دم توڑتا معاشرہ

وقت آگیاہے کہ ہم ملک، شہر، گلی، محلے کو سنوارنے کے بجائے اپنے گھر کو دیکھیں۔۔۔


تانیہ حبیب December 13, 2013

روز کی خبریں، موبائل فون نہ دلانے پر 16سالہ لڑکے نے چھت سے چھلانگ لگادی۔ لڑکی کے تنازعے پر 18سالہ لڑکا قتل، جائیداد کے تنازعے پر سگے بھائی بھاوج کا قتل، اغوا برائے تاوان میں سگا ماموں گرفتار،کیا ہم واقعی انسانوں میں زندگی گزار رہے ہیں؟ آج ہمارے معاشرے میں ٹی وی ، کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ جیسی سہولیات عام ہیں اور ٹی وی تو اس شخص کے گھر میں بھی موجود ہے جس کے پاس آٹا خریدنے کو بھی پیسے نہیں، ٹی وی تفریح و معلومات کا بہترین ذریعہ ہے۔

انگلیوں کی حرکت سے کھانا پکانے کے ٹوٹکے سنیں یا فوراً ہی اسلامی معلومات سے بھرپور چینل لگالیں دور بیٹھے، ڈاکٹر ذاکر نائیک لیکچر دیتے نظر آئیں گے تو قریب کے کوئی مولانا درس دیتے نظر آئیں گے۔ مارننگ شو میں کپڑے اور فیشن سے آگہی ہے تو سوشل ایشو پر دل دہلادینے والے انکشافات بھی ہیں۔ اس قدر وسیع معلومات ہر ایک کے لیے۔ مگر کہاں ہیں ان کے اثرات؟ کچھ تو کمی ہے، جو ہم اپنے ہی معاشرے میں ڈرے سہمے ہیں، ذرا سوچیے کہ ہم اپنے ارد گرد بسنے والوں پر کسی بھی قسم کا اعتماد کرسکتے ہیں۔ کیا آج ہمارے معاشرے میں بچیاں گلیوں میں کھیل سکتی ہیں؟ ہمارے بچے باہر جاکر شراب نوشی، سگریٹ نوشی جیسی لعنتوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ ہمارا گھر، بچے، زر، زمین، کھیت بھی محفوظ نہیں ہے؟

ہم اخلاقی طورپر اس قدر پست ہوگئے ہیں کہ ہم اپنے سگے رشتے داروں پر بھی اعتماد نہیں کرسکتے اور یہ سب صرف اس لیے ہورہا ہے کہ ہر شخص معاشرے کو سدھارنے پر تلا ہوا ہے اور اس کے اپنے گھر میں کیا ہورہا ہے اس سے وہ بے خبر ہے۔ معاشرہ جس کی بنیاد ایک گھر سے اور گھرانے سے ہے اور وہی بنیادیں اگر ہل رہی ہوںگی تو معاشرہ کیسے ٹھہر سکے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دین فطرت چودہ سو سال سے ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ ہم پر جن کے حقوق ہیں ان کی ذمے داریاں ہیں اور میں اپنی بات کو آسان بنانے کے لیے کہ اگر میں ٹیچر ہوں تو اسکول کے طالب علموں کو علم سے منور کرنے سے کہیں زیادہ مجھے اپنے بچوں کی تربیت کرنا اہم ہے کیوںکہ میرے اور آپ کے گھر کا بچہ ہی تو معاشرہ بناتا ہے۔

ہم اسمبلیوں میں بیٹھ کر قوانین بنا رہے ہوتے ہیں اور ہمارے اپنے بچے ان قوانین کو سڑکوں پر توڑ رہے ہوتے ہیں، ہم محلے میں سماجی خدمت کر رہے ہوتے ہیں اور بچے گھر میں سماج بگاڑ عادات سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم مساجد میں درس و تدریس دے رہے ہوتے ہیں اور بچے ہمارے محلے کے کونے میں ہر آنے جانے والوں پر کمنٹس دے رہے ہوتے ہیں، اسی لیے شاید جرائم پیشہ افراد لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بچے تو اپنی پہلی درسگاہ یعنی ماں سے ہی سب سے زیادہ سیکھتے ہیں آج کے دور میں وہ درس گاہ اپنے سماجی رابطے اور سیاسی و سماجی بصیرت بڑھانے میں مصروف رہتی ہے، لہٰذا بچہ کب اپنی کلاس کے دوسرے بچے کی پنسل لے آیا اسے پتہ ہی نہیں چلتا اور باپ غم روزگار میں مصروف رہتا ہے اور ذرا فرصت ہوتی ہے تو اسے معاشرے کے غم ستانے لگتے ہیں۔

رہ گئے دادا، دادی، نانا، نانی تو وہ سب سے زیادہ اہمیت اپنے سماجی تعلق پر دیتے ہیں، لہٰذا کمی تو آئے گی نا! رزق حلال کا درس دینے والے اب کہاں؟ اب حال یہ ہے کہ آمدنی ہے اٹھنی اور خرچا ہے روپیہ اور یہ دیکھنے کی فرصت نہ والدین کو ہے کہ ہمارے بچے کس طرح کمارہے ہیں؟ اور نہ یہ فکر بیویوں کو ہے ہر ایک اپنے آپ کو ہائی فائی دکھانے میں مصروف ہے، اس لیے شراب، چوری چکاری، قتل ، اغوا، رشوت، جھوٹ جیسے ناسور معاشرے میں عام ہیں اور ان سب چیزوں کی شروعات ہمارے اور آپ کے گھر سے ہوتی ہے۔ جب ماں بچے کی چوری پر کہتی ہے کہ ارے بڑا ہوکر خود ہی چھوڑ دے گا۔ سن بلوغت میں جب صنف مخالف کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں تو بھی یہی مائیں ہوتی ہیں جو دس لوگوں میں بیٹھ کر کہتی ہیں کہ اس عمر میں سب یہی کرتے ہیں ان کے ابو کو بھی دیکھو جوانی میں۔

اور یہی بچہ جب عملی دنیا میں قدم رکھ کر 15ہزار روپے کماکر جیب میں H.T.C موبائل لے کر گھوم رہا ہوتا ہے اور اماں فرماتی ہیں کہ بھئی ہمارے پاس تو پیسے نہیں ہیں خود جیسے بھی کرکے اپنے شوق پورے کرے اور یہی رویہ گھر سے شروع ہوکر معاشرے کو تباہ کررہاہے۔ 20ہزار روپے کمانے والا گھر میں تین تین اے سی چلاتا ہے اور XLi میں گھومتا ہے اور ہمارا پورا معاشرہ اس کی لیاقت کی تعریف کرتے نہیں تھکتا۔ کیا ہم نے غور کیا ہے کہ سبزی والے کے گھر پروفیسر اور پروفیسر اور عالم فاضلوں کے یہاں کرمنلزکیوں پیدا ہوتے ہیں؟

لہٰذا اب وقت آگیاہے کہ ہم ملک، شہر، گلی، محلے کو سنوارنے کے بجائے اپنے گھر کو دیکھیں اگر گھر میں رہنے والے 3 یا 4 بچوں کی تربیت اچھی ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آگے 4 خاندان سنوار گئے اور اس سے نہ صرف معاشرے میں بہتری آئے گی بلکہ ہمارا رب بھی ہم سے خوش ہوگا، کیوںکہ والدین سے سب سے پہلے ان کی اولاد کی تربیت کے متعلق پوچھا جائے گا اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دوستوں، رشتے داروں میں سر خرو ہونے کے چکر میں اپنے مالک کے سامنے شرمندہ ہوجائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں