سوشل میڈیا یوٹیوب اور سائبر کرائم
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ لوگ بھی اب اپنی بات کو آگے پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔
دنیا میں ابلاغ کے نظام میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے ۔اس سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل پر مبنی جڑے نظام میں بڑی تیزی سے نئی نئی جہتیں ، ترقی اورکمالات دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ لوگ بھی اب اپنی بات کو آگے پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔
یہ نظام محض میڈیا سے جڑے افراد تک محدود نہیں بلکہ اب تو دنیا میں موجود تمام فریقین طاقت ور ہوں یا کمزور، خواندہ ہو یا ناخواندہ سب ہی اس سوشل میڈیا کے انقلاب سے جڑے نظر آتے ہیں اور اس نظام کو اپنی بڑی طاقت سمجھتے ہیں ۔ سوشل میڈیا نے روائتی میڈیا کے مقابلے میں لوگوں کو جہاں نئی جہتیں دی ہیں وہیں یہ موقع بھی فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی بات بہتر اور موثر انداز میں آگے تک پہنچا سکیں ۔
دنیا میں اب جو سیاسی ، سماجی ،اقتصادی یا علمی و فکری بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس میں سوشل میڈیا ایک بڑا کردار ادا کررہا ہے ۔جو لوگ اس نظام پر تنقید کرتے ہیں عملی طور پر وہ بھی اس نئی ابلاغ کی ترقی سے نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ خود کو تنہا نہیں کرسکے ۔یقینی طور پر جو بھی ترقی کے عمل میں نئی چیز آتی ہے اس کو اول قبول کرنا آسان نہیں ہوتا اور دوئم جب وہ آتی ہے تو اس کے کچھ مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ ہم کو منفی اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجو د ہم ترقی کے اس جدید دور میں اس طرح ابلاغی انقلاب سے نہ خود کو علیحدہ کرسکتے ہیں اورنہ ہی دوسروں یا بالخصوص نئی نسل کو ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا یہ نظام جہاں نئے نئے انقلابات کو لارہا ہے وہیں اس نے باقاعدہ ایک پروفیشن کا درجہ حاصل کرکے نئی نسل کے لوگوں کو ایک بڑا معاشی روزگار بھی فراہم کیا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں سوشل میڈیا یا یوٹیوب چینل پر ہونے والی گفتگو پر بہت سے فریقین یا لوگوں میں سخت تحفظات بھی پائے جاتے ہیں ۔مسئلہ محض تنقید کا ہی نہیں بلکہ سیاسی ، سماجی و اخلاقی معاملات پر بھی بہت سے لوگوں کے سنجیدہ نوعیت کے سوالات موجود ہیں ۔اصل مسئلہ آزادی اظہار سے جڑا ہوا ہے اور اس پر یقینی طور پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہمارا آئین ہمیں آزادی اظہار کی مکمل آزادی دیتا ہے ۔لیکن اس آزادی اظہار کا ایک پہلو ذمے داری کا بھی ہے ۔ یعنی جو لوگ بھی آزادی اظہار کا استعمال کررہے ہیں یہ ان پر بھی بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ''اظہار آزادی بذریعہ ذمے داری '' کا بھی مظاہرہ کریں ۔
اس وقت ہمیں مجموعی طور پر سوشل میڈیا کے تناظر میں پانچ بڑے چیلنجز درکار ہیں ۔ ایک بڑا طبقہ اس عمل میں نہ صرف غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ تنقید اور تضحیک کے بنیادی فرق کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے ۔ دوئم سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر سیاسی ، سماجی ، مذہبی ،اخلاقی و علمی و فکری بنیاد پر انتہا پسند رجحانات ، نفرت، تعصب ، غصہ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ، اپنی سوچ فکر کو محض درست سمجھ کر دوسروں پر زبردستی مسلط کرنا ، دوسروں کی سوچ اورفکر کو نہ صرف تسلیم نہ کرنا بلکہ ان کی رائے کو احترام بھی نہ دینا ، الزام تراشی ، کردار کشی اور مختلف نوعیت کی محاذ آرائی کو فروغ دینا شامل ہے۔
