کشمیر ہمیں اپنے زور بازو سے حاصل کرنا ہے

عبدالقادر حسن  اتوار 9 اگست 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کورونا وبا نے دنیا بھر کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے، دنیا کے جو مسئلے زبان زد عام تھے وہ دب گئے۔ کاروباری دنیا میں مندی کے نئے ریکارڈ بن گئے لیکن بات یہ ہے کہ دنیا تو چلتی رہے گی کاروبار بھی ہوتا رہے گا یا پھر نہیں ہو گا لیکن ہم پاکستانیوں کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے کھلے دشمن کے مقابلے میں زندہ رہنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں یا نہیں۔

ہمیں اپنے آپ کو معاشی اور فوجی میدان میں مضبوط کرنا ہو گا، یہ نہیں کہ ہم ہاتھوں میں تلوار پکڑ لیں اور مقامی لوگوں سے آمادہ جنگ ہو جائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ بھارت میں کتنے ہی مودی آ جائیں وہ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اس کے فوجیوں کو خوب معلوم ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں ان کی اوقات کیا ہے۔ بھارت میں ہر الیکشن پاکستان دشمنی کے نام پر جیتا جاتا ہے اور الیکشن میں بھارتی انتہا پسندوں کا یہ مقبول نعرہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں مسلمانوں کا وہی حال کریں گے جو انھوں نے گجرات میں اقتدار ملنے کے بعد کیا تھا۔

اس مرتبہ مودی نے اس نعرے کو عملی تعبیر بھی دی ہے، آج کی جدید دنیا میں انھوں نے جس بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ گزشتہ ایک برس سے کشمیریوں کے بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں اور لاکھوں کشمیریوں کو عملاً قید میں ڈال رکھا ہے، یہ بات اب مزید واضح ہو گئی ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں اندرا گاندھی جیسی روشن خیال اور جدید دنیا کی حکمران خاتون نے ہزار سال غلامی کا نعرہ یونہی نہیں لگایا تھا، یہ اس کے اور ان کروڑوں ہندوئوں کے دل کی آواز تھی۔

اندرا گاندھی کا یہ مشہور نعرہ ہمیں پاکستان کے درو دیوار پر نقش کر دینا چاہیے تا کہ ہمارے مسلمانوں کی نئی نسل کو علم ہو کہ انھوں نے جس قوم کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے وہ کیا ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کی ایسی خواہشات کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہو گا اور خاص طور پر بھارتی مسلمانوں کے دلوں سے اس خوف کو ہر حال میں دور کرنا ہو گا کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

میری دھندلی یادوں میں آج بھی وہ دن روشن ہو جاتا ہے جب کشمیر کی بات ہوتی ہے۔ ایک بچہ گائوں میں اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھا ریڈیو پر خبریں سن رہا تھا، چند روزے دار اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے میرے چچا کے ریڈیو کے گرد جمع تھے، وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں کون کون سے علاقے شامل ہوئے ہیں اور وہ افطاری سے پہلے اس بات کا اطمینان کر کے روزہ کھولنا چاہتے تھے۔

اس مختصر سی محفل میں سب سے زیادہ بے چین بیربل شریف کے حضرت محمد عمر تھے جو میرے بزرگوں کی دعوت پر ان سے ملنے آئے ہوئے تھے جب انکو پتہ چلا کہ گورداسپور بھارت کے حصے میں آ گیا ہے تو انھوں نے بلند آواز میں کہا کہ پھر کشمیر تو گیا۔ محفل میں موجود لوگوں کو گورداسپور اور کشمیر کے اس تعلق کی کسی کو خبر نہ تھی۔ ان کو بتایا گیا کہ کشمیر کو جانے کا راستہ یہی ہے جو ہندوستان کو مل گیا ہے مگر اس مایوس کن اطلاع کے باوجود کشمیر ہمارا ہے کے نعرے کے ساتھ محفل برخاست ہوئی۔

