ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ ایس بی سی اے کے حوالے کرنے کیخلاف درخواست خارج
ہائیکورٹ نے اسامہ وحید کو خیبر پختونخواہ کے فوجی حراستی مرکز میں قید کرنے کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کردیے
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ماسٹرپلان ڈپارٹمنٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بجائے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حوالے کرنے کے خلاف آئینی درخواست خارج کردی ۔
درخواست گزاروں یونائٹیڈ ورکرز فرنٹ ماسٹرپلان ڈپارٹمنٹ (سی بی اے ) اور کے ڈی اے لیبر یونین نے لوکل گورنمنٹ سندھ ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ایم سی اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے بیرسٹر عبدالرحمن کے توسط سے آئینی درخواست دائر کی تھی کہ ماسٹر پلاننگ کا شعبہ شہرکراچی کے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے انتہائی اہم ہے اس لیے اسے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت ہی ہونا چاہیے لیکن حکومت سندھ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اس محکمے کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حوالے کردیا ہے ۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے شاہد جمیل ایڈووکیٹ نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں کیونکہ درخواست گزار ادارے کی نمائندہ سی بی اے یونین ہے، علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے طالبعلم اسامہ وحید کو کراچی سے گرفتارکرکے خیبر پختونخواہ کے فوجی حراستی مرکز میں قید کرنے کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ ،آئی ایس آئی،ایم آئی اور آئی بی کے سربراہان ،ایس ایس پی ایسٹ اور ایس ایچ او ایئرپورٹ کونوٹس جاری کرتے ہوئے 10 جنوری تک جواب طلب کرلیا،جمعرات کو جسٹس غلام سرورکورائی اور جسٹس غلام رسول میمن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے جمعرات کو بھائی کی گمشدگی سے متعلق افضل وحید کی درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل سید عبدالوحید ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کے بھائی اسامہ وحید کو ریاستی اداروں نے غیر قانونی حراست میں لیاتاہم عدالت نے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ،عدالت کے حکم پر اسامہ وحید کے بڑے بھائی اجمل وحید30جون 2011کو اپنے بھائی کو لینے اڈیالہ جیل پہنچے تو میڈیا کی موجودگی میں انھیں رہا کردیا گیا اور دونوں بھائی نجی ایئر لائن کی پرواز سے کراچی پہنچے ، مگر یکم جولائی2011کو جب نجی ایئر لائن کی متعلقہ پرواز کراچی ایئرپورٹ پہنچی تو دونوں بھائی ایئر پورٹ سے باہر نہیں آئے۔
جب وہ ایئر پورٹ سے باہر نہیں آئے تو ان کی تلاش شروع کی گئی اور پولیس سے رابطہ کیا گیا تاہم کوئی سراغ نہ ملنے پرسندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، درخواست کی سماعت کے دوران ایئر پورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوگیا کہ دونوں بھائی کراچی ایئر پورٹ پہنچے تھے،اس درخواست کی سماعت کے دوران اجمل وحید 13جنوری 2013کو گھر واپس آگئے مگر اسامہ وحید کے بارے میں مچھ معلوم نہیں ہوسکا،بعد ازاں سرکار کی جانب سے بتایا گیا کہ اسامہ وحید ان لوگوں میں شامل ہے جنھیں کے پی کے میں فوجی حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔
درخواست گزاروں یونائٹیڈ ورکرز فرنٹ ماسٹرپلان ڈپارٹمنٹ (سی بی اے ) اور کے ڈی اے لیبر یونین نے لوکل گورنمنٹ سندھ ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ایم سی اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے بیرسٹر عبدالرحمن کے توسط سے آئینی درخواست دائر کی تھی کہ ماسٹر پلاننگ کا شعبہ شہرکراچی کے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے انتہائی اہم ہے اس لیے اسے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت ہی ہونا چاہیے لیکن حکومت سندھ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اس محکمے کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حوالے کردیا ہے ۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے شاہد جمیل ایڈووکیٹ نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں کیونکہ درخواست گزار ادارے کی نمائندہ سی بی اے یونین ہے، علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے طالبعلم اسامہ وحید کو کراچی سے گرفتارکرکے خیبر پختونخواہ کے فوجی حراستی مرکز میں قید کرنے کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ ،آئی ایس آئی،ایم آئی اور آئی بی کے سربراہان ،ایس ایس پی ایسٹ اور ایس ایچ او ایئرپورٹ کونوٹس جاری کرتے ہوئے 10 جنوری تک جواب طلب کرلیا،جمعرات کو جسٹس غلام سرورکورائی اور جسٹس غلام رسول میمن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے جمعرات کو بھائی کی گمشدگی سے متعلق افضل وحید کی درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل سید عبدالوحید ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کے بھائی اسامہ وحید کو ریاستی اداروں نے غیر قانونی حراست میں لیاتاہم عدالت نے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ،عدالت کے حکم پر اسامہ وحید کے بڑے بھائی اجمل وحید30جون 2011کو اپنے بھائی کو لینے اڈیالہ جیل پہنچے تو میڈیا کی موجودگی میں انھیں رہا کردیا گیا اور دونوں بھائی نجی ایئر لائن کی پرواز سے کراچی پہنچے ، مگر یکم جولائی2011کو جب نجی ایئر لائن کی متعلقہ پرواز کراچی ایئرپورٹ پہنچی تو دونوں بھائی ایئر پورٹ سے باہر نہیں آئے۔
جب وہ ایئر پورٹ سے باہر نہیں آئے تو ان کی تلاش شروع کی گئی اور پولیس سے رابطہ کیا گیا تاہم کوئی سراغ نہ ملنے پرسندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، درخواست کی سماعت کے دوران ایئر پورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوگیا کہ دونوں بھائی کراچی ایئر پورٹ پہنچے تھے،اس درخواست کی سماعت کے دوران اجمل وحید 13جنوری 2013کو گھر واپس آگئے مگر اسامہ وحید کے بارے میں مچھ معلوم نہیں ہوسکا،بعد ازاں سرکار کی جانب سے بتایا گیا کہ اسامہ وحید ان لوگوں میں شامل ہے جنھیں کے پی کے میں فوجی حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