مذہبی رواداری
میں کبھی وہ کام نہیں کروں گا جو پرتگالیوں نے کیا۔ اگر پرتگالیوں نے قرآن شریف کے ساتھ برا سلوک کیا تو۔۔۔
''میں کبھی وہ کام نہیں کروں گا جو پرتگالیوں نے کیا۔ اگر پرتگالیوں نے قرآن شریف کے ساتھ برا سلوک کیا تو ایک بادشاہ کا کام نہیں کہ وہ برائی کا جواب برائی سے دے''۔ اکبر نے اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ''کسی مذہب کی توہین کرنا خدا کی توہین ہے۔ اس لیے وہ ایک معصوم کتاب (بائیبل) سے یہ انتقام نہیں لے گا۔'' ہماری چکر دینے والی تاریخ چکری ہے ہر دور میں لگتا ہے ہمارے مسائل اسی دائرے میں گھومتے ہیں۔ مثالیں تو بے شمار دی جا سکتی ہے لیکن چند اوراق ہی سمجھنے کے لیے بہت ہیں جیسے جلال الدین اکبر نے یہ جواب اپنی ماں کو دیا تھا جب پرتگالیوں کے زیر اثر شہر ہرمز میں قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی تھی۔
جیسے ہی یہ اطلاع مسلم دنیا میں پھیلی تو ہر طرف غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ نفرتوں کے انگارے اسی شدت سے جل رہے تھے جیسے اکثر ہمارے یہاں دیکھے جا سکتے ہیں، پرتگالیوں کے تعصب کی یہ خبر ہرمز سے آئی تھی۔ ہرمز میں پرتگالیوں نے پہلی بار قبضہ کی کوشش 1507 میں کی تھی لیکن وہاں ناکامی ہوئی۔ جب اُن کا کنٹرول گوا اور ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں ہو گیا تو 1514ء میں انھوں نے پھر ہرمز کا رخ کیا جس زمانے میں اکبر ہندوستان میں علاقائی جنگوں میں مصروف تھا اُس وقت پرتگالیوں کا کنٹرول تیزی سے ارد گرد بڑھ رہا تھا۔
پرتگالی مسلمانوں کا مذاق اڑاتے اور پھر وہاں سے ایک خبر مختلف شکلوں میں پھیلنا شروع ہوئی اور قرآن کی مختلف طریقوں سے بے حرمتی کے قصے عام ہو نے لگے جو بیان کرتے ہوئے میرے ہاتھ کپکپانے لگتے ہیں۔ بہر حال اس واقع کی اطلاع کے بعد مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ بائیبل کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے۔ یہاں تک کہ اکبر کی ماں نے بھی اُسے مجبور کیا۔ مگر اکبر نے جذبات کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے دانش سے کام لیا اور تاریخی جملہ کہا کہ کسی مذہب کی توہین کرنا خدا کی توہین ہے۔
حکمرانوں پر کس طرح کا عوامی دباؤ ہوتا ہے اور اسے کس طرح کام لینا ہوتا ہے اس کی ایک اور مثال اُس دور کی دیکھیں جب پرتگالیوں کے سمندری راستے پر کنٹرول کی وجہ سے حاجیوں کو شدید مشکلات ہوتی تھیں۔ ہندوستان سے جانے والے حاجی خشکی کا راستہ اختیار نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ علاقہ کافی غیر محفوظ تھا۔ مگر اب پرتگالیوں کے سمندری علاقوں پر قبضہ کی وجہ سے اب سمندری راستے میں بھی مشکلات تھیں۔ پرتگالی حکومت پر پادریوں کا مکمل قبضہ تھا اور اُن کا مسلمانوں سے رویہ انتہائی برا ہوتا تھا۔
ایس ہولینڈ اور بینرجی نے لکھا ہے کہ سمندری راستے سے حج کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کو پرتگیزی پاسپورٹ لینا پڑتا تھا جس پر حضرت مریم اور حضرت عیسی کی تصویر چھپی ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر مبارک کے مطابق اسی لیے چند علماء نے یہ فتوی بھی دیا تھا کہ اس صورت حال میں حج فرض نہیں۔ اس صورتحال میں اکبر گوا کی طرف پیش قدمی کرتا یا پھر اندر ہونے والی سازشوں سے نمٹتا۔ اب ہم کیا کریں؟ یا پھر اس صورت میں ہمارے حکمراں کیا کریں؟ ہم اپنی سیاست چمکانے کے لیے تو کہہ سکتے ہیں کہ نریندر مودی آرہا ہے۔ جہاد فرض ہو گیا۔ مگر میاں صاحب کیا کریں گے؟
چلیں آگے بڑھتے ہیں۔ یورپ میں پادریوں کا کنٹرول تھا کسی اور مذہب کو برداشت نہیں کیا جا رہا تھا۔ ایک جانب اسی طرح کی شدت پسندی تھی جس کا الزام اب ہمیں دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اکبر کا دربار تھا۔ فتح پور سیکری میں اس دیوان میں تمام مذاہب کے لوگ موجود تھے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کو سنا جاتا تھا، اسی لیے اکبر کے متعلق ہمیشہ افواہیں گردش کرتی تھیں۔
پورا ہندوستان اُس سے کیوں خوش تھا؟ اور آج ہم سے اقلیتیں خوش نہیں اور کس طرح ہمارے یہاں لسانی اور مذہبی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اکبر کے دربار میں جین مذہب کے چھ استادوں کا ذکر ملتا ہے۔ اُس میں سے ایک صاحب جین چندر نے تو دعوی کر دیا تھا کہ اکبر جین مذہب قبول کر چکا ہے۔ لیکن جین مذہب کے ماننے والوں کے سوا کسی اور نے اس کی کبھی تصدیق نہیں کی۔ بس ثبوت کے طور پر یہ کہتے رہے کہ جین مذہب کے عقیدے کے مطابق ایک بار یہ فرمان جاری کیا تھا کہ چھ مہینے تک پوری مملکت میں کوئی جانور ذبح نہیں کیا جائیگا۔ مقصد سیاسی ہو یا پھر کچھ اور مگر اکبر نے جہاں انھیں مطمئن کر دیا تھا وہاں اُن سے سیاسی فائدے بھی لیے۔
اسی طرح جب ہندو، اکبر کے پاس یہ شکایت لے کر گئے کہ سکھ مذہب کی وجہ سے لوگ اپنے آباؤ اجداد کا مذہب چھوڑ رہے ہیں تو انھوں نے ایک مباحثہ کرایا۔ گرو امر داس اور رام داس سے اچھے تعلقات کی مثال سکھوں کی تاریخ میں موجود ہے۔ لوگوں کی تنقید کے بعد دوسرے گرو ارجن کی تدوین کی ہوئی کتاب اکبر نے سنی تو اُس نے کہا کہ یہ ایسی کتاب ہے جس کا احترام کرنا چاہیے۔ مگر اس سے کہیں پر بھی ثابت نہیں ہوا کہ وہ سکھ ہو گیا تھا لیکن پنجاب میں سکھوں کی طاقت کو استعمال کیا۔
گوا سے گئے عیسائیوں کے مشن کو بھی شروع شروع میں بہت امید تھی کہ وہ اکبر کو عیسائی کرلینگے۔ کیونکہ اکبر نے خود انھیں دربار میں بلایا تھا۔ جو مشن وہاں گیا اُس نے اپنی ابتدائی رپورٹ جو گوا بھیجی، اُس میں انھیں کافی امید تھی لیکن بعد میں بہت مایوس ہو گئے۔ ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ ''عوام میں بادشاہ کے بارے میں مختلف رائے ہیں وہ نہ تو اُسے عیسائی سمجھتے ہیں نہ مشرک اور نہ ہی مسلمان اور یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان کا خیال ہے اگرچہ وہ ہے تو مسلمان مگر ظاہری طور پر وہ تمام دوسرے مذاہب کو بھی مانتا ہے تاکہ عوام میں اس کی مقبولیت برقرار رہے''۔
عیسائی مشن کے ان جملوں سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مختلف نقطہ نظر کی اتنی ساری اکائیوں کو کیسے ایک موتی میں پرویا۔ اور ہندو بیویوں کا ذکر تو آپ سب نے سنا ہی ہو گا۔ لیکن اُس کے ساتھ یہ بھی مشہور ہے کہ اکبر دیوالی اور راکھی کا تہوار بھی مناتا تھا۔ چلے اس حوالے سے ایک اچھی خبر مجھے مل گئی ہے کہ پنجاب میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں مختلف فرقوں کے لوگ شریک ہونگے۔
اس ساری تحقیق میں ایک اور بات بھی سامنے آئی کہ اکبر کے زمانے میں سکوں پر کلمہ لکھا ہوتا تھا۔ مگر اُس وقت کوئی بلوا کیوں نہیں ہوا۔ اکثریت ہندووں کی تھی وہ بھی یہ سکے استعمال کرتے تھے۔ اس سے متعلق آج کیا کیا ہو سکتا ہے وہ آپ خود سوچیں۔ میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آج کے لبرل جس مغرب کی مثال دیتے ہیں وہ اسی خطے میں تھی جس عالمگیریت کی بات کرتے ہیں وہ بھی یہی تھی چھوٹی سی مثال کہ 1587 میں اکبر نے یورپ کے حکمرانوں کے نام ایک خط لکھا جو کہ ''جرنل انڈین کویری'' میں موجود ہے۔ بس اُس کا چھوٹا سا حصہ دیکھیں ''دو حکمرانوں کے درمیان امن، دنیا میں لوگوں کے لیے امن ہوتا ہے۔ اس لیے محبت کے تعلق اور اتحاد کو نہ صرف قائم کریں بلکہ اسے استحکام بخشیں۔''