سوئم ریاستی و حکومتی سطح پر تنقید کرتے ہوئے حساس معاملات پر ہونے والی گفتگو میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنا اور اداروں کی تضحیک کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔ چہارم مسائل یا ایشوز کی بنیاد پر مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینے کی بجائے گھر، خاندان ، بچوں ، بچیوں اور گھروں میں موجود افراد سے جڑی ذاتیات پر مبنی گفتگوجس کا مقصد سوائے کردار کشی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔پنجم شواہد، حقایق، تحقیق کو بنیاد بنانے کی بجائے فرضی گفتگو،خبر یا تجزیہ کے مقابلے میں خواہشات اور سوشل میڈیا کو باقاعدہ ایک پروپیگینڈا مہم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
یہ سب کچھ کیونکر ہو رہا ہے اورہم بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ سوشل میڈیا سے جڑے مسائل پر بہتر انداز میں قابو پانے کی بجائے مسلسل مسائل کا شکار ہو رہے ہیں ۔ جو لوگ سوشل میڈیا یا اسے جڑے یوٹیوب یا دیگر معاملات پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں وہ درست حکمت عملی نہیں ۔کیونکہ مسئلہ پابندی کا نہیں ہے اوردنیا میں اس ابلاغ یا جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں پابندی لگا کر ہم ترقی کے بڑے دھارے میں شامل نہیں ہوسکیں گے ۔ جب بھی ہمیں کسی بھی معاملے میں بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو فوری طور پر ہم پابندی کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں جو مسئلہ کے حل کی بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔بنیادی طور پر ہمیں اس مسئلہ کو محض جذباتیت کی بجائے ٹھوس عقلی و عملی و فکری بنیادوں پر سوچنا ہوگا اورایک ایسی حکمت عملی کو ترتیب دینا ہوگا جو ریاست، حکومت سمیت سب اداروں اور میڈیا سے جڑے افراد یا دیگرطبقات کے لیے قابل قبول ہوں ۔
اصل میں اب وقت آگیا ہے کہ سوشل میڈیا سے جڑے افراد یا اداروں کے لیے ہمیں اس نظام میں ریگولیٹ یعنی نظام میں موثر پالیسی اور قانون سازی کرنا ، نگرانی کا موثر اور شفاف نظام کو ترتیب دینا ، شفافیت اورجوابدہی کا نظام قائم کرنا ،لوگوں میں سوشل میڈیا کے استعمال پر سیاسی ، سماجی و علمی وفکری شعور کی آگاہی کو یقینی بنانا،قومی وصوبائی سطح پر سائبر پالیسی اور قانون سازی کا نفاذ اوراطلاق، سوشل میڈیا سے جڑے اداروں کو موثر انداز میں بنانا ، مضبوط کرنا ،خودمختاری دینا ہوگی ۔ کوئی بھی نظام مادرپدر آزادی کے ساتھ نہیں چل سکتا ۔ لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر انھوں نے اس نظام سے فائدہ اٹھانا ہے تو خود بھی ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔
پاکستان نے اگر انتہا پسندی سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں سوشل میڈیا کے محاذ پر موجود انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کو ہر صورت ختم کرنے کے لیے اپنی ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔ اول ہمیں موثر قانون سازی اوراس پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا اوردوئم ہمیں لوگوں کو یہ بات سمجھانی ہوگی یا ان کے شعور کو پختہ کرنا ہوگا کہ وہ انتہا پسندی کے مقابلے میں خود میں بھی اور دوسروں میں اعتدال پسندی اور مختلف نظریہ کے لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے قبولیت کا رویہ یا مزاج پیدا کریں ۔تعلیمی اداروں اورمدارس کو اس کی بڑی بنیاد بنانا ہوگا ۔
تعلیمی نصاب اسکولوں سے لے کر مدارس اور کالجوں سے یونیورسٹیوں تک سوشل میڈیا اور سائبر کرائم پالیسی یا قانون سازی کوتعلیمی سطح پر ہر ڈسپلن میں عملی طور پر لاگو کرنا ہوگا۔ہمیں پابندی کے مقابلے میں اس چیلنج کو بطور ریاست اور معاشرہ قبول کرنا ہوگا کہ ہم اس نئے ابلاغی نظام میں اصلاح کے تمام امکانات کو مضبوط بنائیں گے ۔ بطور معاشرہ ہمیں سوشل میڈیا کی طاقت کو استعمال کرکے معاشرے میں موجود مختلف مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور ریاست سمیت حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ عام آدمی کے معاملات پر فوقیت یا اسے اپنی ترجیحات کا حصہ بنائے ۔
عالمی دنیا میں ہمارے خلاف جو ایک منفی مہم چلتی ہے جس کے پیچھے خاص مقاصد ہوتے ہیں ہمیں اس کا بھی ایک موثر جواب دے کر خود اپنے ملک کا مثبت مقدمہ بھی لڑنا ہے ۔ بالخصوص نوجوان نسل کو اس ملک کے سفیر کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ خرابیاں ہر معاشرے میں ہوتی ہیں لیکن اس کا ہم کو علاج بھی تلاش کرنا ہے اوریہاں جو مثبت تصویریں ہیں ان کو بھی عالمی دنیا میںاجاگر کرنا ہے ۔ ریاستی سطح پر جو مسائل ہیں ان کو بھی اجاگر کریں لیکن اس کا مقصد کسی کی تضحیک کرنا ، منفی مہم چلانا یا اسے کمزور کرنا نہیں ہونا چاہیے ۔
یہ نظام محض میڈیا سے جڑے افراد تک محدود نہیں بلکہ اب تو دنیا میں موجود تمام فریقین طاقت ور ہوں یا کمزور، خواندہ ہو یا ناخواندہ سب ہی اس سوشل میڈیا کے انقلاب سے جڑے نظر آتے ہیں اور اس نظام کو اپنی بڑی طاقت سمجھتے ہیں ۔ سوشل میڈیا نے روائتی میڈیا کے مقابلے میں لوگوں کو جہاں نئی جہتیں دی ہیں وہیں یہ موقع بھی فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی بات بہتر اور موثر انداز میں آگے تک پہنچا سکیں ۔
دنیا میں اب جو سیاسی ، سماجی ،اقتصادی یا علمی و فکری بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس میں سوشل میڈیا ایک بڑا کردار ادا کررہا ہے ۔جو لوگ اس نظام پر تنقید کرتے ہیں عملی طور پر وہ بھی اس نئی ابلاغ کی ترقی سے نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ خود کو تنہا نہیں کرسکے ۔یقینی طور پر جو بھی ترقی کے عمل میں نئی چیز آتی ہے اس کو اول قبول کرنا آسان نہیں ہوتا اور دوئم جب وہ آتی ہے تو اس کے کچھ مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ ہم کو منفی اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجو د ہم ترقی کے اس جدید دور میں اس طرح ابلاغی انقلاب سے نہ خود کو علیحدہ کرسکتے ہیں اورنہ ہی دوسروں یا بالخصوص نئی نسل کو ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا یہ نظام جہاں نئے نئے انقلابات کو لارہا ہے وہیں اس نے باقاعدہ ایک پروفیشن کا درجہ حاصل کرکے نئی نسل کے لوگوں کو ایک بڑا معاشی روزگار بھی فراہم کیا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں سوشل میڈیا یا یوٹیوب چینل پر ہونے والی گفتگو پر بہت سے فریقین یا لوگوں میں سخت تحفظات بھی پائے جاتے ہیں ۔مسئلہ محض تنقید کا ہی نہیں بلکہ سیاسی ، سماجی و اخلاقی معاملات پر بھی بہت سے لوگوں کے سنجیدہ نوعیت کے سوالات موجود ہیں ۔اصل مسئلہ آزادی اظہار سے جڑا ہوا ہے اور اس پر یقینی طور پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہمارا آئین ہمیں آزادی اظہار کی مکمل آزادی دیتا ہے ۔لیکن اس آزادی اظہار کا ایک پہلو ذمے داری کا بھی ہے ۔ یعنی جو لوگ بھی آزادی اظہار کا استعمال کررہے ہیں یہ ان پر بھی بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ''اظہار آزادی بذریعہ ذمے داری '' کا بھی مظاہرہ کریں ۔
اس وقت ہمیں مجموعی طور پر سوشل میڈیا کے تناظر میں پانچ بڑے چیلنجز درکار ہیں ۔ ایک بڑا طبقہ اس عمل میں نہ صرف غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ تنقید اور تضحیک کے بنیادی فرق کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے ۔ دوئم سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر سیاسی ، سماجی ، مذہبی ،اخلاقی و علمی و فکری بنیاد پر انتہا پسند رجحانات ، نفرت، تعصب ، غصہ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ، اپنی سوچ فکر کو محض درست سمجھ کر دوسروں پر زبردستی مسلط کرنا ، دوسروں کی سوچ اورفکر کو نہ صرف تسلیم نہ کرنا بلکہ ان کی رائے کو احترام بھی نہ دینا ، الزام تراشی ، کردار کشی اور مختلف نوعیت کی محاذ آرائی کو فروغ دینا شامل ہے۔
سوئم ریاستی و حکومتی سطح پر تنقید کرتے ہوئے حساس معاملات پر ہونے والی گفتگو میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنا اور اداروں کی تضحیک کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔ چہارم مسائل یا ایشوز کی بنیاد پر مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینے کی بجائے گھر، خاندان ، بچوں ، بچیوں اور گھروں میں موجود افراد سے جڑی ذاتیات پر مبنی گفتگوجس کا مقصد سوائے کردار کشی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔پنجم شواہد، حقایق، تحقیق کو بنیاد بنانے کی بجائے فرضی گفتگو،خبر یا تجزیہ کے مقابلے میں خواہشات اور سوشل میڈیا کو باقاعدہ ایک پروپیگینڈا مہم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
