اندرکی آگ
اس شیطان کے منہ سے ہر وقت آگ کے شعلے نکلتے رہتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندرکا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ صدیوں کا انتظار ختم ہوا،آج پورا ہندوستان جذباتی ہورہا ہے۔ سب کے تعاون سے اس ''نیک کام'' کا آغاز ہو رہا ہے۔ مندر اینٹوں اور سیمنٹ اور سریے سے تعمیر ہورہا ہے۔
لگتا ہے کہ یہ ایک سیاسی کھیل ہے اور اس کھیل کو مودی کہہ رہا ہے کہ اس کھیل سے سارا ہندوستان جذباتی نعروں میں گم ہے۔ ایک ہزار سال تک اس مقام ایودھیا میں بابری مسجد اپنی تابانیاں دکھا رہی تھی لیکن مودی کے چیلوں نے اس ایک ہزار سالہ پرانی شراب کو عوام کے ہاتھوں میں دے کر ایسا کام کیا ہے کہ ایک جذباتی کھلونا ان کے ہاتھوں میں دے دیا ہے اور اب اس کھلونے سے مودی کے لاکھوں انتہا پسند چیلے آگ اور خون کا کھیل کھیل سکتے ہیں۔ اور اس کھیل میں شرپسندوں کے اندر کا شیطان منہ سے آگ کے شعلے نکالتے ہوئے مسکراتا ہے لیکن یہ مسکراہٹ بڑی قبیح ہوتی ہے جو انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔
اس شیطان کے منہ سے ہر وقت آگ کے شعلے نکلتے رہتے ہیں۔ دنیا میں بہت سارے مذاہب کے لوگ ہیں جو ایک لاجک ایک ذہنی قبولیت کے ساتھ زندہ رہ رہے ہیں۔ لیکن مودی کے اندر کا شیطان نفرتوں سے شروع ہوتا اور نفرتوں پر ختم ہوتا ہے۔ دنیا والوں نے دنیا میں امن کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے کچھ اصول کچھ طریقہ کار بنا رکھے ہیں اور دنیا میں مذہب کو ایک فلسفہ حیات کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ بدھ مت کو دیکھ لیں وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں سے انسان تو کیا کسی جاندار کو بھی تکلیف نہ پہنچے۔ قتل و غارت، مذہبی منافرت جن افراد کا موٹو ہو ان سے دنیا میں رہنے والا انسان ہر وقت خوفزدہ رہتا ہے۔
مذاہب کو انسانوں کے درمیان بھائی چارے اور رواداری کا پیغامبر ہونا چاہیے جو لوگ دنیا میں انسانوں کے درمیان نفرتوں، عداوتوں کے پرچارک ہوتے ہیں وہ انسانیت کے پرچارک نہیں ہوسکتے بلکہ نفرتیں بانٹنا اور تشدد پھیلانا ان کا مشن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا ہزاروں سال گزرنے کے باوجود امن کا گہوارا نہ بن سکی نفرتوں، خون خرابوں کا مرکز ضرور بن گئی ہے۔ یہ نفرتیں یہ عداوتیں انسانوں کو انسانوں سے دور اور متنفر کردیتی ہیں، انسانوں کا خون بہانا انسانوں کو انسانوں سے دور کرنا انسانیت نہیں انسانیت کی توہین ہے۔
جب نفرت بھڑکتی ہے تو 1947 کا وحشیانہ دور آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے پھر کل تک ساتھ رہنے والے آگ اگلنے لگتے ہیں اور انسان انسان کا خون پانی کی طرح بہانے لگتا ہے، کیا یہ آدم کے خلاف ایک وحشیانہ کھیل نہیں کہلاتا۔
ہم ماضی کے اندھیروں میں ابھی تک ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ کشمیر ایک ملک ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے۔ اس کشمیر کو جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حسن کی دیوی ہے اس حسن کی دیوی کے دیش میں 36 ہزار ناریاں بھوک سے مجبور ہو کر اپنی آبرو بیچ رہی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ آگ کو دیکھ کر ہاتھ تاپنے والے تو ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں لیکن اس آگ کو بجھانے والے نظر نہیں آتے یا بہت کم کم نظر آتے ہیں۔ آگ بری بلا ہے جو بددماغی سے شرو ع ہوکر بددماغی پر ہی ختم ہوتی ہے۔ دنیا میں 7 ارب انسان رہتے ہیں۔ بھارت ایک بڑا بلکہ آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں ہزاروں لوگ بھوک سے ہزاروں لوگ بیماریوں سے ہزاروں لوگ بیکاریوں سے ہزاروں بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں ہزاروں حاملہ خواتین ناقص غذا کی وجہ موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔
کشمیر میں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں اور دنیا کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق کشمیر پر کشمیریوں کا حق ہے لیکن مودی اینڈ کمپنی نے طاقت کے ذریعے اس حق کو چھین کر کشمیر میں ایسی آگ لگا دی ہے جسے سرد یا ختم ہونے میں کئی نسلوں کا فاصلہ موجود ہے مودی نے رام مندر کا افتتاح کرکے ان فاصلوں کو اور زیادہ اور ان نفرتوں کو اور گہرا کر دیا ہے۔
ہو سکتا ہے اس ''نیک کام'' سے مودی کی نفسیات کو تسکین ملے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری اس پہلے ہی سے نفرت بھری دنیا میں مودی نے جو اضافہ کیا ہے اس پر اسے داد نہیں دی جاسکتی۔ دنیا میں ایک مودی نہیں ہزاروں مودی ہیں ان کے درمیان بڑا بھائی چارہ اور یکجہتی ہے ان کے نام الگ الگ ہیں ان کی بودو باش الگ الگ ہے لیکن ان کا خمیر ایک ہی نظریے سے اٹھا ہے اور وہ ہے دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے نفرت کرو۔
کرہ ارض کو وجود میں آئے ہوئے لاکھوں سال ہو چکے ہیں اس دوران جانے کتنے مودی کتنے مذاہب روشناس ہوئے لیکن انسان کی معلوم تاریخ نفرتوں اور جنگوں سے بھری ہوئی ہے۔ انسانوں کو الگ الگ خانوں میں بانٹنے والوں کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ دنیا کا ہر انسان آدم کی اولاد اور خونی رشتوں میں بندھا ہوا ہے۔