یورپ کی مثالیں دے کر انگریزی اخبار کے صفحے بھرنے والے تھوڑی سی ہماری تاریخ کے عصبیت سے پاک باب بھی دیکھ لیا کریں۔ اور عصبیت سے ہمیں دنیا سے کاٹ دینے والے بھی اپنے ماضی سے سبق سیکھ لیں۔
جیسے ہی یہ اطلاع مسلم دنیا میں پھیلی تو ہر طرف غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ نفرتوں کے انگارے اسی شدت سے جل رہے تھے جیسے اکثر ہمارے یہاں دیکھے جا سکتے ہیں، پرتگالیوں کے تعصب کی یہ خبر ہرمز سے آئی تھی۔ ہرمز میں پرتگالیوں نے پہلی بار قبضہ کی کوشش 1507 میں کی تھی لیکن وہاں ناکامی ہوئی۔ جب اُن کا کنٹرول گوا اور ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں ہو گیا تو 1514ء میں انھوں نے پھر ہرمز کا رخ کیا جس زمانے میں اکبر ہندوستان میں علاقائی جنگوں میں مصروف تھا اُس وقت پرتگالیوں کا کنٹرول تیزی سے ارد گرد بڑھ رہا تھا۔
پرتگالی مسلمانوں کا مذاق اڑاتے اور پھر وہاں سے ایک خبر مختلف شکلوں میں پھیلنا شروع ہوئی اور قرآن کی مختلف طریقوں سے بے حرمتی کے قصے عام ہو نے لگے جو بیان کرتے ہوئے میرے ہاتھ کپکپانے لگتے ہیں۔ بہر حال اس واقع کی اطلاع کے بعد مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ بائیبل کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے۔ یہاں تک کہ اکبر کی ماں نے بھی اُسے مجبور کیا۔ مگر اکبر نے جذبات کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے دانش سے کام لیا اور تاریخی جملہ کہا کہ کسی مذہب کی توہین کرنا خدا کی توہین ہے۔
حکمرانوں پر کس طرح کا عوامی دباؤ ہوتا ہے اور اسے کس طرح کام لینا ہوتا ہے اس کی ایک اور مثال اُس دور کی دیکھیں جب پرتگالیوں کے سمندری راستے پر کنٹرول کی وجہ سے حاجیوں کو شدید مشکلات ہوتی تھیں۔ ہندوستان سے جانے والے حاجی خشکی کا راستہ اختیار نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ علاقہ کافی غیر محفوظ تھا۔ مگر اب پرتگالیوں کے سمندری علاقوں پر قبضہ کی وجہ سے اب سمندری راستے میں بھی مشکلات تھیں۔ پرتگالی حکومت پر پادریوں کا مکمل قبضہ تھا اور اُن کا مسلمانوں سے رویہ انتہائی برا ہوتا تھا۔
ایس ہولینڈ اور بینرجی نے لکھا ہے کہ سمندری راستے سے حج کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کو پرتگیزی پاسپورٹ لینا پڑتا تھا جس پر حضرت مریم اور حضرت عیسی کی تصویر چھپی ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر مبارک کے مطابق اسی لیے چند علماء نے یہ فتوی بھی دیا تھا کہ اس صورت حال میں حج فرض نہیں۔ اس صورتحال میں اکبر گوا کی طرف پیش قدمی کرتا یا پھر اندر ہونے والی سازشوں سے نمٹتا۔ اب ہم کیا کریں؟ یا پھر اس صورت میں ہمارے حکمراں کیا کریں؟ ہم اپنی سیاست چمکانے کے لیے تو کہہ سکتے ہیں کہ نریندر مودی آرہا ہے۔ جہاد فرض ہو گیا۔ مگر میاں صاحب کیا کریں گے؟
چلیں آگے بڑھتے ہیں۔ یورپ میں پادریوں کا کنٹرول تھا کسی اور مذہب کو برداشت نہیں کیا جا رہا تھا۔ ایک جانب اسی طرح کی شدت پسندی تھی جس کا الزام اب ہمیں دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اکبر کا دربار تھا۔ فتح پور سیکری میں اس دیوان میں تمام مذاہب کے لوگ موجود تھے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کو سنا جاتا تھا، اسی لیے اکبر کے متعلق ہمیشہ افواہیں گردش کرتی تھیں۔
