فائبرآپٹک کا جال بچھائے بغیرڈیجیٹل پاکستان کا خواب ادھورا

پاکستان میں 10 فیصد سے بھی کم موبائل ٹاور فائبرآپٹک سے جڑے ہوئے ہیں


Express Tribune Report August 10, 2020
وفاق، صوبائی اور شہری حکومتوں کو مل کر رکاوٹیں دور کرنی ہوں گی

MILAN: ہم اکثر اپنے حکمرانوں سے سنتے ہیں کہ پاکستان ڈیجیٹلائزیشن کی راہ پر گامزن ہے۔

اس سلسلے میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، بلاک چین، فائیو جی وغیرہ کی بات کی جاتی ہے۔ مگر ڈیجیٹلائزیشن کی اولین شرط یعنی ڈیجیٹل ایکسس یا ڈیجیٹل رسائی کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل رسائی کا حال یہ ہے کہ چھوٹے شہروں میں طلبا آن لائن کلاسیں نہیں لے سکتے، اور فری لانسرز بڑے شہروں میں کچھ منتخب جگہوں ہی سے کام کرسکتے ہیں۔ اگر حکومت پاکستان ڈیجیٹلائزیشن میں سنجیدہ ہے تو پھر گھروں تک فائبرآپٹک کا جال بچھانا ہوگا، مگر یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ اس صورت میں صارفین کے پاس آخری آپشن وائرلیس موبائل ہی بچتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ' موبائل لاسٹ مائل' کو مضبوط بنانا ہوگا۔ آپٹک فائبر میں ریڈیو مائیکروویو سے 10ہزار گنا زیادہ ڈیٹا سفر کرسکتا ہے۔ پاکستان میں 10 فیصد سے بھی کم موبائل ٹاور فائبرآپٹک سے جُڑے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپٹک فائبر کے لیے زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے اور نفع وصول ہونے میں خاصا عرصہ لگ جاتا ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر پر حکومت کی جانب سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی سوائے حکومت کی ضروریات کے لیے نیشنل ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن کی طرف سے لگائے گائے سرمائے کے ۔اس کے علاوہ بھی آپٹک فائبر کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں جیسے آپٹک فائبر کو عمومی طور پر زیرزمین بچھایا جاتا ہے۔ اس کے لیے مختلف محکموں سے اجازت کا حصول ایک الگ دردِ سر ہے۔ اس کے لیے وفاق، صوبائی اور شہری حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں