ڈاک بابو، اتنا لیٹ کیوں؟

راضیہ سید  منگل 11 اگست 2020
خطوط دیر سے ملتے ہیں، پارسلز کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا، عملے کا رویہ بھی مناسب نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خطوط دیر سے ملتے ہیں، پارسلز کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا، عملے کا رویہ بھی مناسب نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’غلطی ہوگئی جناب جو میں نے آپ کی ہیلپ لائن پر کال کرنے کی جسارت کرلی۔ گناہ عظیم ہوگیا جو ڈاک خانے کے شکایت سیل میں دو ماہ سے گمشدہ پارسل کے بارے میں معلوم کرنے کا سوچ لیا‘‘۔ نصیر صاحب نے یہ کہنے کے بعد ٹھک سے فون بند کردیا اور پوسٹ آفس والوں کو کوسنے لگے۔

’’حد ہوگئی، دو ماہ ہوچلے ہیں، فواد نے میرے نئے کپڑے اور چند کتابیں کیا پارسل کروا دیں کسی اور کو مسئلہ ہو نہ ہو ڈاک خانے والے دیر کرکے اپنی جلن نکالنے لگے ہیں۔ بیٹے بیچارے نے سوچا ہوگا کہ باپ کتابوں کے سہارے ہی کچھ تنہائی دور کرلے گا لیکن نہیں، اولاد اچھی ہو اور پھر ڈاک بابو بھی اچھا ہو۔ نصیر ایسا میں اپنے جیتے جی تو نہیں دیکھوں گا۔

اور تو اور اس ہیلپ لائن والے بدتمیز لڑکے کو دیکھوٍ، مجھے کہنے لگا بڑے میاں صرف اپنا نام بتائیں ہمارے پاس آپ کی تفصیلات پتہ کرنے کا وقت نہیں۔ غصے میں میں بھی اسے ایسا بتاتا کہ نانی یاد آجاتی کہ تم لوگوں کی ہی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ تمام حدود اربعہ سامنے رکھ کر کال کریں۔‘‘ نصیر صاحب کی خودکلامی بڑھتی گئی۔

پاکستان پوسٹ کے بارے میں یہ کہانی حرف بہ حرف سچ ہے۔ اس کا تجربہ مجھے بچپن سے ہی ہے، کیونکہ لاہور میں ننھیال سے ملنے والے پارسل، جو سردیوں میں بھیجے جاتے تھے وہ کم و بیش ایک ڈیڑھ مہینے کے بعد ہی ملا کرتے تھے۔ ہاں کبھی اگر جلدی مل جاتے تو ہماری خوشی دیدنی ہوتی تھی یا پھر ابو ہمیں بتاتے تھے کہ اس دفعہ اس لیے جلدی ڈاک آئی کیونکہ عید ہے اور ڈاکیے نے عیدی وصول کرنی ہے۔ ساتھ ہی عام دنوں کے مقابلے میں ڈاک کے چارجز بھی زیادہ ہیں۔

آج سے 20 سال پہلے کی بات کروں تو ہمارے خاندان میں کسی کو بھی پارسل کروانا ہوتا تو وہ ہمارے گھر آجاتے اور ساتھ میں انھیں ململ کا سفید کپڑا اور لک (جس سے کپڑا جوڑا جاتا اور پارسل کے کناروں کو سینے کے بعد مضبوط کیا جاتا تھا) بھی لانا ہوتا تھا۔

ابو سب کے پارسل سفید دھاگے سے سیتے اور بعد میں لال رنگ کی لک پارسل کے کناروں پر لگا کر پارسل کو مضبوط بناتے۔ اس دوران ہم بچے چیزیں دیکھتے رہتے۔ ہم کبھی پھوپھو یا چچا وغیرہ کی طرف سے بھیجی جانے والی چیزوں اور تحائف کو نہ تو خراب کرتے نہ ہی ان سے کچھ مانگتے۔ لیکن اس گرم لک کو چھونے کی کوشش میں کئی دفعہ میں نے اپنے ہاتھ جلا ڈالے کہ تجسس تو سب بچوں سے زیادہ مجھ میں تھا۔

ماضی کی طرح اب بھی پوسٹ آفس کے حوالے سے برق رفتار سروس کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ سب کچھ آن لائن ہوگیا، اتنی ترقی ہوگئی، یہ ہو گیا وہ گیا۔ لیکن نہیں اب بھی خچر سروس ہی ہے۔

اب بھی خطوط دیر سے ملتے ہیں۔ اب بھی پارسلز کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ اب بھی فاصلاتی تعلیم کے نتائج اور کتابوں کی ترسیل تاخیر سے ہوتی ہے۔ پارسل گم ہوجائے تو 4 دن کا وقت ہوتا ہے شکایت درج کروانے کے لیے۔ لیکن شکایت درج کرنے والے عملے کا رویہ بہت تلخ اور حقیرانہ ہوتا ہے۔ جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ ملکی اداروں کی ترقی اور بہتری کےلیے اپنا کردار ادا کریں۔ قومی اداروں کی خدمات حاصل کرکے ان اداروں کو مالی اعتبار سے مضبوط بنائیں۔ چاہے ان اداروں کی کارکردگی زیرو ہو، آپ اپنی حب الوطنی نبھاتے رہیں۔

آج بھی ڈاک خانوں میں دیکھ لیجئے، ٹکٹ ملے گا تو سیاہی سوکھی پڑی ہوگی۔ سیاہی مل جائے گی تو گوند موجود نہ ہوگی۔ ٹکٹ مانگیں گے تو وہاں موجود عملہ آپ کو ٹکٹ دینے کے بجائے پورے کا پورا باکس ہی آپ کے سامنے رکھ دے گا کہ اپنی مرضی سے چن لیں۔ اور اگر سیاہی، گوند اور ٹکٹ ہوں گے تو قلم کی غیر موجودگی آپ کو طیش میں مبتلا کردے گی۔ یہی وجوہات ہیں کہ آج کل عوام کی اکثریت خطوط اور تحائف سب کی ترسیل کےلیے پرائیویٹ کمپنیوں اور کوریئر سروسز کا استعمال کرتی ہے، انھیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ اور یہ تب تک ہوتا رہے گا جب تک قومی ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر بناکر معیاری سروسز فراہم نہیں کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