پورا ہندوستان اُس سے کیوں خوش تھا؟ اور آج ہم سے اقلیتیں خوش نہیں اور کس طرح ہمارے یہاں لسانی اور مذہبی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اکبر کے دربار میں جین مذہب کے چھ استادوں کا ذکر ملتا ہے۔ اُس میں سے ایک صاحب جین چندر نے تو دعوی کر دیا تھا کہ اکبر جین مذہب قبول کر چکا ہے۔ لیکن جین مذہب کے ماننے والوں کے سوا کسی اور نے اس کی کبھی تصدیق نہیں کی۔ بس ثبوت کے طور پر یہ کہتے رہے کہ جین مذہب کے عقیدے کے مطابق ایک بار یہ فرمان جاری کیا تھا کہ چھ مہینے تک پوری مملکت میں کوئی جانور ذبح نہیں کیا جائیگا۔ مقصد سیاسی ہو یا پھر کچھ اور مگر اکبر نے جہاں انھیں مطمئن کر دیا تھا وہاں اُن سے سیاسی فائدے بھی لیے۔
اسی طرح جب ہندو، اکبر کے پاس یہ شکایت لے کر گئے کہ سکھ مذہب کی وجہ سے لوگ اپنے آباؤ اجداد کا مذہب چھوڑ رہے ہیں تو انھوں نے ایک مباحثہ کرایا۔ گرو امر داس اور رام داس سے اچھے تعلقات کی مثال سکھوں کی تاریخ میں موجود ہے۔ لوگوں کی تنقید کے بعد دوسرے گرو ارجن کی تدوین کی ہوئی کتاب اکبر نے سنی تو اُس نے کہا کہ یہ ایسی کتاب ہے جس کا احترام کرنا چاہیے۔ مگر اس سے کہیں پر بھی ثابت نہیں ہوا کہ وہ سکھ ہو گیا تھا لیکن پنجاب میں سکھوں کی طاقت کو استعمال کیا۔
گوا سے گئے عیسائیوں کے مشن کو بھی شروع شروع میں بہت امید تھی کہ وہ اکبر کو عیسائی کرلینگے۔ کیونکہ اکبر نے خود انھیں دربار میں بلایا تھا۔ جو مشن وہاں گیا اُس نے اپنی ابتدائی رپورٹ جو گوا بھیجی، اُس میں انھیں کافی امید تھی لیکن بعد میں بہت مایوس ہو گئے۔ ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ ''عوام میں بادشاہ کے بارے میں مختلف رائے ہیں وہ نہ تو اُسے عیسائی سمجھتے ہیں نہ مشرک اور نہ ہی مسلمان اور یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان کا خیال ہے اگرچہ وہ ہے تو مسلمان مگر ظاہری طور پر وہ تمام دوسرے مذاہب کو بھی مانتا ہے تاکہ عوام میں اس کی مقبولیت برقرار رہے''۔
عیسائی مشن کے ان جملوں سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مختلف نقطہ نظر کی اتنی ساری اکائیوں کو کیسے ایک موتی میں پرویا۔ اور ہندو بیویوں کا ذکر تو آپ سب نے سنا ہی ہو گا۔ لیکن اُس کے ساتھ یہ بھی مشہور ہے کہ اکبر دیوالی اور راکھی کا تہوار بھی مناتا تھا۔ چلے اس حوالے سے ایک اچھی خبر مجھے مل گئی ہے کہ پنجاب میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں مختلف فرقوں کے لوگ شریک ہونگے۔
اس ساری تحقیق میں ایک اور بات بھی سامنے آئی کہ اکبر کے زمانے میں سکوں پر کلمہ لکھا ہوتا تھا۔ مگر اُس وقت کوئی بلوا کیوں نہیں ہوا۔ اکثریت ہندووں کی تھی وہ بھی یہ سکے استعمال کرتے تھے۔ اس سے متعلق آج کیا کیا ہو سکتا ہے وہ آپ خود سوچیں۔ میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آج کے لبرل جس مغرب کی مثال دیتے ہیں وہ اسی خطے میں تھی جس عالمگیریت کی بات کرتے ہیں وہ بھی یہی تھی چھوٹی سی مثال کہ 1587 میں اکبر نے یورپ کے حکمرانوں کے نام ایک خط لکھا جو کہ ''جرنل انڈین کویری'' میں موجود ہے۔ بس اُس کا چھوٹا سا حصہ دیکھیں ''دو حکمرانوں کے درمیان امن، دنیا میں لوگوں کے لیے امن ہوتا ہے۔ اس لیے محبت کے تعلق اور اتحاد کو نہ صرف قائم کریں بلکہ اسے استحکام بخشیں۔''
یورپ کی مثالیں دے کر انگریزی اخبار کے صفحے بھرنے والے تھوڑی سی ہماری تاریخ کے عصبیت سے پاک باب بھی دیکھ لیا کریں۔ اور عصبیت سے ہمیں دنیا سے کاٹ دینے والے بھی اپنے ماضی سے سبق سیکھ لیں۔