یہ سب کچھ کیونکر ہو رہا ہے اورہم بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ سوشل میڈیا سے جڑے مسائل پر بہتر انداز میں قابو پانے کی بجائے مسلسل مسائل کا شکار ہو رہے ہیں ۔ جو لوگ سوشل میڈیا یا اسے جڑے یوٹیوب یا دیگر معاملات پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں وہ درست حکمت عملی نہیں ۔کیونکہ مسئلہ پابندی کا نہیں ہے اوردنیا میں اس ابلاغ یا جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں پابندی لگا کر ہم ترقی کے بڑے دھارے میں شامل نہیں ہوسکیں گے ۔ جب بھی ہمیں کسی بھی معاملے میں بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو فوری طور پر ہم پابندی کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں جو مسئلہ کے حل کی بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔بنیادی طور پر ہمیں اس مسئلہ کو محض جذباتیت کی بجائے ٹھوس عقلی و عملی و فکری بنیادوں پر سوچنا ہوگا اورایک ایسی حکمت عملی کو ترتیب دینا ہوگا جو ریاست، حکومت سمیت سب اداروں اور میڈیا سے جڑے افراد یا دیگرطبقات کے لیے قابل قبول ہوں ۔
اصل میں اب وقت آگیا ہے کہ سوشل میڈیا سے جڑے افراد یا اداروں کے لیے ہمیں اس نظام میں ریگولیٹ یعنی نظام میں موثر پالیسی اور قانون سازی کرنا ، نگرانی کا موثر اور شفاف نظام کو ترتیب دینا ، شفافیت اورجوابدہی کا نظام قائم کرنا ،لوگوں میں سوشل میڈیا کے استعمال پر سیاسی ، سماجی و علمی وفکری شعور کی آگاہی کو یقینی بنانا،قومی وصوبائی سطح پر سائبر پالیسی اور قانون سازی کا نفاذ اوراطلاق، سوشل میڈیا سے جڑے اداروں کو موثر انداز میں بنانا ، مضبوط کرنا ،خودمختاری دینا ہوگی ۔ کوئی بھی نظام مادرپدر آزادی کے ساتھ نہیں چل سکتا ۔ لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر انھوں نے اس نظام سے فائدہ اٹھانا ہے تو خود بھی ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔
پاکستان نے اگر انتہا پسندی سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں سوشل میڈیا کے محاذ پر موجود انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کو ہر صورت ختم کرنے کے لیے اپنی ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔ اول ہمیں موثر قانون سازی اوراس پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا اوردوئم ہمیں لوگوں کو یہ بات سمجھانی ہوگی یا ان کے شعور کو پختہ کرنا ہوگا کہ وہ انتہا پسندی کے مقابلے میں خود میں بھی اور دوسروں میں اعتدال پسندی اور مختلف نظریہ کے لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے قبولیت کا رویہ یا مزاج پیدا کریں ۔تعلیمی اداروں اورمدارس کو اس کی بڑی بنیاد بنانا ہوگا ۔
تعلیمی نصاب اسکولوں سے لے کر مدارس اور کالجوں سے یونیورسٹیوں تک سوشل میڈیا اور سائبر کرائم پالیسی یا قانون سازی کوتعلیمی سطح پر ہر ڈسپلن میں عملی طور پر لاگو کرنا ہوگا۔ہمیں پابندی کے مقابلے میں اس چیلنج کو بطور ریاست اور معاشرہ قبول کرنا ہوگا کہ ہم اس نئے ابلاغی نظام میں اصلاح کے تمام امکانات کو مضبوط بنائیں گے ۔ بطور معاشرہ ہمیں سوشل میڈیا کی طاقت کو استعمال کرکے معاشرے میں موجود مختلف مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور ریاست سمیت حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ عام آدمی کے معاملات پر فوقیت یا اسے اپنی ترجیحات کا حصہ بنائے ۔
عالمی دنیا میں ہمارے خلاف جو ایک منفی مہم چلتی ہے جس کے پیچھے خاص مقاصد ہوتے ہیں ہمیں اس کا بھی ایک موثر جواب دے کر خود اپنے ملک کا مثبت مقدمہ بھی لڑنا ہے ۔ بالخصوص نوجوان نسل کو اس ملک کے سفیر کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ خرابیاں ہر معاشرے میں ہوتی ہیں لیکن اس کا ہم کو علاج بھی تلاش کرنا ہے اوریہاں جو مثبت تصویریں ہیں ان کو بھی عالمی دنیا میںاجاگر کرنا ہے ۔ ریاستی سطح پر جو مسائل ہیں ان کو بھی اجاگر کریں لیکن اس کا مقصد کسی کی تضحیک کرنا ، منفی مہم چلانا یا اسے کمزور کرنا نہیں ہونا چاہیے ۔