قیام پاکستان میں سندھ کا کردار
یہ شرف بھی سندھ ہی کو حاصل ہے کہ قیام پاکستان سے قبل بھی یہاں پانچ سال تک مسلم لیگ کی حکمرانی رہی۔
KARACHI:
اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کی آئینی جنگ جیتنے کا سہرا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے سر ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی بے دریغ قربانیوں کے بغیر اس وطن عزیز کا معرض وجود میں آنا ہرگز ممکن نہ تھا۔ اس حوالے سے غیر منقسم ہندوستان کے ان مسلمانوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور سر فہرست ہیں جنھیں یہ معلوم تھا کہ وہ آزاد پاکستان کے ثمرات سے محروم ہندو حکمرانوں ہی کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے ۔
چناں چہ ہم پر لازم ہے کہ ہر سال اپنا جشن آزادی مناتے ہوئے سب سے پہلے خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کریں جس نے ہمیں یہ پیارا وطن عطا فرمایا ، پھر مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ارواح کے لیے ایصال ثواب کریں اور اس کے بعد ان تمام شہیدوں کو نذرانہ عقیدت پیش کریں جن کی بے دریغ قربانیوں کے طفیل ہی اس عظیم مملکت کا قیام ممکن ہوسکا ۔
برصغیر کے مسلمانوں کی دینی و سیاسی جد وجہد کے علاوہ علمی و ادبی کاوشوں میں بھی سندھ کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ یہ اور بات ہے کہ مرکزی اور زیادہ ترقی یافتہ علاقوں سے دوری کی وجہ سے اس کا کردار روشنی میں نہ آسکا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ نے نہ صرف قیام پاکستان میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ استحکام پاکستان میں بھی اس کا کردار کلیدی ہی رہے گا۔
سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی سر آغا خان اور بانی پاکستان قائد اعظم دونوں ہی سندھ کے مایہ ناز سپوت تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی تاریخی نقطہ نظر سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ مسلم لیگ کا پہلا اجلاس 29/30 دسمبر 1907 ء میں کراچی ، سندھ میں ہی منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد 1938 ء میں مسلم لیگ کا ایک اور تاریخی اجلاس بھی کراچی ہی میں منعقد ہو ا تھا جس میں وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس میں پاکستان کی مکمل تصویر پیش کی گئی تھی، آگے چل کر یہی قرار داد لاہور کی مشہور قرارد داد پاکستان کی بنیاد بنی ، اسی اجلاس میں قائد اعظم نے سندھ مسلم لیگ اور سندھ کے مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ صوبہ سندھ ہندوستان کے لیے ایک نمونہ ہوگا کیونکہ یہاں کے مسلمانوں نے عظیم بیداری کا ثبوت دیا ہے۔ 1940 ء کی تاریخی قرار داد کے بعد سندھ اسمبلی نے1943 ء میں پاکستان کے حق میں قرار داد منظور کر کے دوسرے مسلم اکثر یتی صوبوں پر برتری حاصل کرلی ۔
یہ شرف بھی سندھ ہی کو حاصل ہے کہ قیام پاکستان سے قبل بھی یہاں پانچ سال تک مسلم لیگ کی حکمرانی رہی۔ یہ بھی سندھ اسمبلی کا ہی طُرہ امتیاز ہے کہ قیام پاکستان کے حق میں اس کے ووٹوں کی شرح سو فیصد تھی ۔ جب بہار میں 1945 ء کے فسادات میں ہندوؤں نے وہاں کے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کی املاک لُوٹی تھیں تو سندھ کے قائدین نے پیر الٰہی بخش کی سرکردگی میں متاثرہ لوگوں کی حمایت اور داد رسی کی غرض سے وہاں کا ہنگامی دورہ کیا تھا جو سندھ کے مسلمانوں کے جذبہء اخوت کا آئینہ دار ہے۔ اس وفد نے بہار کے ہندوؤ ں پر یہ واضح کر دیا کہ اگر انھوں نے بہار کے مسلمانوں کا قتل عام بند نہ کیا تو پھر سندھ کے ہندوؤں کی جان و مال کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔
سندھ کے مسلمان فطرتاََ نہایت فراخ دل ، محبتی اور مہمان نواز ہوتے ہیں۔ ملنساری اور بھائی بندی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس کا عظیم الشان مظاہرہ اس وقت بھی ہوگیا تھا جب قیام پاکستان کے موقع پر انھوں نے ہندوستان سے آنے والے اپنے لٹے پٹے مہاجر بھائیوں کا پُرجوش خیر مقدم کرتے ہوئے انصار مدینہ کی طرح آگے بڑھ کر اپنے گلے لگا لیا تھا ۔ گویا
آملے ہیں سینہ چا کان چمن سے سینہ چاک
سندھ کے شاعروں اور ادیبوں نے بھی تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور تعمیر پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جس کا تذکرہ کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں حقائق سے پوری طرح آگا ہوسکیں اور کسی جھوٹے پروپیگنڈے کے فریب میں آکر گمراہ ہونے سے بچ سکیں۔ شمس الدین بُلبُل کو سندھ کا پہلا قومی شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان کے کلام میں علامہ اقبال کی شاعری کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے ۔ اس کے بعد مرزا قلیچ بیگ کی شاعری میں اسلام کا عکس نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ آپ نے نظریہ ء و حدت اسلام کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔
آپ علامہ اقبال سے اتنا متاثر ہوئے کہ ان کے شاہکار ترانہ ملّی '' چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا '' کو سندھی زبان کے قالب میں ڈھال دیا ۔ ادھر مولوی اللہ بخش نے '' مسدّس حالی '' کی پیروی کرتے ہوئے '' مسدّس بوجھو'' تحریر کی جس میں انھوں نے سندھ کے مسلمانوں کی بہادری اور عروج و زوال کی دل سوز داستان بیان کی ہے کہ بقول شاعر : ۔
زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
سندھی شاعر غلام احمد نظامی نے بھی گل و بلبل کی روایتی شاعری کو ترک کر کے قومی شاعری کی روش اختیار کی۔ سندھی ادیبوں اور شاعروں نے اپنے ادب اور شاعری کو اسلامی رُخ اور رنگ دینا شروع کر دیا ۔ '' سندھی سُدھار سوسائٹی '' نے 1940 ء میں ماہنامہ '' ادیب سندھ'' کی اشاعت شروع کردی جس میں قومی اور اخلاقی نظمیں شایع ہوتی تھیں ۔ نظامی صاحب ہی کی کوششوں سے 1945 میں لاڑکانہ میں جمعیت الشعرائے سندھ قائم ہوئی ۔ نظامی (مرحوم) نے اسلامی تشخص کو ابھارنے اور تحریک پاکستان کو تقویت پہنچانے والی متعدد نظمیں لکھیں جن میں ''ترانہ پاکستان'' ''کانگریسی مولوی'' '' قومی پرچم ''۔ ''خطاب بہ مسلم نوجوان '' اور '' خطاب بہ شعرائے سندھ'' جیسی معرکتہ الآرا نظمیں شامل ہیں ۔
جذبہ ء ملت اسلامیہ اور تحریک پاکستان کے حوالے سے سندھی مسلم شاعروں کی کاوشوں کا دائرہ محض سندھی زبان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اردو زبان تک وسیع ہے ۔ چنانچہ قیام پاکستان سے متاثر ہوکر سندھ کے متعدد شاعروں نے اردو زبان میں بھی اپنے جذبات کا نہایت خوبصورتی سے پُر جوش اظہار کر کے ملّی وحدت کو فروغ دینے کی لائق تحسین کوشش کی ہے جو وقت اور حالات کے حوالے سے ملک وقوم کا اہم ترین اور اولین تقاضہ ہے۔ ذیل میں اس شاعری کے چند نمونے پیش خدمت ہیں ۔ لاڑکانہ کے نواز علی خان نیازؔ (مرحوم) اظہار مسرت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
گر کوئی گلچیں کرے اس باغ میں شورو فغاں
اُس کو باہر پھینک کر بن جائیں ہم خود باغباں
کاش ! ہٹ جائے یہ اپنا بوستاں اب بے خزاں
سب کہیں یہ ملک پاکستان ہے یا گلستاں
حافظ عبداللہ بسملؔ نے وطن عزیز پاکستان سے اپنی بے پایاں محبت کا اظہار اس انداز میں کیا ہے :
نشان عظمت قومی عیاں ہے اپنے صحرا میں
ترقی کا نظارہ ہے یہاں ہر چشم بینا میں
غلام احمد نظامی نے درج ذیل الفاظ میں وطن عزیز کو خراج محبت پیش کیا ہے :
مئے سرشار اور آباد ہے سارا جہاں یارو
ہمارا ملک پاکستان ہے جنت نشاں یارو
مخدوم محمد صالح بھٹی علاقائی و لسانی تعصب کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے ببانگ دہل کہتے ہیں :
غلط ہے گر کہے کوئی یہ سندھی ہے یہ ایرانی
مسلماں بس مسلماں ہے نہ رومی ہے نہ تورانی
اختر ہالائی وحدت ملّی کے حوالے سے کہتے ہیں :
اپنا ہے ایک مذہب اپنا ہے ایک قرآں
بے شک ہیں بھائی بھائی دنیا کے سب مسلماں
مخدوم طالب المولیٰ نے طرز اقبال پر ان الفاظ میں خودی کا درس دیا ہے !
کیوں کریں اپنے مُقدّر کا گلہ شام و سحر
اک نیا اپنی زمیں پر آسماں پیدا کریں
الحاج اللہ بخش عُقیلی نے بانی پاکستان قائد اعظم کو ان کے یوم پیدائش پر عقیدت سے سرشار ہوکر یوں نذرانہ پیش کیا ہے:
جس کی گرج سے تھا بُت طاغوت پا ش پاش
وہ برق کفر سوز محمد علی جناح
آخر میں پیش ہے وطن عزیز کے حوالے سے ڈاکٹر شیخ محمد ابراہیم خلیل ؔکا یہ امید افزا خوبصورت شعر
خدا کے فضل سے اُبھرا ہلال پاکستاں
رہیں گے جس میں امیر و غریب سب یکساں