے آج تک غلام ہیں ہمارا اور ان کا نصیب اور مقدر تقریباً ایک ہی جیسا ہے۔ فرق صرف آقاؤں کے رنگت کا ہے دوسرا فرق منڈیلا کا ہے۔ جنوبی افریقہ کے لوگ خوش قسمت واقع ہوئے کہ انھیں منڈیلا جیسا با کردار ، اصول پرست ، نڈر لیڈر نصیب ہوا جب کہ ہمارے نصیب میں وہ لیڈر آئے جو صرف باتوں کی حد تک باکردار ، اصول پرست اور نڈر ہیں۔ تیسرا فرق لوگوں کی سوچ کا ہے جنوبی افریقہ کے لوگوں کو غلامی اور اپنے نصیب میں لکھی گئی ذلتوں سے نفرت تھی جب کہ ہمیں اپنی غلامی سے محبت اپنے نصیبوں میں لکھی گئی ذلتوں سے پیار ہے۔
ہمارے یہ کالے آقا (اشرافیہ ) پاکستان بننے سے پہلے گوروںکے غلام تھے اور اب ہمارے آقا بنے ہوئے ہیں یعنی ہمیں غلاموں کی غلامی نصیب ہوئی ، ہمارے یہ کالے آقا اپنے سابقہ گورے آقاؤں کی کاربن کاپی ہیں انھوں نے اپنی ساری عادات ، زبان ، لباس ، طور و اطوار اپنے سابقہ گورے آقاؤں جیسا اختیار کر رکھا ہے ۔ یعنی بہت بڑے بہروپیے ثابت ہوئے ہیں انھیں بھی غریبوں سے نفرت ہے انھیں اپنی زبان ، لباس ، تہذیب و تمدن ، اخلاقی اقدار سے حد درجہ چڑ ہے انھیں اپنی زمین اور کلچر سے گھن آتی ہے ۔
بات ذرا نفسیاتی سی ہے ایک شخص جب اپنے سے بہت زیادہ تعلیم یافتہ ، امیرو کبیر ، شان و شوکت والے کی نوکری کرتا ہے تو وہ اپنے مالک کی شخصیت سے مرغوب ہوکراس کی ہو بہو نقل شروع کردیتا ہے اور اپنے سے معاشرتی سطح پر نیچے والے آدمیوں سے اسے نفرت سی ہو جاتی ہے اور یہ ہی سب کچھ ہمارے کالے آقاؤں کے ساتھ ہوا دراصل میں یہ شدید احساس کمتری کا شکار ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مصنوعی ، جھوٹی اور نقلی زندگی گذار رہے ہیں۔ پاکستان دنیاکے گنتی کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ایک ملک کے اندر دو ملک بن گئے ہیں ایک آقاؤں ، امیروں اور حاکموں کا پاکستان ہے دوسرا غریبوں ، بے کسوں ، مظلوموں کا پاکستان ہے۔ دونوں ملکوں میں بسنے والے ایک دوسرے کے ملک میں نہ تو جاسکتے ہیں اور نہ ہی انھیں جانے کی آزادی حاصل ہے ۔ دونوں ملکوں کے حالات میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ زمین و آسمان میں ۔ دنیا کی تاریخ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ زمینی جھوٹے ، مصنوعی ،خداؤں کا انجام ہمیشہ وحشت نا ک ہوا ہے۔ ہمارے کالے آقاؤں کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ تاریخ کی چیخوں کو اچھی طرح سے سن لیں ورنہ انجام کے لیے تیار رہیں ۔آج نہیں تو کل لوگ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہی ہونگے۔