فلسطینیوں کی مشترکہ جدوجہد
فلسطین کی وہ تمام تحریکیں جو پورے فلسطین کی آزادی و خود مختاری کے لیے مسلح جدوجہد پر ایمان رکھتی ہیں وہ متحد ہوں۔۔۔
ماہ دسمبر فلسطینیوں کی تاریخ میں کئی وجوہات کی بنا پر شہرت کا حامل ہے۔اس مہینے فلسطین کی آزادی کے لیے ایک مقاومتی محاذ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین یعنی عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کا قیام عمل میں آیا ۔ اس کے اہم رہنماؤں میں مسیحی عرب فلسطینی جارج ہباش(انتقال 2008) اور مسلم عرب رہنما احمد جبریل کا نام لیا جاسکتا ہے۔احمد جبریل آج تک اس محاذ کو فعال رکھے ہوئے ہیں۔
آزادی فلسطین کے لیے مسلح مقاومت پر ایمان رکھنے والے اس گروہ نے احمد جبریل کی قیادت میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے جس میں اڑن چھتری کے ذریعے لبنان سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوکر قابض و جارح صہیونی فوجیوں پر حملہ کرنے کا شجاعانہ منصوبہ بھی شامل ہے۔انیس سو ستراور انیس سو چوہتر میں بھی بعض بڑی کارروائیاں انجام دیں۔انیس سو بیاسی میں لبنان پر صہیونی جارحیت کے دوران تین صہیونی فوجیوں کی رہائی کے بدلے ساڑھے گیارہ سو فلسطینی قیدیوں کی صہیونی قید سے آزادی بھی احمد جبریل کے مقاومتی محاذ (پی ایف ایل پی) کا وہ عظیم کارنامہ تھا کہ جس کی تقلید بعد میں حزب اللہ اور حماس نے کی۔
اگر9 دسمبر 1987 میں فلسطینیوں کی پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تو اس کا کریڈٹ بھی احمد جبریل کے مقاومتی محاذ کو جاتا ہے کیونکہ نومبر انیس سو ستاسی میں اڑن چھتری آپریشن یا یوں کہیے کہ انسانی ڈرون کے ذریعے چند صہیونی فوجیوں کو ہلاک کرکے فلسطینیوں کے حوصلے اسی گروہ نے بلند کیے تھے۔مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین نے بھی انتفاضہ اول کے آغاز کو احمد جبریل کی مقاومت کا تسلسل قرار دیا ۔ یاد رہے کہ اسی تحریک انتفاضہ کی وجہ سے اسلامی بلاک حماس میں تبدیل ہوا اور تیونس میں جلاوطن یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کی حیثیت کو اتنا مضبوط کردیا کہ صہیونی قابضین اور اس کے سرپرست امریکا کو یاسر عرفات سے مذاکرات کرنا پڑے۔
تحریک انتفاضہ میں تعلیم یافتہ فلسطینی نوجوان یا تو نہتے تھے یا پھر ان کا واحد ہتھیار پتھر تھے ۔ان نہتے اور پتھروں سے لیس نوجوانوں کی مقاومت اتنی اثر انگیز تھی کہ قابض صہیونی فوجی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرتے تھے۔صہیونی گولیاں فلسطینیوں کے بلند حوصلوں کے آگے بے بس دکھائی دینے لگیں۔اس انتفاضہ نے فلسطینیوں کا وہ اعتماد بحال کردیا تھا جو پے درپے شکستوں کے بعد ختم ہوچکا تھا۔اس کی برکت سے یاسر عرفات کے گروہ نے فلسطین کی آزادی کا یکطرفہ اعلان کردیاجو ہر اعتبار سے فلسطینیوں کا ناقابل تنسیخ حق تھا (اور ہے)۔
انتفاضہ کا مطلب قیام، حرکت اورجنبش ہے لیکن اصل میں یہ پانی میں بھیگی ہوئی اس چڑیا کی جنبش ہے جس کے بدن پہ پانی کے قطرے بوجھ محسوس ہوتے ہیںاور وہ آسانی سے پرواز کرنے کی خاطر پروں سے پانی گرادیتی ہے۔ ۔فلسطین کے عوام متفق و مشترک ہوکر دو مرتبہ منظم عوامی انتفاضہ کرچکے ہیں۔ انتفاضہ اول نے فلسطینیوں کے حوصلے اتنے بلند کردیے کہ انھوں نے پے درپے شکستوں کے بعد دفن کیے جانے والے مسئلہ فلسطین کو عالمی فورم پر پھر سے زندہ کردیا اورانتفاضہ اول کے دوران ہی یاسر عرفات نے یک طرفہ طور پر آزاد دل فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔
قابض صہیونیوں اور اس کے سرپرست امریکا کو یہ سب کچھ پسند نہیں تھا اور وہ فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا کرتے تھے ۔ لیکن انتفاضہ اول نے انھیں اتنا خوف زدہ کردیاکہ وہ فلسطینیوں کی عوامی مقاومت کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے نئی سازشوں کے ساتھ میدان میں اترے۔ حیلوں بہانوں سے میڈرڈ امن کانفرنس اور پھر اوسلو معاہدے تک معاملات پہنچادیے گئے۔انتفاضہ دوم تک فلسطینیوں کو مختلف بہانوں اور الزامات کے تحت صہیونی ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور اوسلو کا معاہدہ جس کازیادہ تر فائدہ قابض صہیونی اسرائیل کو ہوا تھا اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔
انتفاضہ دوم نے امریکا کی حکومت کو مجبور کیا کہ ایک مرتبہ پھر اپنی ناجائز اولاد قابض اسرائیل کی مدد کو آئے اور بالآخر ایک روڈ میپ کا اعلان کیا گیا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ انیس سو اڑتالیس سے آج تک مختلف اقسام کے معاہدوںاور روڈ میپ کے ذریعے ناجائزریاست اسرائیل کا دفاع کیا جاتا رہا ہے ۔ اور اس حقیقت کی بھی دنیا شاہد ہے کہ فلسطینیوں کو جو تھوڑی بہت آزادی و خود مختاری حاصل ہے اس میںان کی سیاسی جدوجہد سے زیادہ مسلح مقاومت کا کردار ہے۔
لہٰذا آج ضروررت اس بات کی ہے کہ فلسطین کی وہ تمام تحریکیں جو پورے فلسطین کی آزادی و خود مختاری کے لیے مسلح جدوجہد پر ایمان رکھتی ہیں وہ متحد ہوں اور عوامی انتفاضہ کو ماڈل بنا کر متفقہ و مشترکہ جنگ آزادی فلسطین کا آغاز کریں۔ حماس کی قیادت پر لازم ہے کہ رمضان عبداللہ شلاح کی تحریک جہاد اسلامی فلسطین اوراحمد جبریل کی پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کے ساتھ مل کر تنظیم آزادی فلسطین کی تنظیم نو کرکے بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق لائحہ عمل طے کریں۔
آزادی فلسطین کے لیے مسلح مقاومت پر ایمان رکھنے والے اس گروہ نے احمد جبریل کی قیادت میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے جس میں اڑن چھتری کے ذریعے لبنان سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوکر قابض و جارح صہیونی فوجیوں پر حملہ کرنے کا شجاعانہ منصوبہ بھی شامل ہے۔انیس سو ستراور انیس سو چوہتر میں بھی بعض بڑی کارروائیاں انجام دیں۔انیس سو بیاسی میں لبنان پر صہیونی جارحیت کے دوران تین صہیونی فوجیوں کی رہائی کے بدلے ساڑھے گیارہ سو فلسطینی قیدیوں کی صہیونی قید سے آزادی بھی احمد جبریل کے مقاومتی محاذ (پی ایف ایل پی) کا وہ عظیم کارنامہ تھا کہ جس کی تقلید بعد میں حزب اللہ اور حماس نے کی۔
اگر9 دسمبر 1987 میں فلسطینیوں کی پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تو اس کا کریڈٹ بھی احمد جبریل کے مقاومتی محاذ کو جاتا ہے کیونکہ نومبر انیس سو ستاسی میں اڑن چھتری آپریشن یا یوں کہیے کہ انسانی ڈرون کے ذریعے چند صہیونی فوجیوں کو ہلاک کرکے فلسطینیوں کے حوصلے اسی گروہ نے بلند کیے تھے۔مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین نے بھی انتفاضہ اول کے آغاز کو احمد جبریل کی مقاومت کا تسلسل قرار دیا ۔ یاد رہے کہ اسی تحریک انتفاضہ کی وجہ سے اسلامی بلاک حماس میں تبدیل ہوا اور تیونس میں جلاوطن یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کی حیثیت کو اتنا مضبوط کردیا کہ صہیونی قابضین اور اس کے سرپرست امریکا کو یاسر عرفات سے مذاکرات کرنا پڑے۔