مجھے یہ شام آج بھی یاد ہے جب مسجد کے صحن میں جمع چند افراد ایک طرف سیاست کی باتیں کر رہے تھے اور ہم بچے ان کی باتیں سن کر اسکول کی عمارت کی طرف دوڑ گئے تھے جہاں رونق لگنے والی تھی، قیام پاکستان کا جشن منایا جانا تھا اور سبز ہلالی پرچم لہرایا جانا تھا۔ جن پاکستانیوں نے یہ دن دیکھا تھا ان کویہ کبھی نہیں بھول سکتا جب ہمارے گائوں سمیت پاکستان کا ملک قائم ہونے والا تھا۔

بہر کیف ہم اب وہ نہیں رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے مگر پھر بھی زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کلام پاک میں ہے کہ ہم دنوں کو انسانوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔ اور کیا بعید کہ وہ دن جن میں گھمایا جا رہا ہے کبھی ہمارے حق میں بھی بدل جائیں۔ ہمارے ہمسائے دلی میں جو حکمران ہے ان کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں اور حقیقت میں یہ مسلمانوں کی لاشوں سے گزر کر وزیراعظم بنا ہے اور اس نے مسلمان دشمنی سے کبھی انکار نہیں کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک مسلمان بن کر نریندر مودی کے عہد میں زندہ رہیں گے۔ اس سے بڑی بدقسمتی کی اور بات کیا ہو سکتی ہے کہ ہم اپنی حیثیت بدلنے کی کوشش کرینگے یا نہیں۔ اگر ہم نے مسلمان بننے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے ساتھ جو سلوک ہو گا وہ انسانی تصور سے کچھ بعید نہیں اس لیے ہمیں اب ایک نئی جرات مندانہ زندگی اختیار کرنی ہو گی۔

ملک میںجو سیاستدان موجود ہیں ان پر جب نگاہ ڈالتا ہوں اور سیاستدانوں کی حد تک میں کچھ نہ کچھ جانتا بھی ہوں تو ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ مجھے عمران خان دکھائی دیتا ہے جو فی الحال بظاہر ملاوٹ سے محفوظ ہے۔ دوسری ایک جماعت یعنی جماعت اسلامی ہے جو اپنے اندر ایک ایسا نظام رکھتی ہے کہ اس کی اجتماعی خرابیاں اگر ہوں تو اس چھلنی سے گزرتی رہتی ہیں۔ جماعت ایک مکمل جمہوری جماعت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔

عمران خان صحیح سمت میں جا رہا ہے وہ نا تجربہ کار ضرور ہے مگر بے وقوف نہیں ہے۔ بات یہ کہ قوم کے سامنے کوئی امید تو ہونی چاہیے ورنہ وہ اندھیروں میں بھٹک جائے گی۔ کشمیر کی آزادی کا وقت اب دور نہیں رہا۔ عمران خان نے بالکل صحیح کہا ہے کہ مودی کشمیر کے مسئلے پر پھنس چکا ہے۔ دانشمندی یہ ہوگی کہ پاکستان اپنے کارڈ ہوشمندی سے کھیلے جو مودی کی کشمیر میں جارحیت کو کشمیریوں کی فتح میں تبدیل کر دے۔

جلد یا بدیر یہ فیصلہ ہونے والا ہے اور پاکستان کی جانب سے جاری کیا جانے والا نیا نقشہ بہت جلد حقیقت کا روپ دھار لے گا مگر دشمن عیار اور تعداد میں بہت ہیں لیکن دوست نہ ہونے کے برابر اور مسلمان ملک کے لیڈروں کا حال تو ہمارے سامنے ہے جس کا گلہ ہمارے وزیر خارجہ نے کیا ہے، انھوں نے اسلامی ملکوں کی تنظیم کو برملا کہا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ ہیں یا اس کے مخالف ہیں۔

پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے کہ مسلمان ملکوں نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی وہ مدد اور حمایت نہیں کی جس کی ان کو بطور ایک مسلمان ملک کرنی چاہیے تھی اور اب ہماری حکومت نے ان ملکوں سے اس بات کا گلہ بھی کر دیا۔ لیکن جدید دنیا میں ہر ملک کے اپنے اپنے مسائل اور ترجیحات ہیں ہیں۔کشمیر کی جنگ پاکستان کو اپنے زور بازو پر لڑنی ہے پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ مجاہدین بھی کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیں گے۔ باقی اللہ مدد کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