تحریک انتفاضہ میں تعلیم یافتہ فلسطینی نوجوان یا تو نہتے تھے یا پھر ان کا واحد ہتھیار پتھر تھے ۔ان نہتے اور پتھروں سے لیس نوجوانوں کی مقاومت اتنی اثر انگیز تھی کہ قابض صہیونی فوجی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرتے تھے۔صہیونی گولیاں فلسطینیوں کے بلند حوصلوں کے آگے بے بس دکھائی دینے لگیں۔اس انتفاضہ نے فلسطینیوں کا وہ اعتماد بحال کردیا تھا جو پے درپے شکستوں کے بعد ختم ہوچکا تھا۔اس کی برکت سے یاسر عرفات کے گروہ نے فلسطین کی آزادی کا یکطرفہ اعلان کردیاجو ہر اعتبار سے فلسطینیوں کا ناقابل تنسیخ حق تھا (اور ہے)۔
انتفاضہ کا مطلب قیام، حرکت اورجنبش ہے لیکن اصل میں یہ پانی میں بھیگی ہوئی اس چڑیا کی جنبش ہے جس کے بدن پہ پانی کے قطرے بوجھ محسوس ہوتے ہیںاور وہ آسانی سے پرواز کرنے کی خاطر پروں سے پانی گرادیتی ہے۔ ۔فلسطین کے عوام متفق و مشترک ہوکر دو مرتبہ منظم عوامی انتفاضہ کرچکے ہیں۔ انتفاضہ اول نے فلسطینیوں کے حوصلے اتنے بلند کردیے کہ انھوں نے پے درپے شکستوں کے بعد دفن کیے جانے والے مسئلہ فلسطین کو عالمی فورم پر پھر سے زندہ کردیا اورانتفاضہ اول کے دوران ہی یاسر عرفات نے یک طرفہ طور پر آزاد دل فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔
قابض صہیونیوں اور اس کے سرپرست امریکا کو یہ سب کچھ پسند نہیں تھا اور وہ فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا کرتے تھے ۔ لیکن انتفاضہ اول نے انھیں اتنا خوف زدہ کردیاکہ وہ فلسطینیوں کی عوامی مقاومت کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے نئی سازشوں کے ساتھ میدان میں اترے۔ حیلوں بہانوں سے میڈرڈ امن کانفرنس اور پھر اوسلو معاہدے تک معاملات پہنچادیے گئے۔انتفاضہ دوم تک فلسطینیوں کو مختلف بہانوں اور الزامات کے تحت صہیونی ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور اوسلو کا معاہدہ جس کازیادہ تر فائدہ قابض صہیونی اسرائیل کو ہوا تھا اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔
انتفاضہ دوم نے امریکا کی حکومت کو مجبور کیا کہ ایک مرتبہ پھر اپنی ناجائز اولاد قابض اسرائیل کی مدد کو آئے اور بالآخر ایک روڈ میپ کا اعلان کیا گیا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ انیس سو اڑتالیس سے آج تک مختلف اقسام کے معاہدوںاور روڈ میپ کے ذریعے ناجائزریاست اسرائیل کا دفاع کیا جاتا رہا ہے ۔ اور اس حقیقت کی بھی دنیا شاہد ہے کہ فلسطینیوں کو جو تھوڑی بہت آزادی و خود مختاری حاصل ہے اس میںان کی سیاسی جدوجہد سے زیادہ مسلح مقاومت کا کردار ہے۔
لہٰذا آج ضروررت اس بات کی ہے کہ فلسطین کی وہ تمام تحریکیں جو پورے فلسطین کی آزادی و خود مختاری کے لیے مسلح جدوجہد پر ایمان رکھتی ہیں وہ متحد ہوں اور عوامی انتفاضہ کو ماڈل بنا کر متفقہ و مشترکہ جنگ آزادی فلسطین کا آغاز کریں۔ حماس کی قیادت پر لازم ہے کہ رمضان عبداللہ شلاح کی تحریک جہاد اسلامی فلسطین اوراحمد جبریل کی پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کے ساتھ مل کر تنظیم آزادی فلسطین کی تنظیم نو کرکے بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق لائحہ عمل طے کریں۔